ڈاکٹر مشتاق حسین
ایک مشہور ماہرِ فلکیات کا رل سگان کے مطابق سائنس کا بنیادی ماخذ بظاہر دو مخالف نظریا ت کا توازن ہے۔ جہاں ایک طرف کھلے ذہن کے ساتھ ہر قسم کے نظریات کو جگہ دی جاسکتی ہے، چاہے و ہ کتنا ہی مافوق الفطرت کیوں نہ ہو۔ وہیں دوسری طرف انہیں مفروضوں اور پہلے سے ثابت شدہ نظریات کو مسلسل قدرے ظالمانہ حد تک جانچ پڑتال کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ بالآخر انہی دونوں سوچوں کے توازن سے نئے حقائق دریافت ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک کا رل سگان کا یہ قول سائنس کی چند ایک جامع اور بہترین تعریفوں میں سے ایک ہے جو کہ مجموعی طور پر سائنسی طریقہ کار کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ اگر آپ کسی بھی ثا بت شدہ تحقیق کو بغور دیکھیں گے تو وہ آپ کو اسی مظہرسے جنم لیتی ہوئی معلوم ہونگی۔ دنیا بھر کے سائنس دان جو تحقیقات کرتے ہیں ان کی تقریباً تمام سائنسی جرائد میں اشاعت اسی اصول کے تحت ہوتی ہے۔
ماحولیات :
سائنسی اور صنعتی ترقی نے جہاں بنی نوع انسان کے لیے کئی سہولیات مہیا کی ہیں وہیں اس کے مضر اثرات بھی وقت کے ساتھ نمایاں ہو رہے ہیں۔ صنعتی ترقی کا غالباً سب سے زیادہ اور براہ راست اثر قدرتی ماحول پر ہو ا ہے۔ اسی بات کا ادراک اب شاید دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کو بھی ہوچکا ہے۔ 2023 میں بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے کئی اشارے 2023 میں شائع ہوئے جن میں سے چند اہم پیش ِنظر ہیں۔
جنوری2023میں شائع ایک تحقیق کے مطابق براعظم افریقا کے قریب پائے جانے والے مدگاسکر نامی جزیرے میں جانداروں کی انواع میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔ اور اسی جزیرے پہ موجود جانداروں کی کئی اقسام معدوم ہو چکی ہیں۔ اس خطرناک حد تک ہونے والی معدومیت سے باہر آنے کے لیے اب جزیرے کو دو کڑوڑ تین لاکھ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ فروری2023میں شائع ایک سائنسی جائزے کے مطابق براعظم انٹارٹیکا میں برف کی مقدار میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے،جس کے باعث سطح سمندر میں عالمی طور پہ مسلسل اضافہ مشاہدے میں آرہا ہے۔
توانائی کے متبادل ذرائع بڑ ھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے اور روکنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک جرثومے Mycobacterium smegmatis سے ایک خامرہ HUC دریافت ہوا ہے ۔ اس خامرے کی مدد سے یہ بیکٹیریا ہوا سے توانائی اخذ کر سکتا ہے۔ اس خامرے کے صنعتی استعمال کے لئے مزید تحقیق کے نتائج انتہائی دلچسپ ہوں گے۔ گزرتا سال اپریل کے مہینے میں ماحول کے لئے انتہائی مضر کیمیائی مرکبات chlorofluorocarbons کی ماحول میں مقدار بڑھنے کے حوالے کے بارے میں تحقیق شائع ہوئی۔ یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ ان مرکبات کے اخراج پر1989ء میں پابندی لگا دی گئی تھی۔
اس پابندی کے باوجود رواں سال میں ان کے اخراج میں اضافہ کی وجہ تا حال معلوم نہ ہو سکی ہے۔ اگست 2023 ءمیں شائع ایک جائزے کے مطابق دنیا میں پائے جانے والے تمام سمندروں کا اوسط درجۂ حرارت مجموعی طو ر پر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ جو کہ خطر ناک ماحولیاتی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔ اسی سلسلے میں اگست 2023 ءمیں شائع ایک اور تحقیق کے مطابق کرۂ ارض کے اوسط درجۂ حرارت میں2 C کے اضافے نتیجے میں ایک ارب اموات ہوسکتی ہے۔
ستمبر2023میں نیچر کمیونیکشن جیسے بڑے سائنسی جریدے میں شائع ایک تحقیق کے مطابق اگر گوشت کے موجودہ استعمال کو نباتات کے ذریعے حاصل شدہ خوراک سے تقریباً 50 فیصد کم کر دیا جائے تو 2050 ءتک جنگلات کی تباہی تقریباً ختم کی جاسکتی ہے ،جس کے ماحول پہ دورس نتائج مرتب ہونگے۔ ستمبر 2023 ءمیں ایک جرثومے Vibrio natriegens کی دریافت کو شائع کیا گیا جو کہ مائیکرو پلاسٹک میں پائے جانے والے مرکبات کو تحلیل کر سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پلاسٹک کا 60فی حصہ ہر سال زمین میں دبا دیا جاتا ہے۔ جہاں اس کی تحلیل میں قریباً2500 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔ اس صورت ِ حال کو ان بیکٹیریا کو استعمال کر کے قابو میں لایا جاسکتا ہے۔
طب اور حیاتیات :
سائنس کے تمام مضامین میں انسا ن کا سب سے زیادہ براہ راست اور گہرا تعلق بالعمو م حیاتیا ت اور بالخصوص طب سے ہے۔ اسی لحاظ سے حیاتیاتی اور طبی تحقیق کی رفتار اور نتیجتاً مقدار باقی تمام شعبوں کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس بات کا اندازہ ا س بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حیاتیاتی اور طبی تحقیق کو شائع کرنے والے سائنسی جرائد کی تعداد باقی تمام مضامین کے جرائد سے قدرے زیادہ ہے ۔ 2023ء میں حیاتیاتی اور طبی تحقیق میں خاطرخواہ دریافتیں وقوع پزیر ہوئیں جن میں سے کچھ کو انتہائی اختصار کے ساتھ یہاں بیان کیا گیا ہے۔
انسانی جسم کی ساخت سائنس کی ابتدائی تاریخ سے ہی بڑے انہاک سے زیر مطالعہ رہی ہے اور یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کی اندرو نی ساخت کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے شاید ہی اب کچھ رہ گیا ہو۔لیکن اس سال جنوری میں سائنسدانوں نے انسانی دماغ کے اطراف میں ایک اور باریک جھلی کا پتہ چلایا ہے جو کہ دماغ کو بیماری پیدا کرنے والے جراثیم سے بچاتی ہے۔قریباً دس سال پہلے سائنسدانوں نے کینسر سے تعلق رکھنے والے چند بنیادی عوامل کی نشاندہی کی تھی جنہیں مجموعی طور پر کینسر کے hallmarks کہا جاتا ہے۔
جنوری2023 میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ڈھلتی عمر کے عوامل اور کینسر کےhallmarks میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ اسی تعلق سے جنوری میں شائع تحقیق کے مطابق انسانی جنیاتی مادّے میں موجود retrovirusesعمر گزارنے کے ساتھ جاگ جاتے ہیں جو کہ عمر بڑھنے کی علامت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ بات مسلم ہوتی جارہی ہے کہ انسانی صحت کو برقرار رکھنے میں اس کے جسم میں پائے جانے والے مفید بیکٹیریا کا اہم کردار ہے ۔اور مختلف بیماریوں کے
دوران ان کی تعداد اور ترکیب میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
جنوری 2023ءمیں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق ایک ساتھ رہنے والے لوگوں میں مفید جراثیم کی تر کیب میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے کچھ بیکٹیریا تو کئی اینٹی بایوٹک کے خلاف ایک ساتھ مزاحمت رکھتے ہیں جنہیں superbug کہا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی فروری 2023ءمیں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 2050ءتک ان superbug بیکٹیریا سے ہلاکتو ں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر جائے گی ۔انسانوں میں ہونے والے سالماتی عوامل اور بیماریوں کے خلاف تیا ر کئے جانے والی ادویات کی جانچ کے لیے عام طور پہ مختلف جاندار استعمال کئے جاتے ہیں جنہیں animal model کہا جاتا ہے۔ مثال کہ طور پہ چوہا، بندر اور خرگوش وغیرہ۔
لیکن سائنسدان تقریباً ایک صدی سے ایک مکھی بھی اس مقصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں جسے Drosophila melanogaster کہا جاتا ہے ۔ یہ مکھی عام گھریلوں مکھیوں سے کئی گنا چھوٹی ہوتی ہے۔ اور اسے آپ نے اکثر اپنے گھروں میں پھلوں کے اوپر منڈلاتے دیکھا ہوگا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً 500سے زائد انسانی بیماریاں اس مکھی میں مختلف طریقے سے پیداکر کے تجربات کئے گئے ہیں اور اب تک سائنس کا سب سے بڑا انعام نوبل اگر کسی animal model کو ملا ہے تو وہ یہی مکھی ہے۔
مارچ 2023 میں مشہور سائنسی جریدے سائنس میں شائع اسی مکھی کے larva کے دماغ کا مکمل خلیاتی ڈھانچہ شائع ہوا، جس کے مطابق اس مکھی کے لارواکا دماغ قریباًتین ہزار خلیات سے بنا ہوتا ہے۔جن کے درمیان ساڑھے پانچ لاکھ جڑواں ہوتے ہیں ۔ جن کے ذریعے یہ آپس میں پیغام رسانی کرتے ہیں۔الزائمرجو کہ دماغی خلیات کے بتدریج ختم ہونے سے پیدا ہونے والی لاعلاج بیماری ہے۔ دماغی خلیات میں ایک مضر پروٹین tau کے بننے کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اپریل 2023ء میں شائع تحقیق میں انسانو ں میں اس پروٹین میں بننے والے جین کو خاموش کر کے اس بیماری کے بڑھنے میں تقریباً 50 فی صد کمی کا مظاہرہ کیا گیا ہے ۔ جون 2023ء میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق 2050ء میں ذیابطیس کے شکار انسانوں کی تعداد ایک ارب تیس کروڑ ہوجائے گی اور دنیا کے کسی بھی ملک میں بھی اس بیماری کی کمی کے کوئی امکانات نہیں۔
اگر چہ انسانی جنیاتی مادّے کی ساخت کا تعین 2000ءمیں ہوچکا تھا لیکن اس وقت کی تیکنیکی اسطاعت کے باجود اس کے کچھ حصے اب تک نامعلوم تھے۔ نومبر 2023ءمیں برطانوی حکومت نے CRISPR نامی جینیاتی تیکنیک جس کے موجد کو 2021ءمیں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا کو سکل سیل انیمیا اور بیٹا تھیلی سیمیا نامی بیماری کے علاج کے لئے موزوں قرار دیا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس تیکنیک کے ذریعے کئی بیماریوں کے علاج کے تجربات کامیابی سے جاری ہیں اور روز بروز اس کی افادیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔(جاری)