ہلال بخاری
پریشر کُکَر
ایک بار بچپن کے زمانے میں امتحانات کے دوران میں اپنے اندر بہت تناؤ محسوس کر رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے پریشر کی وجہ سے میرا ننھا سا سر پھٹنے والا ہے اور دل کسی گمنام کھائی میں ڈوبنے والا ہے۔
تو اس وقت بابا جانی، جو میرے استاد بھی تھے، نے میری حالت دیکھ کر میرے اندرونی کرب کو محسوس کیا۔
پھر اس نے مسکرا کر پوچھا،
” بیٹا، کیا بات ہے ؟ ”
” کچھ نہیں” میں نے سر کر کو جھکا کر جواب دیا”
لیکن وہ میرے چہرے کی واضح تحریر کو پڑھ کر سب سمجھ چکے تھے۔ انہوں نے میرے
کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھا اور پھر کہا، “میرے ساتھ آو۔”
وہ مجھے کچن میں لے گئے۔ وہاں پر پریشر ککر چولہے پر زور سی سیٹیاں مار رہا تھا۔
ابا جانی نے کہا،
” اسے دیکھو ”
میں دیکھتا رہا مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا، میں ابا جانی کے منہ کو تکنے لگا۔ تب اس نے دانائی سے بھرے لہجے میں مجھ سے مخاطب ہو کر کہا،
“اس پریشر ککر کو غور سے دیکھو۔ اس میں میں جو بھی چیز ہے یہ اسکو اپنے اندر کے پریشر سے ہی تیار کرتا ہے۔”
میں تھوڑا تھوڑا سمجھنے لگا۔ پھر اس نے اپنا دانائی سے لبریز کلام جاری رکھ کر فرمایا۔
” لیکن اس پریشر ککر کے اوپر جو ویٹ ہے وہ آپکے دماغ کی طرح ہے۔ یہ پریشر کو اس خوبی سے منیج کرتا ہے کہ برابر اتنا ہی پریشر اندر رہے جتنا اس کے لئے کار آمد ہو۔ تم بھی اسی طرح اپنے پریشر کو بجا طور پر منیج کرنا سیکھ لو۔”
انکی یہ بات اتنی کار آمد ثابت ہوئی کہ پھر زندگی میں جب بھی میں نے اپنے اندر تناؤ محسوس کیا تو میرے ذہن نے ہمیشہ اسکو منیج کرنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ ہی نکالا۔
آزمائش
کیا جانور بھی گناہ کے مرتکب ہوسکتے ہیں؟
کیا ان معصوموں کی بھی آزمائش ہوتی ہے ؟
یا یوں ہے کہ زندگی بس سب کے لئے بے رحم ہے ؟
کل شام سردی بہت تھی ، ایسی سردی کہ جانور بھی اسکے آگے بے بس و لاچار نظر آرہے تھے۔ میں جب گھر کی طرف آرہا تھا تو راستے میں میری نظر کچھ آوارہ کتوں پڑی۔ جب میں نے غور سے دیکھا تو ان میں سے اکثر کو میں نے شدید سردی میں کانپتے ہوئے پایا۔
میں گھر پہونچا اور جلد سے کھانا کھا کر گرم بستر میں لیٹ گیا۔ خواب میں میں نے دیکھا کہ میں ایک سنسان راستے سے گزر رہا ہوں۔ وہاں کچھ جانور آپس میں لڑ رہے ہیں۔ پہلے میں نے ان کی طرف کچھ دھیان نہیں دیا۔ لیکن پھر وہ ایک دوسرے کا تعاقب کرنے لگے اور میری ٹانگوں میں گُھسنے لگے۔ میں ڈر محسوس کرنے لگا۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک کتے نے ایک بلی کے بچے کو ایسا زور دار تھپڑ مارا کہ وہ بے چارہ دور جاکر گرا اور بے ہوش ہوگیا۔
میں نے پہلے سوچا کہ فطرت کے معاملات میں میرا دخل دینا ضروری نہیں۔ مگر جب وہ کتا اس بلی کے معصوم بچے کو پھر سے دبوچنے لگا تو مجھ سے رہا نہ کیا۔ مجھے لگا جیسے وہ بلی کا بچہ چیخ چیخ کر پکار رہا ہو،
” میری مدد کرو۔”
جو خود اپنے بچوں کی محبت میں گرفتار ہو وہ دوسرے بچوں کی آہ بکا کو کیسے برداشت کرسکتا ہے ؟
میں نے آگے بڑھتے ہوئے کتے پر حملہ کیا اور بلی کے بچے کو اس کے پنجوں سے آزاد کرالیا۔
لیکن پھر میری نظر کتے پر پڑی اور جب میں نے غور سے دیکھا تو مجھے لگا کہ جیسے وہ کتا مجھ سے کہہ رہا ہو،
” بے رحم انسان اب میں اپنے بچوں کو کیا کھلاؤں گا ؟ وہ بھوکے مر جائیں گے۔”
مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ میں نے بلی کے معصوم بچے کو بچا کر اچھا کیا یا بُرا۔ اس دنیا کی یہ ریت ہے کہ اگر شکاری شکار کرنے میں ناکام ہوتا رہے گا تو اس کو ایک نہ ایک دن ایک ایسے وقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب وہ خود ہی شکار بن جاتا ہے۔
میں اس خیال کی وحشت سے درد و کرب محسوس کرنے لگا اور بے چین ہونے لگا، اتنا بے چین کہ نیند میں زور زور سے ہانپنے لگا۔ مگر جب میں بیدار ہوا تو کچھ پل کے لئے مجھے سکون ملا کہ جو کچھ میں نے ابھی ابھی دیکھا تھا صرف ایک خواب تھا۔
مگر جب میں نے غور کیا تو یہ خواب بھی بے وجہ نہ تھا۔ سردی کی اس ٹھٹھرتی رات میں مصیبت میں پڑا ایک بلی کا بچہ باہر زور زور سے چلا رہا تھا، جیسے پکار پکار کر کہہ رہا ہو،
“ماں ماں ، مرا مرا, مدد مدد”
مگر نہ جانے اسکی ماں یہ مشکل ایام کہاں گزار رہی تھی۔
اس بلی کی یہ درد ناک آہ و زاری اور وہ شام کا منظر میرے اس خواب کی وجہ ہوگی، یہی میں نے سوچا۔
اگر چہ مجھ کو اس بلی کے حال پر بہت ترس آیا مگر اس سے پہلے کہ میں اور سوچ لیتا کہ اس کی مدد کی کوئی تدبیر کروں نیند مجھ پر پھر غالب آئی اور میں حال سے بے خبر ہوگیا۔
پھر اس کے بعد میں کچھ حسین سپنے دیکھنے لگا، خوبصورت بہاروں ، پھولوں اور چہروں کے سپنے۔ ان بہاروں کے سپنے جن کے آنے میں ابھی بہت وقت تھا، ان پھولوں کے جو کچھ دن کے مہمان ہوتے ہیں اور ان چہروں کے جو خوابوں اور خیالوں میں ہی زیادہ حسین نظر آتے ہیں۔
اگلی صبح بیدار ہوکر میں اس گزری ہوئی رات کے بارے میں سوچنے لگا۔ ان لاچار جانوروں کے بارے میں جو بے گناہ ہوکر بھی مصیبت جھیل رہے ہیں اور ان خوبصورت خوابوں کے بارے میں بھی جو بس خواب ہی رہتے ہیں۔ مگر پھر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ کچھ خواب اور سپنے ہی انسان کو زندگی کی آزمایش سے آزاد کرسکتے ہیں چاہے کچھ دیر کے لئے ہی سہی کچھ لوگوں کو ہمیشہ خوابوں کی دنیا میں رہنے کی صلاحیت ملی ہے۔ بس یہی لوگ ہیں جو اپنی آزمایش کے غلبے سے دیر پا آزاد رہ سکتے ہیں۔
���
ہردوشورہ کنزر ٹنگمرگ