خورشید احمدگنائی
۔5 اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں سیاست کہیں جاتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اگر ہمارے سیاستدان 2021 سے لے کر گزشتہ تین برسوں کی اپنی کامیابیوں کو شمار کریں، کووڈ کے بعد اور احتیاطی حراست سے رہائی کے بعد، تو شاید گننے کیلئے کچھ زیادہ نہ ہوگا۔ نہ تو وہ جموں و کشمیر کو درپیش سیاسی مسائل کے تئیں عام لوگوں کو حساسیت کی کسی بھی سطح پرولولہ پیدا کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور نہ ہی دہلی سے کوئی تازہ یقین دہانی حاصل کر پائے ہیں۔
صرف دو ہی یقین دہانیاں ہیں جو اگست 2019 میں دی گئی تھیں، انتخابات اور ریاست کا درجہ۔ لہٰذاجب مقامی رہنما شمال مشرق کی مشابہت پر مذاکرات یا پاکستان کے ساتھ بات چیت کا مطالبہ کرتے ہیں، تو یہ فریب ہے اور یہ صرف غیر ضروری سیاسی گرانقدر ہی کے مترادف ہے کیونکہ دہلی کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کبھی نہیں کی گئی اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو بار بار مسترد کیا گیا۔
جموں و کشمیر میں پارٹیوں کے ساتھ بات چیت کا مطالبہ اگست 2019 سے پہلے کی مدت میں کیا جانا چاہیے تھا، خاص طور پر 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد، کیونکہ بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں نے انتخابی مہم کے دوران پہلے ہی جموں و کشمیر کے حق میںدھارائوں(آئینی دفعات) اور ‘پریوارواد(خاندانی راج) کو ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کیاتھا۔
اور جب خودوزیراعظم نے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کے ساتھ ’سب کا وشواس‘ کا اضافہ کیا، تو مقامی رہنما موقعہ کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے اورآئینی انتظا مات کے ساتھ کچھ کرنےسے قبل انہیں اعتماد میں لینے کا مطالبہ کرنے سے رہ گئے یوں یہ موقعہ گنوایا گیا۔ مئی 2019 میں انتخابی نتائج کے بعد این ڈی اے کے نومنتخب اراکین پارلیمان سے اپنے خطاب میں وزیراعظم نے’ ‘سب کا پریاس‘ کو ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس کے ساتھ جوڑ دیا لیکن ہمارے قائدین ایک بار پھر بات چیت کا مطالبہ کرنے میں ناکام ہوگئے
دفعہ370 اور اگست 2019 کے دیگر فیصلوں سے متعلق درخواستوں پر سپریم کورٹ کے 11 دسمبر کے فیصلہ کے بعد کچھ درخواست گزار نظر ثانی کی درخواستیں جمع کر رہے ہیں۔ یہ اچھی سوچ ہے۔ اگرچہ کسی ریلیف کی توقع نہیں ہے، لیکن یہ عدالت کو ریکارڈ درست کرانے کیلئے بتانے کا موقع ہے کہ انہوں نے درخواستوں کی سماعت کے دوران کن چیزوں کو نظر انداز کیا ہو گا اور قانون کی تشریح میں کہاں غلطی کی ہو گی۔
فی الحال مقامی جماعتوں کو نئے مطالبات اٹھانے کے بجائے صرف پہلے سے دی گئی یقین دہانیوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ جموں و کشمیر کو ملک کی دیگر بڑی اور پرانی ریاستوں کے برابر لانے کے لیے مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ یہ ایوان کے فلور پر دی گئی ریاست کی بحالی کی اصل یقین دہانی کے ساتھ بہت زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔
آرٹیکل 371 یا ترمیم شدہ آرٹیکل 370 کے تحت خصوصی دفعات کا مطالبہ صرف ایک منتخب ریاستی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ لہٰذا، اس مرحلے پر دہلی کے ساتھ بات چیت کا مطالبہ نہ کرنے میں زیادہ معقول وجہ ہے کیونکہ دہلی ممکنہ طور پر غیر منتخب جماعتوں اور افراد کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔
سیاسی رہنماؤں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک سیاسی پوزیشن سے دوسری سیاسی پوزیشن پر نہ جائیں کیونکہ اس سے عدم استقامت ظاہر ہوتی ہے۔ انہیں اس پرانی کہاوت کا علم ہونا چاہیے کہ ‘جو کسی چیز کے لیے کھڑے نہ ہوں،وہ شمار نہیں کئے جاتے ۔
سیاسی قائدین اور پارٹیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ساکھ نہ کھوئیں کیونکہ اس کے بعدگرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والوں اوربدقماش عناصر کے سیاسی میدان میں کودنے کے امکانات موجود ہیں جو سابقہ ریاست کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔
کشمیر کی سیاست اتحاد کے فقدان کی وجہ سے تقسیم در تقسیم ہے۔ کشمیر کی تمام پارٹیاں اور جموں کی کچھ پارٹیاں یکساں مقاصد کے لیے کام کرنے کا وعدہ کر رہی ہیں، یعنی مقامی لوگوں کے زمینوں اور ملازمتوں کی حفاظت اور آبادیاتی تبدیلی کی کوششوں کے خلاف لڑنا۔لیکن ان مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے اتحاد قائم کرنے کے بجائےوہ اگست 2019 کے واقعات کے لیے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں اور انتخابی و سیاسی پوائنٹ سکورنگ حاصل کر رہے ہیں۔اس باہم جنگ کے نتیجے میں مینڈیٹ منقسم ہوگا اور ان میں سے کوئی بھی ان مقاصد کور حاصل کرنے کیلئے لے دے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا جن کیلئے وہ انتخابات سے پہلے کے مرحلے میں عوام کے سامنے دعویٰ کر رہے ہیں۔
جموں و کشمیر میں بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کچھ اہم سیاسی اور غیر سیاسی مسائل ہیں جن سے ہمارے سیاسی لیڈروں کو احتیاط سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے جموں اور کشمیر کے خطوں کے درمیان دوستی پیدا کرنے کے لیے کام کرنا ہے اور اس کے لیے دونوں خطوں کی ہم خیال جماعتوں کے سیاسی اتحاد بہت مددگار ثابت ہوں گے۔
جموں و کشمیر کی سیاسی اور انتظامی تاریخ کا ایک بدقسمت حصہ ماضی میں مختلف مقامات پر بعض طبقات کی جانب سے جموں کو کشمیر کے خلاف اور کشمیر کو جموں کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش رہی ہے۔ اگرچہ دونوں خطوں میں عوام کے جائز مفادات کے درمیان کبھی کوئی تعطل نہیں رہا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جماعتوں کو اتحاد پیدا کرنے کے لیے تمام خطوں میں سیاسی سرگرمیاں بڑھانی چاہئیں۔ دونوں خطوں میں اتحاد، ہم آہنگی اور بھائی چارے کے حق میں ایک بہت بڑا حلقہ ہے۔
سیاسی طور پر حساس مسائل جیسے حلقوں کی حد بندی، نوکریوں اور اسمبلی سیٹوں میں ریزرویشن کو تمام پارٹیوں کو سیاسی طور پرمدبرانہ انداز میں سنبھالنے کی ضرورت ہے تاکہ علاقائی اور فرقہ وارانہ بیانیے کو سیاسی اور انتخابی گفتگو پر غلبہ حاصل کرنے سے روکا جاسکے۔ہمارے سیاستدانوں کو بھی مستقبل کا اندازہ لگانے کے قابل ہونا چاہیے اور انتخابات کے بعد کے دور کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ تقرریوں یا الاٹمنٹ میں یا اس معاملے کے لیے کسی بھی انتظامی کارروائی میں شفافیت کے فقدان کے دن گئے۔
عوام ،سیاسی کارکنوں کوآسمان سے تارے توڑ لانے کا وعدہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اب من مانی انتظامی کارروائی اور فیصلہ سازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ڈیجیٹائزیشن، ای گورننس اور ای آفس موجودہ دور کی حقیقتیں ہیں اور سیاست دانوں سے بھی نئے نظام کے اندر کام کرنے کے لیے کہا جائے گا جیسا کہ ملک کے دیگر حصوں میں ہو رہا ہے۔
(خورشید احمد گنائی سابق جموںوکشمیرکیڈر کے ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر اور گورنر کے سابق مشیر ہیں)