سیما مہتا۔پوتھنگ، اتراکھنڈ
گزشتہ سال کے آخری مہینے میں، نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) نے سال 2022 کے لیے جرائم کے اعداد و شمار جاری کئے تھے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں جہیز کے نام پرملک بھر میں 6516 خواتین کو قتل کیا گیا، یعنی ہر روز تقریباً 17 خواتین کو صرف جہیز کی لالچ میں مار دیا گیا۔ جبکہ صرف 2022 میں ملک بھر کے مختلف تھانوں میں جہیز کے لیے ہراساں کرنے کے تقریباً 14 لاکھ 4 ہزار 593 مقدمات درج کئےگئے۔ یہ ہندوستان میں دیگر جرائم کا 20.9 فیصد ہے۔ یہ تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں یہ بُرائی ختم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔ شہروں کی طرح دیہاتوں میں بھی یہ سماجی بُرائی ناسور کی طرح پھیل چکی ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں میں بھی جہیز کے نام پر لڑکیوں کا جسمانی اور ذہنی استحصال کیا جاتا ہے۔ اس پر اتنا تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ خودکشی جیسا سنگین قدم اٹھالیتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ گاؤں کی ساخت ایسی ہے کہ شہروں کی بُرائیاں وہاں تک نہیں پہنچتی ہیں۔ لیکن جہیز ایک ایسا غلاظت بن چکا ہے کہ اس نے شہروں سے لے کر ملک کے دور دراز کے دیہی علاقوں تک ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔ یہ بُرائی ہر گاؤں میں عام ہو چکی ہے۔ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کا پوتھنگ گاؤں بھی اس بُرائی سے متاثر ہوچکا ہے۔ یہ گاؤں ریاست کے باگیشور ضلع میں واقع کپکوٹ بلاک سے تقریباً 25 کلومیٹر دور پہاڑی وادیوں میں واقع ہے، جس کا قدرتی حسن قابل دید ہے۔ لیکن تقریباً دو ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں بھی جہیز کی بُرائی نے اپنےپَر پھیلائے ہیں، جس کی وجہ سے گاؤں کا سماجی تانے بانے بکھرنے لگے ہیں۔ جہاں جہیز کے لالچ کی وجہ سے لڑکیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے، انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے، اور اس حد تک ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہے۔اس حوالے سے گاؤں کی 18 سالہ لڑکی پوجا گڈیا کا کہنا ہے کہ جہیز ایک ایسی برائی ہے، جس کی وجہ سے لڑکی کے گھر والوں کو انتہائی مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ جب بھی اپنی لڑکی کی شادی کے بارے میں سوچتے ہیں تو اس سے پہلے انہیں جہیز کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔کئی لڑکیوں کا رشتہ صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔ لڑکے والے پہلے لڑکی والوں سے جہیز دینے کی صلاحیت کے بارے میں پوچھتے ہیں، ان کی حیثیت دیکھتے ہیں۔ اس برائی کی وجہ سے بہت سے غریب والدین لڑکی کی پیدائش نہ ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ پوجا کا کہنا ہے کہ اکثروالدین لڑکی کو اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز دیتے ہیں لیکن اگر لڑکے والوں کے مطالبات پورے نہ ہونے پر وہ لڑکی کو جسمانی اور ذہنی زیادتیوں کے ذریعے تنگ کرتے ہیں۔ ایک اور 17 سالہ لڑکی تنوجا کا کہنا ہے کہ جہیز کی وجہ سے دیہی علاقوں میں والدین اپنی بیٹی کی تعلیم پر اخراجات کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس کے جہیز کے لیے چیزیں خریدنا اس کی تعلیم پر خرچ کرنے سے بہتر ہوگا۔
جہیز کی وجہ سے لڑکیوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے 48 سالہ مالتی دیوی کہتی ہیں کہ ان کے محلے میں ایک نئی شادی شدہ خاتون کو جہیز کم لانے پر سسرال والے باقاعدگی سے مار پیٹ کرتے ہیں۔ مالی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے لڑکی کے گھر والوں نے سسرال والوں کی توقعات سے کم جہیز دیا، جس کا بدلہ وہ لوگ لڑکی سے لیا کرتے ہیں ۔وہ کہتی ہیں کہ ہم محلے والے بے بس یہ سب کچھ دیکھنے کو مجبور ہیں کیونکہ وہ لوگ اسے اپنے گھر کا نجی مسئلہ بتاتے ہیں۔ وہ گاؤں کا طاقتور خاندان ہے، اس لئے کوئی بھی لڑکی کے حق میں آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرتا ہے۔ وہ مجبور و بےکس سسرال کے مظالم سہتی رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں کی کچھ خواتین نے اس لڑکی سے تھانے میں شکایت کرنے کا مشورہ بھی دیا لیکن لڑکی نے اپنے والدین کی عزت کا حوالہ دیتے ہوئے کوئی شکایت درج نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مالتی دیوی کا کہنا ہے کہ یہ جہیز لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ پہلے والدین اپنی بیٹی کی شادی میں جو کچھ بھی دیتے تھے، لڑکے والے اسے بخوشی قبول کرلیتے تھے۔لیکن اب شادی سے پہلے نہ صرف بھاری جہیزکا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ نہ ملنے پرلڑکی کو تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں اورمعاشرہ اس کے خلاف آواز تک نہیں اٹھاتا ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ اس بُرائی کو بیداری کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ جس میں خود معاشرہ کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس بُرائی کو روکا جاسکتا ہے اگر گاؤں والے اجتماعی طور پر جہیز لینے والے خاندانوں کا بائیکاٹ شروع کردیں۔ اگر چہ اس میں وقت لگے لیکن ایک دن یہ ختم ہو سکتا ہے۔
تاہم معاشرہ ہو یا خاندان، جہیز کو ختم کرنے کے بجائے ہر کوئی اسے فخر سے اپنانے اور فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے وہ اسے ا سٹیٹس سمبل سمجھ کر اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ اس سے غریب گھرانے کی لڑکی پر کتنے منفی اثر پڑتے ہیں، وہ لڑکی کس ذہنی اذیت سے گزرتی ہو گی، جب اس کے والدین اپنی ساری بچت اس کی تعلیم پر خرچ کر دیتے ہیں اور جب اس کی شادی کا وقت آتا ہے تو لڑکے والے اس کی تعلیم پر نظر ڈالنے کے بجائے جہیز دینےکی حیثیت کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جس طرح شرح خواندگی بڑھ رہی ہے، جہیزمانگنے والے لالچی خاندان کی تعداد بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ معاشرہ تعلیم یافتہ تو ہو رہا ہے لیکن جہیز جیسی بُرائی کے خلاف بیدار نہیں ہورہا ہے۔ جہیز، دراصل کوئی رواج نہیں ہے بلکہ یہ ایک بدنما داغ ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے کوئی قانون موثر ثابت نہیں ہو سکتا، اس کے لئے معاشرے کو خود ہی پہل کرنا ہوگی۔ (چرخہ فیچرس)