ارشاد احمد حجام ، ترال پلوامہ
دور جدید میں انٹرنیٹ ایک اہم ترین ایجاد ہے، اسی انٹرنیٹ سے سوشل میڈیا جڑا ہے ،جس سے مواصلاتی نظام کو برق رفتاری حاصل ہوئی ہے ۔ مثبت نقطہء نگاہ سے دیکھا جائے تو سوشل میڈیا نہایت ہی کار آمد چیز ہے ، اسے انسانیت کا کافی زیادہ بھلا کیا جا سکتا ہے اور یہی اسکا سب سے بڑا فائدہ ہے۔ لیکن ہماری وادی میں بد قسمتی سے اس کا اُلٹا کیا جاتا ہے ۔ اب اگر ہم سے بھلا نہیں ہوسکتا تو کم ازکم بُرا بھی تو نہیں ہونا چاہئے۔
ہماری اس حسین وادی میں سوشل میڈیا کی آلودگی کی آمد سے پہلے بھی کئی برائیاں موجود تھیں ، اُن میں ایک افواہ بازی کی بدترین بدعت ہے ، جس کی وجہ سے ہم کشمیریوں نے بہت کچھ جھیلا ہے اور کافی نقصان بھی اُٹھایا ہے ۔ لیکن آج کل سوشل میڈیا مثلاً فیس بک ، یوٹیوب ، انسٹا گرام وغیرہ کے ذریعے بہت سارے عقل سے عاری لوگوں نے جو آلودگی پھیلا رکھی ہے، اُس نے ماضی کی تمام بُرائیوں اور بے شرمی کو مات دے دی ہےاور یوں ایک نئی تخریبی تاریخ رقم کی ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا بہت ہی طاقت ور پلیٹ فارم ہے اور آج کل اسکی چکا چوند میں مین سٹریم میڈیا بھی اسی کا تابع نظر آتا ہے کیونکہ عوام کی بھاری اکثریت کی آسان رسائی سوشل میڈ یا تک ہی ہے ۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔اسکی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شخص سوشل میڈیا پر کچھ بھی لکھ اور بول سکتا ہے ، یعنی کھل کر اظہارِ رائے کر سکتا ہے اور اس پر براہِ راست کسی کی روک ٹوک نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری وادی میں کچھ لوگ بالعموم اور نوجوان بالخصوص کچھ بھی اوٹ پٹانگ بک دیتے ہیں اور یوں ہمارے پر سکون ماحول کو زہر آلودہ بنا دیتے ہیں ۔
وادی کشمیر میں بے کار نوجوانوں کا ایک طبقہ سوشل میڈیا پر زبر دست طریقے سے سرگرم ہے۔اُن کے ویڈیوز دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ان لوگوں نے یہاں بے چینی،بے شرمی اور بد اخلاقی پھیلانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔ حال ہی میں کچھ نوجوان ،جان لیوا کرتب بازی کرتے ہوئے نظر آئے، جس میں وہ سر پر کانگڑی مارتے ہوئے اور کبھی انڈے کو خول سمیت کھانا ،کبھی ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں ندی نالوں میں نہانا ، کبھی دیوار سے سر ٹکرانا ،کبھی موٹر سائیکل پر کھڑا ہو کر اس کو چلانا وغیرہ پاگلوں جیسے کاموںکے مرتکب پائے گئے۔ اس سے بڑھ کر بدقسمتی یہ ہے کہ ان پھوہڑ لوگوں کی تقلید میں کچھ کم عمر بچے بھی ایسی ہی نازیبا حرکات کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں، جو باعث تشویش بات ہے ۔
کسی بھی مہذب سماج میں اس چیز کو کسی بھی صورت بر داشت نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات ہیں ، جن میں ایک تقلید کا رجحان اور دوسرا ہے کہ جب سے سوشل میڈیا خاص کر یوٹیوب ذریعہ معاش بن گیا، تب سے یہ نو جوان جان بوجھ کر غیر اصولی کام اور حرکات انجام دیتے ہیںتاکہ ان کے سبسکرائبروں میں اضافہ ہو سکے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اُن کو پسند کر سکیں ۔ حالانکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ آجکل نوجوانوں کا بڑا طبقہ ایسے ہی جاہل گنواروں کو پسند کرتاہے جو کبھی بزرگ لوگوں کا مذاق اٹھاتے ہوئے اور کبھی مجبور لوگوں کو ذلیل کر کے اپنی سستی شہرت حاصل کرتے ہیں ۔
سوشل میڈیا پر اُن لوگوں کا بھی ایک طبقہ موجود ہے جو وی لاگس بناتے رہتے ہیں اور ان میں سے کچھ بچاروں کو وی لاگ کا معنی تک معلوم نہیں ہے ۔ لیکن ‘بےگانی شادی میں عبد الله دیوانہ کے مترادف نظر آتے ہیں۔ وہ کبھی اپنے گھر کے بیت الخلا کے مناظر، کبھی اپنا بیڈ روم تو کبھی کچھ اور فالتو چیزیں دکھا کر اپنی بے غیرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہم خیال بے وقوفوں کو لبھاتے رہتے ہیں۔ایسے ہی سوشل میڈیا ہیروز نے حال ہی میں کچھ ایسی کمپنیوں کے اشتہارات چلائے ، جنہوں نے بعد میں کروڑوں روپیوں کا گھپلا کیا اور سیکڑوں کی تعداد میں کشمیریوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ بلکہ اب بھی ایک طبقہ آن لائن گیمز کھیلنے میں مصروف ہے اور رات دن موبائل فونوں پر جنگیں لڑنے میں مشغول ہیں اور مصنوعی شجاعت کے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں ۔ اس میں قصور نہ صرف ان نو جوانوں کا ہے بلکہ اُنکے والدین کا بھی ہے جو اُن کے ہم عمروں کو بھی سمارٹ فون دے کر اسکے استعمال کی کھلم کھلا آزادی دیتے ہیں ۔ حالانکہ حالیہ برسوں میں بہت سارے ایسے واقعات رونما ہوئے،جن میں کم عمر بچے سائبر کرائم جیسے جرائم میں ملوث پائے گئے ۔ اگر چہ اس حوالے سے انتظامیہ نے بالعموم اور پولیس نے بالخصوص واضح ہدایات دے رکھی ہیں تاکہ نابالغ بچے اور دیگر لوگ ایسے جرائم سے دور رہیں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ والدین ابھی بھی غفلت کی نیند سو رہے ہیںاور انکے نو نہال سوشل میڈیا پر کیا گل کھلاتے ہیں؟ وہ یا تو ان چیزوں سے بے خبر ہیں یا ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔
ہماری وادی میں ایسے لوگوں کی پھیلائی گئی سوشل میڈ یا آلودگی کا قہر ہر طرف برپا ہوا ہے، جس سے ہر باحس اور با غیرت انسان کے دل میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، وہ اس کے لئے فکر مند بھی رہتے ہیں ۔ اب ا ٓئے دن سوشل میڈیا پر کچھ مذہبی عالم ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جسے سکون درہم برہم ہو جانے کا احتمال رہتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال چند روز پہلے سامنے آئی جب ایک مذہبی سکالر نے کچھ جلیل القدر اولیاء اللہ کی شان میں انتہائی گستاخی کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے تمام طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں میں غم وغصہ پایا جاتا ہے اور اس کے جواب میں بھی بہت کچھ کہا گیا اور اس طرح ایک افراتفری کا عالم سوشل میڈیا پربپاہوا ہے ۔ موصوف نے عوام کا ردعمل دیکھ کر معافی نامہ بھی پیش کیا اور معاملہ کچھ ٹھنڈا پڑگیا۔اگریہ کہنا غلط نہ ہوگا تو کیا یہ بھی سستی شہرت حاصل کرنے کی ایک مذموم کوشش تو نہیں؟
بہر حال آج کل سوشل میڈیا پر زیادہ تر افرا تفری کا ہی ماحول دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اب با شعور لوگ اپنے آپ کو سوشل میڈیا سے دور رکھتے ہیں۔حالانکہ سوشل میڈیا بذات خود غلط نہیں ہے ،لیکن غلط لوگوں کے ہاتھوں میں آکر اب یہ غلط ہی تصور ہوتا ہے۔ میری گزارش اُن تمام والدین سے ہے، جنھوں نے اپنے بچوں کو سمارٹ فون دینے کے ساتھ آزادی بھی دے رکھی ہے ، وہ براہِ کرم اپنے بچوں کی مکمل نگرانی کریں تا کہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب تک لوگوں میں شعور پیدا نہ ہو، تب تک شاید صورت حال ایسی ہی رہے گی ۔ فی الحال ہم اچھے کی ہی امید رکھ سکتے ہیں ۔
رابطہ۔9797013883
[email protected]
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)