قیصر محمود عراقی
ہم ترقی کی جتنی بھی منازل طے کرلیں لیکن اپنی پہلی درس گاہ اور وہ لوگ کبھی نہیں بھول سکتے جو ہمیں چلنا سکھاتے ہیں ۔ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے فن وصلاحیتوں کا اظہار احسن طریقے سے کرے اور اس کے لئے کسی اچھے ادارے کا انتخاب کریں ، آغاز میں قدم ڈگمگاتے بھی ہیںاور کچھ تجربہ ناکافی ہونے کی بدولت ٹھیک راستے کی نشاندہی کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ معاشرہ کوئی بھی ہو ، رنگ ، نسل وعلاقائی فرق بھی ہو تو قلمکار کی پہچان اس کا قلم ہوتا ہے۔ قلمکار کے الفاظ اس کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں لیکن بعض اوقات مثبت وتعمیری سوچ کے حامل لوگوں کو اپنی ایک خاص جگہ ومقام بنانے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر قلمکار یعنی لکھنے والے کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ایک اچھا پلیٹ فارم ملے، جہاں وہ اپنے الفاظ کی روشنائی سے معاشرے میں مثبت کردار ادا کرسکے۔ حالانکہ ہمارے یہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کتابی باتیں ہیں اور یہ باتیں کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی لین دین نہیں۔ شاید یہ بات اپنی جگہ درست ہو، لیکن ہم سب کو ایک کٹہرے میں ہر گز کھڑا نہیں کرسکتے ۔ لکھنے والے کی طاقت اس کی قلم کی آواز ہوتی ہے اور معاشرتی ، سیاسی، مذہبی ومعاشی مسائل پر لکھنے والوں کے الفاظ کو جب حقیقت سے دور باتیں کہہ کر رد کیا جاتا ہے تو صاحبانِ عقل پر افسوس اور حیرت ہوتی ہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی خاطر طنز وتضحیک کا راستہ اپناتے ہیں، حالانکہ قلم کے درست اور غلط استعمال پر کسی اللہ والے نے کیا ہی خوبصورت کہا ہے، اسے سو بار پڑھا جائے تو پھر بھی ذائقہ اور خوشبوں نہیں بدلے گی، ان کا کہنا ہے! جب طوائف بکتی ہے تو صرف ایک جسم برباد ہوتا ہے مگر جب قلم اور زبان بکتی ہے تو تاریخ مسخ ، ضمیر مردہ اور قومیں برباد ہوتی ہیں اور ایسی برباد ہوتی ہیں کہ پھر ان کو دوبارہ سہارہ دینا مشکل ہوجاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر مختلف اشیاء کی قسمیں اٹھائی ہیں۔ قسم اسی چیز کی اٹھائی جاتی ہے جو عزت ومقام والی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم بھی اٹھائی ہے ، یہی وجہ ہے کہ قلم کا اپناایک مقام ومرتبہ ہے جو لوگ قلم کی حقیقت سے روشناس ہیں ،وہ اہل قلم کی عزت وحوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ صاحب قلم لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں ،جیسا کہ فلاسفراپنے اصول اور افکار وخیالات چھوڑ جاتے ہیں ، حکما ءاور ڈاکٹر اپنے قول اور اصول وعلاج چھوڑ جاتے ہیں، فضلا ءاور دانشور اپنے اصول اور علم چھوڑ جاتے ہیں ، سائنسداں اپنی ایجادات اور تحقیق چھوڑ جاتے ہیں، شاعر ، مصنف اور ادیب اپنی تصانیف چھوڑجاتے ہیں، ڈاکٹر اور انجینئر اپنی زندگی کے تجربات چھوڑجاتے ہیں ۔یہ اس وقت ہو پاتا ہے جب بچپن میں آپ نے قلم اٹھائی ہوگی، اگر چہ قلم اٹھانے والے کو بچپن میں کئی مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن جب وہ کسی عہدے پر پہنچتا ہے تو اسے دنیا سلام کرتی ہے۔ قلم لڑائی میں استعمال کئے جانے والے ہتھیاروں کے مقابلے کہیںزیادہ طاقتور ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دورمیں اہل قلم نے دلوں پر راج کیا ہے ، لیکن جس قوم کے اہل قلم اور دانشور مالی مفادات ، مراعات اور لالچ میں آکر قصیدہ گوئی اور خوشامد کے راستے کو اپنا لیتا ہے یا خوف ودبائو میں آکر حق بات چھوڑ دیتے ہیں ، بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
دانشوروں کا کہنا ہے کہ قلم قیامِ امن کیلئے بڑا ہتھیار سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس عالمی جنگوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ محض دانشوروں کی سوچ ہے ، ان کی خام خیالی ہے کیونکہ دیکھا جائے تو دنیا کی اکثر جنگیں قلم کے استعمال کے نتیجے میں ہی لڑی گئیں ۔ اگر قلم کا ایسا استعمال نہ کیا جاتا تو سب عافیت میں رہتے، سکون سے گھروں میں بیٹھے بندوقیں صاف کرکے دیواروں پر آویزاں کرتے، ایک دوسرے سے گپ شپ کررہے ہوتے، کافی اور چائے کا دور چل رہا ہوتا، ایک دوسرے کے نجی معاملاتِ زندگی سے مکمل آگاہی حاصل کرتے، اس طرح معاشرتی علوم میں بھی فروغ پاتے اور آرام سے زندگی بسر کررہے ہوتے۔ آج ہم جب قلم اور ہتھیار کا موازنہ کرتے ہیں تو ہتھیار سے ملک تو فتح کئے جاتے ہیں لیکن قلم سے دل تسخیر کئےجاتے ہیں۔ یہ اطاعتِ دائمی ہوتی ہے اس لئے قلم کو صحیح انداز میں استعمال میں لانا چاہئے کیونکہ اس میں دلوں کو ملانے کی صلاحیت ہے، یہ رواداری پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے میں اپنے ملک کے نوجوانوں سے گذارش کرتا ہو کہ وہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے امن کیلئے آوازِ حق بلند کریں، غربت کے خلاف ، جہالت کے خلاف ، بیماریوں کے خلاف ، کمزور اور پسے ہوئے طبقے کی ترقی کیلئے جہاد کریں اور جہاں تک ہوسکے ایٹم بم اور میزائلوں کی اس دور میں قلم کا استعمال کریں۔ قلم ایک آلہ ہے جس کا براہ راست تعلق تعلیم سے ہے اور قلم اور تعلیم لازم وملزوم ہیں، قلم کے ذریعہ نوجوان امن پھیلا سکتے ہیں۔
ہماری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ہم قلم کو استعمال کرتے وقت اسے تلوار نہ بنائیں بلکہ اس سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی پھول نچھاور کریں، اسی لئے ہمارے مضامین اکثر وبیشتر اسلامی واصلاحی ہوتے ہیں۔ اس لئےگذارش والتماس ہے کہ آپ کتابیں پڑھیں اور اپنی روح کو تسکین پہنچائیں اور کبھی اپنے فن کا سودانہ کریں کیونکہ آپ کا قلم ہی آپ کی پہچان ہے، اپنی پہچان حق کہنے والوں کی صف میں بنائیں ، کیونکہ آپ کا قلم ہی آپ کا ہتھیار ہے۔ لہٰذا اس کو صرف حق بیانی کیلئے استعمال کریں۔کیونکہ یہ قلم دیکھنے میں ایک معمولی چیزہے مگر اس کی طاقت بہت زیادہ ہے ۔ قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کے تیر برداشت کرنا
ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں کئی لوگ پابند سلاسل ہوجاتے ہیں اور کئی تختہ دار پر چڑھادیئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ قلمکاروں کی گردنیں کاٹ دی جاتیں ہیں، وہ اس لئے کہ ہمارے معاشرے میں سچ بولنے اور سننے کی خواہش تو سب کرتے ہیں مگر سچائی کو برداشت کرنا اور قلمکار کی لکھی سچی تحریروں کو برداشت کر نا سب کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ نہ جانے وہ کون سا دور ہوگا جب قلم کو آزاد کہا جائے گا اور سچ کا بول بالا ہوگا ۔
رابطہ ۔6291697668
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)