آصف اقبال
کسی بھی قوم کی ہمہ گیر ترقی کے لئے بہتر تعلیمی نظام کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔معیاری تعلیمی نظام سے ہی ایک تہذیب یافتہ اور صحت مند معاشرے کی بنیاد ڈالی جاتی ہے۔اسی لئے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم و تربیت کے سسٹم کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کے لئے دن رات کام کیا جاتا ہے تاکہ معاصر چلیینجز کے ساتھ سامنا کیا جاسکے۔ چنانچہ علم کے نور سے جملہ ظُلُمٰت کی گھٹا ٹوپ اندھیروں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ جموں و کشمیر کی سرزمین پر ایک تعلیمی انقلاب لانے کے لئے طول و ارض میں ہزاروں سینکڑوں تعلیمی ادارے عشروں سے یہ عظیم کام نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہے ہیں۔گُزشتہ تیس سال سے جموں و کشمیر میں نجّی تعلیمی ادارے ایک منّظم اور مربوط انداز سے دن دوگنی اور رات چوگنی محنت کرکے نوخیز کے مستقبل کو سنّوارنے میں مصروفِ کار ہیں۔شرحِ خواندگی میں اضافہ کرنے کی بات ہو یا،قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے کا خواب ہو غرض ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت تعلیمی تبدیلی کو رونما کرنے کے لئے وادی میں قائم نجّی ادارے کام کرتے آرہے ہیں۔سالانہ بنیادوں پر منظر عام آنے والے مُختلف امتحانی نتائج میں نجّی تعلیمی اداروں کا رول عیاں راچہ بیاں ہے۔ وادی کے یمین و یسار میں گُزشتہ کئ عشروں سے پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا جال پھیلا گیا جسکی بدولت ایک بہتر تعلیمی ماحول پیدا کیا گیا اور ہر میدان میں یہاں کے بچّے اپنی قابلیت کا لوہا منوارہے ہیں۔ڈاکٹری،انجینئری یا کئی سارے پروفیشنل کورسز میں وادی کشمیر کے بچّے امتیازی پوزیشن کے ساتھ کامیابی کا جھنڈا گاڈ رہے ہیں۔ ایک طرف سے قوم کو تعلیمی میدان میں آگے لیجانے کا مقّدس میں ہاتھ میں لیا گیا وہیں ہزاروں اعلیٰ تعلیم لوگوں کے لئے یہ نجّی تعلیمی ادارے روزگار کاذریعہ ہیں ۔ایک محتاط انداز کے مطابق فی الوقت ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کا روزگار ان نجّی تعلیمی اداروں سے وابستہ ہے۔ قوم کے غریب اور پسماندہ طبقے سے وابستہ لوگوں کے لئے اِن نجّی تعلیمی اداروں میں خصوصی رعایت دی گئ تاکہ غریب،نادار اور مفلوک الحال بچّوں کو بھی بہتر اور معیاری تعلیم مل سکے جسکی عملی نظیر یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں پڑھنے والے بچّوں کی شرح کم ہوتی جارہی ہے اور عوامی حلقوں میں نجّی اداروں پر غیر متزلزل یقین پیدا ہوگیا کہ نسلِ نو کی تعلیم و تربیت ان ہی اداروں سے ممکن ہے۔ فی الوقت وادی میں قائم نجّی تعلیمی اداروں میں ہزاروں یتیم مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کئ سارے ادارے یتیم بچّوں کو جملہ سہولیات،قلم،کتاب،اور وردی کا خرچہ از خود برداشت کرتے ہیں مگر اس پر کوئی لب نہیں کھولتا ،سچ نہیں بولتا، بلکہ اُلٹا پرائیوٹ اداروں کو ایسے پیش کیا جارہا ہے جیسے قوم پر یہ ناسور بن چکے ہیں۔گُزشتہ کئ سال سے پرائیوٹ تعلیمی اداروں پر ظُم کی تلوار گھونپ دی گئ جس کی وجہ سے ہزاروں تعلیمی ادارے نیم بسمل یعنی بند ہونے کے قریب ہیں۔ہر نئے دن کے ساتھ ایک نیا حکمنامہ جاری کیا جاتا ہے۔سکولوں کی Recognitionکا کام اتنا مشکل اور کٹھن بنایا گیا کہ لمحوں کا کام مہینوں گزرنے کے بعد بھی ادھورا رہ جاتا ہے اور سرکاری دفاتروں کا چکر کاٹتے کاٹتے ٹانگیں جواب دینے لگتی ہے،احمد کی سزا محمود کی دی جاتی ہے، ویریفیکشن کا عمل دردِ سر والا مسلہ بنایا گیا۔ یہ بات الم نشرح ہے کہ نجّی تعلیمی اداروں کا واحد ذریعہ آمدن ماہوار فیس کے سواء کچھ اور نہیں ہوتا لیکن سرکار نے ایک کمیٹی تشکیل دی اور معاصر گراں بازاری کے باوجود بھی سکولوں کو فیس میں اضافہ کرنے کا اختیار چھین لیا اور تو اور ایڈمیشن فیس لینے پر پابندی عائد کی۔ سوال یہ ہے کہ سرکار کو نجّی تعلیمی اداوں کے ساتھ یہ بیر کیوں۔ آخر کیسے یہ ادارے چل سکتے ہیں۔قرضوں کے بوجھ تلے دب چکے سکول مالکان کا حال ان حالات میں بدحال ہوچکا ہیں اور ہر سو اِن اداروں سے مایوسی، اداسی اور بے کسی و بے بسی کی ہوائیں فضاء بسیط میں گشت کر رہی ہیں۔ ایک طرف سے ہر محاز پر پرائیوٹ اداروں کو ہدفِ تنقید بنایاجارہا ہے وہیں دوسری طرف روزانہ بنیادوں پر جاری ہونے احکامات سے سکولوں کو حالت ابتر ہوتی جارہی ہے اور اس بیچ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق چار سو سے زائد تعلیمی ادارے بند ہونے کے قریب ہیں۔ ابھی ان حالات کے چلتے اور ایک حکمنامہ جاری کیا گیا ،جس میں یہ کہا گیا کہ جماعتِ اول سے بارھویں جماعت تک زیرِ تعلیم بچّوں کو جموں و کشمیر بورڈ کی کتابیں پڑھائی جائینگی اور دیگر پبلیکشنز کو شاملِ نصاب رکھنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ اگرچہ یہ حکمنامہ صرف جموں و کشمیر میں نافذالعمل رہے گا لیکن کیا کسی متمدن قوم میں بچّوں کو کسی مخصوص کتاب ہڑھنے کا قانو ن رائج ہے۔ آخر جے اینڈ کے بورڈ نے یہ حکمنامہ کیوں جاری کیا اور اسکے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے۔اس وقت دُنیا میں کیمرج، اکسفورڑ ،اور دیگر بین الاقوامی سطح پر تیار ہونے درسی کتابوں کو نصاب میں شامل کر رہے ہیں تاکہ بچوں کو معیاری تعلیم دی جاسکے لیکن یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ کیا جموں و کشمیر بورڈ سے شایع کردہ کتابیں اکسفورڈ اور کیمرج سے میل کھاتی ہیں، کیا بورڈ کی کتابوں کا معیار بین الاقوامی پبلیکشنز کے ساتھ ہیں۔ نہیں قطعاً نہیں۔ مگر پھر بھی بورڈ نے یہ حکمنامہ جاری کیا۔ آخر کیوں۔ ؟ایک طرف سے نئ تعلیمی پالیسی کی نفاذ کی باتیں اور دوسری طرف سے وہی کتابیں ،وہ معیار، وہی مضامین جو آج سے کئی سال پہلے پڑھائے جاتے تھے۔ بورڈ کی کتابوں کا گیٹ اپ، معیار اور پیپر کوالٹی کتنی بہتر ہے ہم سب جانتے ہیں اور کتنے مہینوں گزر جانے کے بعد سرکاری سکولوں میں یہ کتابیں پہنچائی جاتی ہے، اس بات سے بھی ہم واقف ہیں مگر پھر بھی تعلیم سے وابستہ لوگوں کو خاطر میں نہ لیتے ہوئے یہ ہدایت نامہ جاری کیا گیا۔
اِن حالات میں نجّی تعلیمی ادارے کیسے کام کرسکتے ہیں، کیسے نظامِ تعلیم کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور اور کیسے ایک مضبوط اور متمدن معاشرے کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ معاشرے سے وابستہ اہلِ دانش و بینش سامنے آئیں اور سچائی کو سامنے لانے کے لئے اپنی ذمہ داری انجام دیں اور سرکار کو زمینی حالات سے آگاہ کریں۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)