محمد ہاشم القاسمی
’’امانت‘‘ کے معنی کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ اور اعتماد کرنے کے آتے ہیں۔(المعجم الوسیط) امانت دراصل عربی کا لفظ ہے جس کا مادَّہ (اصل) ا، م، ن ہے اور اس کے معنی میں اہل لغت کے مطابق امن وامان، حفاظت، بھروسہ اور ایمانداری جیسے مفہوم آتے ہیں۔ اس میں دل کے اطمینان اور اندیشوں سے آزادی کا معنی بھی شامل ہے۔ اس میں ایک اہم معنی طاقت اور قوت کا بھی آتا ہے جو دراصل کسی شخص کو امانت سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت دیتا ہے۔ مختصر یہ کہ اس لفظ کے اندر تین اہم معنوں کی طرف نشان دہی کی گئی ہے. (1) واجبات کی ادائیگی (2) ذمہ درایوں کو بحسن وخوبی پورا کرنا (3) اندیشوں کا خاتمہ کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعدد مقامات پر امانت داری کی تاکید فرمائی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ تو جو امین بنایا گیا، ا سے چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اور چاہیے کہ اپنے پروردگار اللہ سے ڈرے۔‘‘(سورۃ البقرہ) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں امانت داری کو تقویٰ سے جوڑ دیا ہے یعنی جسے مرنے کے بعد کی زندگی، اپنے اعمال کاحساب کتاب اور میزان عدل پر یقین ہو ، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی گرفت کا یقیں ہو ، اسے چاہیے کہ امانت میں خیانت نہ کرے، بلکہ جس کا جو حق ہے، اس کا وہ حق دنیا ہی میں پورا پورا ادا کردے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے امانت داری کو ایمان کی علامت اور پہچان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جس میں امانت داری نہیں، اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدے کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔(سنن بیہقی)
اسلام امر بالمعروف یعنی ہر عمل خیر کے کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہی عن المنکر یعنی ہر عمل شر سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے، انہی امر بالمعروف یعنی عمل خیر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا مال یا سامان کسی مسلمان کے پاس بطور امانت رکھنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ اگر وہ اُس مال یا سامان کی حفاظت کرسکتا ہے تو حضور اکرمؐ کی سنت کے مطابق اُس مال یا سامان کو بطور امانت رکھ کر اپنے بھائی کی مدد کرے ۔ حضور اکرمؐ کے پاس صحابۂ کرامؓ کے علاوہ کفار مکہ بھی اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے۔ آپؐ اس ذمے داری کو نبوت ملنے کے پہلے سے ہمیشہ بہ حسن خوبی انجام دیا کرتے تھے، چنانچہ آپؐ کی امانت داری کا چرچا مکہ مکرمہ میں آپ کے نبی بنائے جانے سے پہلے ہی زباں زد عام و خاص تھا، جس کی وجہ سے نبوت سے قبل ہی مکہ والوں نے آپؐ کو ’’امین ‘‘ یعنی امانت دار کے پاکیزہ لقب اور صبح قیامت تک باقی رہنے والا تمغہ سے نوازا تھا ۔ حضور اکرم ؐ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس وقت بھی آپؐ کے پاس کچھ لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی تھیں، حضور اکرمؐ مکہ مکرمہ سے نکلنے سے پہلے حضرت علیؓ کو وہ تمام امانتیں حوالے فرمائیں تاکہ صبح ہوتے ہی امانت دہندوں تک ان کی امانتیں پہنچائی جا سکے ،اس کے بعد آپ ؐرات کی تاریکی میں حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ مدینہ منورہ کے لئے ہجرت فرمائی ۔ فتح مکہ کے موقع پر جب حضور اکرمؐ عثمان بن طلحہ شیبی سے بیت اللہ کی کنجی لے کر اندر داخل ہوئے اور نماز پڑھ کر باہر آئے تو آپؐ کی زبان مبارک پر یہ آیت جاری تھی ،’’ إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا ‘‘(النساء) اس آیت میں امانتیں ان کے حقداروں تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے، جس کے مطابق آپؐ نے کعبۃ اللہ کی کنجی عثمان بن طلحہ کے حوالہ کردی۔(معارف القرآن)
اس آیت میں’’ کنجی‘‘پر امانت کا اطلاق کیا گیا جبکہ کنجی کو ئی اہم مال نہیں بلکہ یہ خانہ کعبہ کی خدمت کی علامت ہے ،جس کا تعلق مال سے نہیں بلکہ عہد ے سے ہے ۔ اسے امانت سے تعبیر کرکے ’’عہدہ اور منصب‘‘ کو امانت قرار دیا گیا۔ نیز اس آیت میں الأَمَانَاتِ جمع کا صیغہ استعمال کر کے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ امانت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔جن کی ادائیگی ہر صاحب ِ ایمان پر لازم ہے۔
اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امانت ایک طرف ان تمام دینی، سماجی، معاشی اور سیاسی ذمہ داریوں اور واجبات کا نام ہے جس کا انسانوں سے مطالبہ ہے کہ اس کو پورا کریں اور ساتھ ہی امانت ایمانداری اور اس کی اس صفت کا بھی نام ہے جس کے واسطے کوئی ذمہ داریوں کو سونپے جانے کا مستحق ٹھہرے۔
ترمذی شریف کی ایک روایت میں مشورہ کو امانت قرار دیا گیا۔ ’’الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ‘‘( سنن الترمذی )اسی طرح ایک حدیث میں مجلس کی باتوں کو امانت کادرجہ دیا گیا ہے۔’’الْمَجَالِسُ بِالأَمَانَۃِ‘‘ (سنن أبی داود )صحیح مسلم کی روایت کے مطابق میاں بیوی کے باہمی تعلقات بھی امانت ہیں۔امانت نہ صرف ودیعت کے طور پر رکھے جانے والے مال کی حفاظت کرنے اور اسے لوٹا دینے کا نام ہے بلکہ ہر وہ چیز جو دوسرے کو اس بھروسے پر سپرد کی جائے کہ وہ اس کا حق ادا کرے گا، امانت ہے۔
علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ امانت دین کی تمام شرائط و عبادات کا نام ہے۔(تفسیر قرطبی) ا مام رازیؒ اپنی شہرہ آفاق تفسیر”تفسیر کبیر” میں لکھتے ہیں کہ ’’امانت کا باب بہت وسیع ہے چنانچہ زبان کی امانت یہ ہے کہ اسے جھوٹ، غیبت، چغلی، کفر و بدعت اور فحش گوئی وغیرہ سے بچایا جائے اور آنکھ کی امانت داری یہ ہے کہ اس کو حرام دیکھنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے اور کانوں کی امانت داری یہ ہے کہ لہو و لعب، فحش اور جھوٹ وغیرہ سننے میں انہیں استعمال نہ کیا جائے ۔‘‘امانت داری کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امانت کو ایمان اور دینداری کا معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے ۔ اللہ کے پیارے رسول ؐ کا ارشاد ہے،’’جس میں امانت داری نہیں، اس میں ایمان نہیں۔‘‘ (سننِ بیہقی)
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا،’’جب کوئی شخص (کسی دوسرے کو) کوئی بات بتاتا ہے اور اسے راز رکھنے کی تاکید کرتا ہے تو پھر وہ (بات) امانت ہے۔‘‘ (ترمذی، ابوداؤد)حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐنے فرمایا،’’ جس شخص نے تمہارے سپرد امانت کی ہے، اسے اس کی امانت لوٹا دو اور جس شخص نے تمہارے ساتھ دغا کیا، تم اس کے ساتھ دغا نہ کرو۔‘‘ (ترمذی ، ابو داؤد)حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم کو خطبہ دیتے، مگر اس میں فرماتے،’’اس شخص کا ایمان کامل نہیں جس کے واسطے امانت نہیں اور اس شخص کا پورا دین نہیں جس کا عہد نہیں۔‘‘ (بیہقی)کسی کا مال یا سامان اپنے پاس بہ طور امانت رکھنا ایک مستحب عمل ہے جو باعث اجر و ثواب ہے۔ البتہ بعض حالات میں امانت رکھنا واجب ہوجاتا ہے، مثلاً کسی شخص کا مال غیر محفوظ ہے اور آپ کی امانت میں اس کے مال یا سامان کی حفاظت ہوسکتی ہے اور کوئی دوسرا ذمہ دار شخص موجود نہیں ہے، تو آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس شخص کے مال و سامان کو اپنے پاس بہ طور امانت رکھ لیں تاکہ اس شخص کا مال یا سامان محفوظ ہوسکے۔اگر آپ امانت کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں تو آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ کسی کی امانت اپنے پاس نہ رکھیں۔ اگر کوئی سامان یا رقم بہ طور امانت رکھ دی گئی تو اس پر متعدد احکام مرتب ہوں گے، ان میں بعض حسب ذیل ہیں، مال یا سامان امین کے پاس بہ طور امانت رہے گا۔ امین کو حتی الامکان امانت یعنی ودیعہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔ امانت دہندہ اپنا مال یا سامان کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے۔ اور امین بھی امانت کو کسی بھی وقت واپس کر سکتا ہے۔ امین امانت کی حفاظت یا اس کی بقا کے لیے جو رقم خرچ کرے گا وہ امانت دہندہ کو برداشت کرنی ہوگی، مثال کے طور پر جانور امانت میں رکھا گیا ہے، تو جانور کی خوراک اسکے چارے وغیرہ کا خرچ، اسی طرح اگر مکان امانت میں رکھا گیا ہے تو اس کی بجلی، پانی وغیرہ کے مصارف اور اسی طرح اگر مکان کی حفاظت کی غرض سے مرمت وغیرہ کچھ کام کروایا گیا تو اس کے مصارف امانت دہندہ کو برداشت کرنے ہوں گے۔ امین کے لیے جائز ہے کہ وہ امانت کی حفاظت کے لیے اپنی اجرت کی شرط لگائے۔ اگر اجرت طے ہوئی ہے تو امانت دہندہ کو اجرت ادا کرنی ہوگی۔ ہاں اگر اجرت طے نہیں ہوئی لیکن امانت کی حفاظت کے لیے امین کو اپنی زمین کا قابل ذکر حصہ استعمال کرنا پڑ رہا ہے تو جمہور علماء کی رائے ہے کہ وہ اس کا کرایہ لے سکتا ہے۔لیکن امانت رکھنے میں اصل اپنے بھائی یا پڑوسی یا دوست کی خیر خواہی اور بھلائی مطلوب ہوتی ہے، لہٰذا شروع ہی میں یہ معاملہ طے ہوجائے تو زیادہ بہتر ہے تاکہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف رونما نہ ہو۔ اجرت لینے کی صورت میں بھی جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ بہ طور امانت رکھا ہوا مال یا سامان اگر امین کی خیانت کے بغیر ضایع ہوگیا یا اس میں کچھ نقصان ہوگیا تو امین پر کسی طرح کا کوئی مؤاخذہ (جرمانہ) نہیں ہوگا۔ امین کو چاہیے کو وہ امانت سے کوئی فائدہ نہ اٹھائے، ہاں اگر امین نے امانت دہندہ سے امانت میں رکھی ہوئی شے سے استفادہ کرنے کی اجازت لے لی ہے، تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر امین کے بے جا تصرف کی وجہ سے امانت میں نقصان ہوا ہے، تو امین اس کا ذمے دار ہوگا۔
رابطہ۔ 9933598528
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)