نشا دانو، اتراکھنڈ
سال 2023 ہندوستان کے لیے سیاسی، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی نقطہ نظر سے تاریخی رہا ہے۔ زمین سے خلا تک ہندوستان نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔پہلے کے مقابلہ اب ملک تقریباً ہر میدان میں ترقی کر چکا ہے۔ لیکن اگر کچھ نہیں بدلا ہے تو وہ خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے تئیں معاشرے کی تنگ نظری اور خیالات۔ جو آج بھی بہت چھوٹی اور محدود ہے۔ آج بھی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کو دویم درجہ کا سمجھا جاتا ہے، آج بھی اسے آسانی سے مردانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور معاشرہ خاموش تماشائی بنارہتا ہے۔ اگرچہ 21 ویں صدی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ گزرنے کو ہے،مگر پدرانہ معاشرہ آج بھی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے تئیں اپنی سوچ بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آج بھی وہ روایت اور ثقافت کے نام پر خواتین کو گھر کے اندردیواروں کے پیچھے کھڑا دیکھنا چاہتا ہے۔حالانکہ شہری علاقوں میں ایسی سوچ کم ہونے لگی ہے، شہروں کے باشعور معاشرے نے خواتین کے کردار کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے،انہیں اپنے مفادات کا فیصلہ کرنے کی آزادی دی جا رہی ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم اور برابری کا حق دیا جانے لگا ہے، لیکن دیہی ہندوستان کی سماجی حالت میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہاں کا معاشرہ آج بھی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کے بارے میں وہی پرانی سوچ ہے کہ لڑکیوںکو سماجی زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔حالانکہ شہروں سے ملحقہ دیہی علاقوں میں تبدیلیاں آنا شروع ہو گئی ہیں لیکن ملک کے دور دراز دیہی علاقوں کے سماجی تانے بانے میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔اس کی ایک مثال پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کا ایک دور افتادہ گاؤں جگتھانا ہے۔ کپکوٹ بلاک سے تقریباً 30 کلومیٹر اور ضلع باگیشور سے تقریباً 35 کلومیٹر دور یہ گاؤں نہ صرف سماجی اور اقتصادی طور پر پسماندہ ہے بلکہ نظریاتی طور پر بھی پچھڑا ہوا ہے۔ آج بھی اس گاؤں میں خواتین اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق نہیں رکھتی ہیں۔ جہاں لڑکوں کو نسب کا وارث سمجھا جاتا ہے وہیں لڑکیوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔جہاں دیوی شکتی کے نام پر عورت کی پوجا کی جاتی ہے وہیں اس کے حقوق کے نام پر سماج کی سوچ بالکل تنگ ہے۔ خواتین کی مساوات کے حوالے سے قدامت پسند تصورات حاوی ہیں، لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے، اُن کی تعلیم کے لیے خصوصی کوششیں کی جاتی ہیں جب کہ لڑکیوں کے خواب گھر کی چار دیواری تک محدود رہتے ہیں۔ اسے بار بار یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ صرف اس گھر میں پیدا ہوئی ہے،لیکن اس کا مستقل ٹھکانہ اس کا سسرال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کو پڑھنے کے لیے اسکول کم ہی بھیجا جاتا ہے اور بیٹوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں گاؤں کی 16 سالہ ایک لڑکی پوجا سماج سے سوال کرتی ہے کہ آخر عورت کو اس کے حقوق سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے؟ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور حصول تعلیم سے کیوں روکا جاتا ہے؟ معاشرہ اسے بوجھ کیوں سمجھتا ہے؟ جبکہ معاشرے کی تعمیر میں اس کا کردار مردوں سے زیادہ ہے؟ معاشرہ لڑکیوں کو بوجھ سمجھ کر اسے مادر شکم میں ہی مارنا چاہتا ہے؟آخر معاشرے کی سوچ اتنی تنگ کیوں ہے؟
لڑکیوں کے ساتھ ذات پات، برادری اور رنگ کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ جس ا سکول کو تعلیم کا مندر کہا جاتا ہے وہاں بچیوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے اُن کے حوصلے پست کئے جاتے ہیں۔ اسکول کی سالانہ تقریب میں اسٹیج پر تقریر کرنے کے لیے اساتذہ، لڑکوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ لڑکیوں کو اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرنے دیا جاتا۔اگر لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر سکتی ہیں۔ لیکن گھر سے لے کر اسکول اور معاشرے تک اس کے حوصلے صرف لڑکی ہونے کے نام پر توڑ دیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے گاؤں کی 52 سالہ خاتون مہادیوی کا کہنا ہے کہ وہ لڑکیوں کی ترقی اور خود انحصاری کے حق میں توہیں اور چاہتی ہیں کہ لڑکیاں پڑھ لکھ کر آگے بڑھیں، لیکن لڑکیوں کے بارے میں معاشرے کی تنگ نظری اُن کے حوصلے توڑ دیتی ہے۔ ایک اور خاتون 40 سالہ ریوتی دیوی کا کہنا ہے کہ حکومت نے لڑکیوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع کھول دیے ہیں، جس کا فائدہ شہر کی لڑکیاں اٹھا رہی ہیں۔ لیکن دیہی معاشرے کی منفی سوچ لڑکیوں کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ریوتی دیوی کے خیالات کی حمایت کرتے ہوئے 42 سالہ شانتی دیوی کہتی ہیں کہ دیہی سماج کی سوچ بہت تنگ ہے۔ اسے لگتا ہے کہ لڑکیوں کا تعلیم حاصل کر کے خود انحصار ہونا اور صحیح اور غلط کے فیصلے پر آواز اٹھانا دراصل انہیں من مانی کرنے کی آزادی دے دے گا جو معاشرے کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ایسی لڑکیاں بگڑی ہوئی کہلاتی ہیں اور ان سے سیکھ کر دوسری لڑکیاں بھی بگڑ سکتی ہیں،اس سے سماج کی بدنامی ہوگی اور اس کی شبیہ کونقصان ہوگا۔ لیکن اگر لڑکے بھی یہی کام کرتے ہیں تو معاشرے کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتاہے۔ جو اس کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک اور خاتون مالتی دیوی کا کہنا ہے کہ معاشرہ لڑکیوں کو تعلیم دینے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ تعلیم پر خرچ کرنے کے بعد بھی ان کے جہیز پر پیسہ خرچ ہوتا ہے، ایسے میں وہ لڑکی کو پڑھانے کے بجائے گھر کے کام سیکھنے پر زیادہ زور دیتا ہے۔
ایک اور 38 سالہ خاتون نرملا دیوی کہتی ہیں کہ دیہی معاشرے میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کر کے خود انحصاری کا خواب دیکھنے کی آزادی تو مل سکتی ہے لیکن انہیں اس کی تکمیل نہیں ہونے دی جاتی۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ کسی ایک خاندان یا ذات کی سوچ نہیں ہے بلکہ جگتھانہ گاؤں کی اونچی ذات ہو یا نیچی، لڑکیوں اور خواتین کے تئیں سب کی سوچ ایک جیسی ہے۔ جس کا خاتمہ کرناضروری ہے۔ایسا نہیں ہے کہ پدرانہ معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے صرف مرد ہی منفی سوچ رکھتے ہیں بلکہ شعور کی کمی کی وجہ سے بہت سی خواتین بھی لڑکیوں کی تعلیم سے لاتعلق نظر آتی ہیں۔ گاؤں کی 48 سالہ چمپا دیوی کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو اتنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کرنا پڑتا ہے؟ ایک دن انہیں کسی اور کے گھر جا کر کھانا ہی پکانا پڑتا ہے۔ ایسے میں بہتر ہے کہ ہم ان ان کی تعلیم سے زیادہ ان کے جہیز پر رقم خرچ کریں۔ وہ جتنا زیادہ جہیز لے کر جائےگی، سسرال میں ان کی عزت اتنی ہی بڑھے گی۔ جب سسرال والے ہی اس کی تعلیم سے زیادہ جہیز کی توقع رکھتے ہیں تو پھر ہم اس پر پیسہ کیوں خرچ کریں؟ دراصل چمپا دیوی کی یہ سوچ نوعمر لڑکیوں کے تئیں سماج کی منفی سوچ کو بے نقاب کرتی ہے، جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ مہذب معاشرے کی تعمیر میں لڑکیوں کا بھی لڑکوں کے برابر کردار ہے۔ اس سے نہ صرف ترقی میں توازن پیدا ہوتا ہے بلکہ خواتین کے خلاف تشدد کا بھی خاتمہ ہوتا ہے۔ اگر نوعمر لڑکیوں کو بھی مناسب پلیٹ فارم دیا جائے تو وہ بہت اچھی طرح اپنی آواز اٹھا سکتی ہیں۔ اس کی ایک مثال شہری علاقہ ہے ،جہاں نوعمر لڑکیاں ترقی کے ہر شعبے میں برابر کا حصہ ڈال رہی ہیں۔ ایسے میں ضروری ہو جاتا ہے کہ دیہی معاشرہ نوعمر لڑکیوں کے تئیں اپنی تنگ نظری سے باہر نکلے اور انہیں تعلیم سمیت اپنی زندگی کے تمام فیصلے خود کرنے کی آزادی دے دے۔ (چرخہ فیچرس)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)