مسعودہ وانی
کتابوں کا مطالعہ کرنا اگرچہ آ ج کے دور میں مشکل ہے لیکن یہ ایک ایسا کام ہے جو آ پ کو کم عرصے میں بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔جو بات آ پ کسی سے نہیں سیکھ سکتے ،وہ آ پ مطالعہ کرنے سے سیکھتے ہیں۔ مطالعہ کرنے سے آ پ پوری دنیا کی جانکاری حاصل کر سکتے ہے یہی نہیں آ پ ان سوالوں کے جوابات بھی حاصل کرسکتے ہیں جن کے جواب آ پ کسی سے نہیں پوچھ سکتے ۔کتب بینی سے آپ کے خیالات وسیع ہو جاتے ہیں ،آ پ کا علم بڑھ جاتا ہے۔
آپ کو نئے نئے لفظوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔ کتب بینی میں گزرا وقت آپ کی شخصیت کو متحرک اور معزز بنانے میں اہم رول ادا کر تا ہے۔بہترین کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہم کئی طرح کے غلط کاموں سے بھی بچ جاتے ہیں ۔ اگر آ پ ایک بہترین ادیب ، شاعر ، مفکر ، مصنف ، قلمکار،فلسفہ دان اور دانشور بننا چاہتے ہیں تو اس کے لئےکتب بینی لازمی ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کتابوں کا مطالعہ کرنے سے آپ کچھ دیر کیلئے گمنام ہو جاتے ہیں لیکن پھر آپ ایک معزز نام بن کر اُبھرتے ہیں اور نہ جاننے والے بھی آپ کو جاننے کی خواہش کرتے ہیں ، آپ کو پڑھتے ہیں ، آپ کو سنتے ہیں ۔کتب بینی کا یہ فائدہ بھی ہے کہ انسان اپنے آپ کے بہت قریب جاتا ہے ،خود کو جاننے لگتا ہے، یوں کہیں کہ انسان اپنے اصل مقام سے آگاہ ہوجاتا ہے ۔ کتابیں اُس وقت ساتھ دیتی ہیں جب کوئی آ پ کے ساتھ نہیں ہوتا یعنی ایک کتاب ہی آ پ کی دوست ہے جو ہر لمحہ ،ہر وقت اورہر پل آ پ کا ساتھ دیتی ہے۔ آ پ کی تنہائی، پریشانی ، خوشی اور غم میں آپ کے ساتھ اور آ پ کے پاس رہتی ہے ۔ کتاب آپ کو ذہنی دباؤ سے نجات دلانے میں بھی دوا کا کام کرتی ہے ۔
لیکن دور جدید میں کتب بینی پر سوشل میڈیا کے مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں چونکہ عصر حاضر میں انٹرنیٹ کے بغیر زندگی ادھوری رہ گئی ہے ۔انٹرنیٹ کے بغیر انسان اپنی زندگی نامکمل سمجھتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انٹرنیٹ نے ہی انسان کو بنایا ہے۔ کھانے پینے سے لے کر انسان کے دن بھر کی مصروفیات تک صرف انٹرنیٹ ہی ہوتا ہے ،اس نے انسان کا وقت تو چھین تو لیا ہے لیکن ساتھ ہی کتابوں سے محبت اور لگن بھی چھین لی ہے ۔ پہلے انسان وقتِ فراغت میںکتابوں کا مطالعہ کرتا تھا یا کسی اخبار، رسالہ وغیرہ کا مطالعہ کرتا تھا لیکن آ جکل کے دور میں یہ ایک خواب دکھائی دیتا ہے۔ اب فارغ وقت میں کوئی موبائل پر گیم کھیلتا ہے تو کوئی سوشل میڈیا پر کسی سے محوِ گفتگورہتا ہے ،یہی نہیں اسکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں پہلے لائبریری میں بچے پڑھائی کے بعد کتب بینی میں مشغول ہوتے تھے ، مختلف قسم کی کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف ہوتے تھے لیکن وہ وقت جیسےہَوا ہوگیا ، اب تو لائبریریز میں بھی انٹرنیٹ سہولیات دستیاب ہیں،اِس کے بغیر لائبریریز کا دھندا چل نہیں سکتا ہے ۔ جس لائبریری میں انٹرنیٹ سہولیت موجود نہیں وہاں کا رُخ کوئی بھی نہیں کرتا ہے ۔ کتب بینی کرنا دور کی بات ستم ظریفی یہ بھی کہ اب تو طلاب درس تدریس سے وابستہ کتابیں بھی نہیں پڑھتے ۔ آ جکل تو کتابیں بس دسویں جماعت تک ہی دیکھنے کو ملتی ہیں، اسکے آ گے طلباء کتب بینی تو کیا درس و تدریس کی کتابوں کی شکل بھی نہیں دیکھتے ہیں ۔ یہ بات صحیح ہے کہ انٹرنیٹ سے پڑھنا بہت آ سان ہوگیا ہے ،وہ کتابیں جو ہم خرید نہیں سکتے انٹرنیٹ کے ذریعہ باآسانی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے ہر گز فرار حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ جو سکون کتاب کو ہاتھ میں لینے سے ملتا ہے ،وہ انٹرنیٹ سے پڑھنے میں نہیں ہے ۔ شوشل میڈیا استعمال کرکے ہمارے علم میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہمیں بہت سارے نقصانات اٹھانے پڑے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہماری یاداشت دن بہ دن کم ہونے لگی۔آ پ یقین کریںیا نہ کریں لیکن یہ بات بالکل درست ہے کہ سوشل میڈیا نے نہ صرف ہمارے دلوں میں کتب بینی کی محبت اور لگن ختم کر نے کے ساتھ ساتھ ہماری یاداشت کو بھی کمزور کر دی ۔
سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ سے ہمیں ہر طرح کی جانکاری حاصل ہوتی ہے ،ہم کم سے کم عرصے میں اپنے سوالوں کے جوابات حاصل کر سکتے ہیں ۔ لیکن کیا آ پ جانتے ہیں کہ وہ علم جو ہم کتب بینی سے حاصل کر سکتے،وہ بنسبت سوشل میڈیا، زیادہ دیر تک ہمارے ذہنوں میں تازہ رہتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہم موبائل فون کو ہاتھ میں لے کر کبھی کوئی کتاب اچھے سے نہیں پڑھ سکتے کیونکہ جونہی ہم انٹرنیٹ پر کوئی ویب سائٹ کھولتےہیں تو وہاں کئی طرح کے اشتہارات آ تے ہیں جو ہمارے ذہن و دماغ کا رُخ اصل سمت سے ہٹا کر دوسری سمت دھکیل دیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ انسان علم سیکھنے کی چاہت میں طرح طرح کی برائیوں میں جکڑ جاتا ہے اور نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ انٹرنیٹ نے ہمارے معاشرے کو کس قدر آلودہ کر دیا ہے ۔
سوشل میڈیا سے جتنے مضر اثرات کتب بینی پر پڑے، اس سے کہیں زیادہ کتب فروشوں پر بھی پڑے۔ پہلے زمانے میں کتب فروشوں کے دکانوں پر بھیڑ ہوتی تھی ۔لوگ جوق در جوق کتابیں خریدے تھے۔جو انگریزی نہیں پڑھ سکتا ، وہ اردو میں لکھی گئی کہانیوں کی کتابیں خرید لاتا۔ لیکن اب لوگوں کو سوشل میڈیا سے ہی فرصت نہیں ملتی، وہ کتابوں کا مطالعہ کیا کریں گے ۔کتب فروشوں کے دکانوں پر کتنے سالوں سے پڑی کتابیں مطالعہ کرنے والوں کی راہ تک رہی ہیں لیکن اس دور میں کتابوں کا خریدار ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ہے ۔ہم انٹرنیٹ کو استعمال کرنے کے لئے ایک مہینے کے لئے کم از کم چار سو دیتے ہیں لیکن ایک کتاب خریدنے کے لئے ایک سو روپے خرچ کرنے کو زیاں سمجھتے ہیں ۔
حاصل ِکلام یہ ہے کہ ہم سب کو چاہیے کتب کے ماحول کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کریں،سرکاری سطح پر اسکولوں، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں کتب بینی کو درس و تدریس کا اہم حصہ بنا نا ناگزیر اور وقت کا تقاضا ہے ۔ اس سے نہ صرف ہمارے علم میں اضافہ ہوجائے گا بلکہ ہمارے طلباءو طالبات سوشل میڈیا کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہ سکیں گے۔ والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں ،اس سے بالخصوص نوجوان نسل مختلف قسم کے بُرے کاموں سے محفوظ ہوسکتی ہے ۔
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔