آج کے زمانے میں کوئی بالغ بشر ایسا نہیںجو بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان نہ ہو۔ ویسے تو مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، دنیا کے سبھی ملکوں میں ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑی حد تک یہ ایک فطری امر بھی ہے کیونکہ دنیا کی آبادی میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس رفتار سے چیزوں کی پیداوار میں نہیں ہوا اور یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ جب کسی چیز کے خواہشمند یا طلبگار زیادہ ہو جائیں تو اس کی قیمت بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔دنیا میں لوہے، کوئلے اور پٹرول وغیرہ کے ذخیرے بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کے پیشِ نظر جس تیزی سے استعمال میں آ رہے ہیں، اتنی تیزی سے نئے ذخیروں اور وسائل کی دریافت نہیں ہوسکتی۔ غرض یہ چند عام حقائق ہیں جو دنیا کی بڑھتی ہوئی مہنگائی کو سمجھنے میں ہمیں مدد دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں مہنگائی کا مسئلہ دنیا بھر کے سبھی ملکوں سے زیادہ شدید اور تشویشناک ہے۔ملک بنیادی طور پر غریب اور ترقی پذیرہے جو برطانوی راج کے خاتمہ کے بعد سے ترقی کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ لیکن تاحال ترقی کے تمام منصوبے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی کمی کی وجہ سے پوری طرح عمل میں نہیں آ پاتے۔جس کے پیشِ نظر سماجی ترقی اور تہذیب و تمدن میں بھی واضح بہتری نہیں آرہی ہے۔بہرحال ان مسائل کو دور کرنے کے لئے آج بھی جی توڑ کر کوششیں ہورہی ہیں، اس سلسلے میں جو اقدامات اور کوششیں کی گئیں ان میں زرعی پیداوار، صنعتی ترقی اور بے روزگاری ختم کرنے کے منصوبے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ابتداء میں ان منصوبوں کی ترقی کی رفتار دیکھ کر یہ امید پیدا ہوچلی تھی کہ جلد ہی ملک خودکفالتی کے راستے پر پوری طرح گامزن ہوجائے گا اور غریبی اور بدحالی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن دوسری طرف ملک کی آبادی بھی غیر معمولی رفتار سے بڑھتی گئی اور ملک کی خوشحالی کے راستے میں ایک مہیب رکاوٹ بن کر سامنے آ کھڑی ہوئی ہے۔ظاہر ہے کہ ان حالات میں مہنگائی کا بڑھنا قدرتی امر ہے۔ لیکن موجودہ مہنگائی کی صورتحال کو منافع خوری بلیک مارکیٹ اور رشوت نے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ درمیانہ اور اوسط طبقے کے لوگ بھی پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے ہیں۔ غریبی میں کمی کی بجائے بے پناہ اضافہ ہو گیا۔
آج ملک میں بھوک، مفلسی اور بدحالی کا مسئلہ جتنا اہم ہوگیا ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھا۔ ان حالات میں عوام کی بھلائی اور بہتری کے لئےسرکار وں کی طرف سے کئے جارہے دعوے اور ملکی رہنماؤں کے وعدے عوام کے لیے تاحال سراب ہی ثابت ہورہے ہیں۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غریبی اور بدحالی کو روکنے کے لئے حکومت اور عوام دونوں کو جدوجہد اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کے دستور میں عوام سے اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ حکومت ان کی زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔ ویسے بھی عوامی حکومت یا جمہوریت اسی وقت اپنے نام کی اہل قرار دی جا سکتی ہے جب وہ اپنی عوام کو زندگی کی لازمی ضروریات کو پورا کرنے کا حق دے سکتے ہیں۔مہنگائی روکنے کے لئے حکومت کو اپنے تمام وسائل اور قوت سے کام لینا چاہیے اور بلیک کرنے والوں، رشوت خوروں اور بے ایمانی کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینی چاہیے۔کیونکہ اگر جلد ہی موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو یہ مسئلہ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائے گا۔ مہنگائی کی وجہ سے ایک طرف تو حکومت کے بہت سے ترقیاتی منصوبے عمل میں نہیں آ پاتے اور دوسرے ملک میں بے اطمینانی اور جگہ جگہ حکومت کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں جو تخریبی کارروائیوں اور توڑ پھوڑ کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور ان تخریبی کارروائیوں سے ملک کے امن و اطمینان میں خلل پیدا ہوتا ہے اور ترقی کے منصوبے سُست اور بے عمل ہو جاتےہیں۔اسی مسئلے کے نتیجے میں سرکاری ملازمین کی طرف سے بار بار تنخواہوں میں اضافے کی مانگ بھی بڑھ جاتی ہیں اور بعض اوقات ہڑتالیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ریلوے، ڈاک ، صحت اور ایسے ہی اہم شعبوں کی ہڑتالوں سے ہر سال ملک کے کروڑوں روپے کا خسارہ ہوتا ہے اور تنخواہوں میں اضافہ کرنے سے ملکی بجٹ پر کافی بوجھ پڑ جاتا ہے اور مہنگائی بڑھتی رہتی ہے۔حکومت ابھی تک موثر اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہے۔ لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام حکومت کو اس سلسلے میں مناسب تعاون نہیں دے رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون اور حکومت ہی منافع خوروں کو سزا دے سکتی ہے لیکن کیا یہ عوام کا فرض نہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو قانون کی نظر میں لائیں،پُرامن طریقوں سے ذخیرہ اندوزوں مناجائز منافع خوروں اور لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کو بے نقاب کریں اور ان کا سماجی بائیکاٹ کریں۔ اگر عوام اور حکومت دونوں اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح اور خلوص اور لگن سے انجام دینے کی کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب حقیقی معنوں میں ملک میں خوشحالی کا سورج چمکے گا۔