جموں و کشمیر خصوصاً وادی میں ایک طویل مدت سےناجائز منافع خوری کی جو صورت حال چلی آرہی ہے،اُس سے متوسط اور غریب لوگوں کے لئے کے لئے بے شمار مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ایک طرف وہ ایک لمبے عرصے سےروز گارکے حصول کی عدم دستیابی سے پریشان حال ہیں تو دوسری طرف بجلی اور پانی کی حصولیابی کے پیچیدہ رُخ نے اُنہیں بے حال کردیا ہے اور اب بڑے پیمانے پرمہنگائی کے مسئلہ نےاُنہیںکنگال بنادیا ہے۔چنانچہ سردیوں کا تلخ اور تکلیف دہ موسم رواں دواں ہے۔ بازاروں میں عوام کا ہجوم خورد ونوش کے اشیاء اور ایسے ہی گرم رنگ برنگے لباس خریدنے میں مصروف دکھائی تو دیتے ہیںلیکن اُن میں سے زیادہ لوگ ایسے ہوتےہیں جو صرف بازار اس لیے جاتے ہیں کہ شاپنگ کا مزہ لے سکیں، کیونکہ مہنگائی کی کاری ضرب نے اُن کی قوتِ خرید ہی توڑ کر رکھ دی ہے، و ہ شاپنگ تو نہیں کرتے محض قیمت پوچھ پوچھ کر وقت گزارتے رہتے ہیں،گویا اس طرح ہم سب مالی بحران سے دوچار ہورہے ہیں۔چنانچہ ہمارے یہاںناجائز منافع خوری کے خلاف کو ئی سخت قانون شایدنافذ ہی نہیں اور نہ ہی اس کے مرتکب افراد کو سزائیں دینے کا کوئی قابل ذکر کیس سامنے آیا ہے۔اسلئےبغیر کسی خوف و کھٹکےیہ کام کھلے عام ہو رہاہے اوراشیائے ضروریہ ،خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ ،کانگڑی کا کوئلہ اورادویات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کرنے کا عمل جاری و ساری ہے،جس سےمتوسط و غریب طبقہ بُری طرح متاثر ہورہا ہے۔ناجائز منافع خوری کے عادی تاجروں اور دکانداروں نے چلہ کلاں اور بارف باری سے قبل ہی ضروری چیزوں کی قیمتیں بڑھادی تھیں اور بہت ساری چیزوں کا ذخیرہ بھی کرچکے ہیں،تاکہ برف باری کے بعد یخ بستہ سردیوں میں اُن چیزوں کے دام مزید بڑھا سکیں۔چنانچہ اس وقت اگر سبزیوں کی قیمت آسمان سے بات کرنے لگیں تو پھر عام آدمی کے کھانے کے لئے کیاکچھ باقی رہتاہے۔ آسمان چھوتی ہوئی اس مہنگائی سے ہمیں کب چھٹکارا ملے گا،اس بار ے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ہاں! اگر یونہی حالات رہے تو غریب کا جینا مزید دوبھر ہوجائے گا۔ پہلے غریب یہ سوچتا تھا کہ چلو ہم اس مہنگائی میں گوشت، مچھلی،پنیر کھا نہیں سکتے تو سبزیاں کھاکر گزارہ کر لیں گے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اب اُن کی اس خواہش پر پانی پھیر گیا ہے۔ بعض سبزیوں کی قیمت سُن کر غریب کے ہوش اُڑ جاتے ہیںاور پھرکھانا تو دور خرید بھی نہیں سکتا ہے۔ اس صورتحال میں بھی چند بد بخت تاجر غریبوں کا بچاکچا خون بھی چوسنے کے غرض سے پیاز اور دیگر کئی سبزیوں اور دالوں کی ذخیرہ اندوزی کرنے میں مصروف ہیںتاکہ جب برف باری کے نتیجے میں سرینگر جموں شاہراہ پر آمدروفت میں خلل پیداہوجائے تو اُس کی آڑمیں وہ اپنے ذخیرہ شدہ اشیائے خوردنی کو باہر نکال کراُن کی قیمتوں میں من مانے اضافے کرسکیں۔ ان عناصر پر حکومت ہی لگام کس سکتی ہے، اگر روک نہیں لگایا گیا تو یہ تاجر غریب عوام کا جینامزید حرام کردیں گے۔ ان صورتِ حال کے پیش نظر مرکزی وریاستی حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے لیے روز مرہ کے کھانے پینے کی چیزوںکو واجبی دام میں سپلائی کرانے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں تاکہ غریب کی زندگی مہنگائی سے مزید متاثر نہ ہوجائے۔ عوام کے لئےروز مرہ کھانے والی اشیاء کی مناسب قیمتوں پر فراہمی کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہےاور یہ وہ مسئلہ ہے جو سرکاری انتظامیہ ہی حل کرسکتی ہے۔لیکن بغور دیکھا جائے تو سرکاری انتظامیہ کی طرف سے ایسا سب کچھ نہ آج تک ہوتا آیا ہے اور نہ آج ہورہا ہے تاہم اُمید کی جاسکتی ہے کہ انتظامیہ اب کچھ کرکے دکھانے والی ہے۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ ہمارےیہاں کے معاشرے میں ایمانداری ،حق پرستی اور انصاف کا فقدان ہے،جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔سچ یہ بھی ہے کہ وادیٔ کشمیر میں ایک طویل عرصے سے نامساعد حالات سے اور پھر سیلاب اوراس کے بعد کورنا قہر سےمعاشرے کا ہر فرد بُری طرح متاثر تو ہوچکا ہے ، لیکن حیرت کا مقام ہے کہ اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کشمیری معاشرے کے بیشترافراد اپنے ہی معاشرہ کے لوگوں کا خون چوسنے، ٹھگنے اور لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں ،کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسے کماتے ہیںاوراپنے اس غلط طرز ِعمل کو جاری رکھ کر اخلاقی و ذہنی پستی کا بھرپورمظاہرہ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے، شائد وہ بھول جاتے ہیں کہ انسان کے نیک اعمال ہی اُس کے ایمان کو روشن کرتے ہیںاور بُرے اعمال اُسے تباہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔