بلا شبہ دُنیا کی زندگی فقط کھیل تماشہ ہے ۔انسانی زندگی میں کامیابی کے لئے ضروری شرط یہ ہے کہ حیوانات کی طرح حلیم اور صابر و محنت کش بن جائیںاور ایسا کوئی دن نہ گذرے جس میں اپنے آپ میں کوئی بہتری پیدا نہ کرسکیں۔کیونکہ زندگی محض ’’وقت‘‘ ہے،جسے اگرہم ضائع کریں تو گویا اپنی زندگی برباد کرتے ہیں۔سچ تو یہ بھی ہے کہ انسانی زندگی چند روزہ ہے لیکن اس کی ذمہ داری کئی حصہ زیادہ ہےاور ہماری چند روزہ زندگی کا وہ حصہ جو دنیا کی چہل پہل سے علاحدہ صرف ہوتا ہے بصیرت کے نئے نئے باب ہماری چشمِ بینا کے سامنے کھول دیتا ہے۔اس لئے وہ’’ وقت‘‘ انسانی زندگی میں ہرگز محبوب نہیںہوسکتا،جو لہو و لعب اور بے ہودہ اشغال میں صرَف ہوجائے۔گویا نشاط و انبساط اور اندوہ کلفت زندگی کی اصل غرض و غایت نہیں،اس کا منتہائے مقصود تو یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سرگرم عمل رہیںتاکہ مستقل روز بروز بہتری ہوجائے۔بظاہر ہم سبھی دیکھ رہے ہیںکہ کسی کی بھی زندگی کے لیل و نہار ایک جیسے نہیں رہتے ،حالات بدلنے رہتے ہیں۔چاہئے تو یہ تھا کہ ہم بدلتے ہوئے حالات سے سبق حاصل کرتے لیکن ہم ہیں کہ لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں ،وہی کچھ کرتے رہتے ہیں ،جس سے نہ ہماری دنیا بنتی ہے اور نہ آخرت۔ ہمیشہ اپنی کوتاہیوں ،لغزشوں ،خامیوں پر پردہ ڈالتے رہتے ہیںاور دوسروں کو رُسوا کرنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ہم چاہیں تو بدتر کو بہترین بنا کر پیش کریں اور چاہیں تو ذی عزت فرد کو بدتر بنا کر بدنام کریں،یہی ہمارے اس سماج کی عکاس بن چکی ہے۔ہم دوسروں کو نصیحت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جبکہ کوئی ہماری اصلاح کرےتو قیامت آجاتی ہے۔ہماری چال میں ،ہمارے گفتار و کردار میں تکبر کی آمیزش ہوچکی ہے۔ہم خود کو فرشتہ سمجھ کر دوسروں کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ متکبر جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے ،اپنے بھائی کے لئے پسند نہیں کرسکتا ، کینہ بھی نہیں چھوڑ سکتا ، حسد سے نہیں بچ سکتا ، کسی کی خیرخواہی نہیں کرسکتا اور اپنا بھرم رکھنے کے لئے ہر بُرائی کرنے پر مجبور اور ہر اچھے کام کو کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضرہ میں انسانی رشتوں میں بھی بڑی بڑی دراڑیں پڑگئی ہیں۔ معاشرہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہے اور مسلمان اپنی روایات اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور آئے دن والدین کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اور قتل جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنا معمول بن چکا ہے۔ اللہ کی عبادت کے بعد سب سے بڑی نیکی والدین سے اچھا سلوک ہے جسے مسلمان آج فراموش کرچکے ہیں۔ آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ حقوق العباد کے متعلق اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور خصوصاً والدین کے مقام و مرتبے کے متعلق جو احکامات ہیں ، اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مختلف پروگراموں کے ذریعے عام کریں جبکہ معاشرے کے تمام طبقات کے لوگوں کی طرف سے اس معاملے میں اہم کردار ادا کرنے سے ہی ایسا ممکن ہوسکتا ہے تاکہ مسلم معاشرے میں والدین اور بزرگوں کو اُن کا مقام مل سکے۔ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے نے جو روش اختیا ر کرلی ہے ،اُس سے معاشرہ کے لاتعدادافراد ذہنی اُلجھنوں کا شکار ہوکر اپنی روزِ مرہ کی زندگی بھی متاثر کر بیٹھےہیں۔ جس کے سبب پریشانیاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔بغور جائزہ لیا جائے توبیشتر پریشانیوں کا حل براہِ راست متاثرہ افراد سے ہی جڑا ہوتا ہے، جس کاوہ خود ہی علاج کرسکتے ہیں۔طبی ماہرین کا بھی کہنا ہےکہ زندگی کے آدھے مسائل انسان خود اپنے لیے پیدا کرتا ہے، آسان چیزوں کو چھوڑ کر مشکل چیزوں کا انتخاب اور کسی بھی تکلیف دہ چیز کو بھولنے کے بجائے تا دیر اُس پر سوچتے رہنے یا اُس کا حل تلاش نہ کرنے کے سبب زندگی کا زیادہ تر حصہ مشکلوں اور پریشانیوں میں گزار کر اپنے آپ پر اعتماد تک کھو بیٹھتے ہیں،حالانکہ اعتماد ہی زندگی کی متحرک قوت ہے ،جس کے سبب زندگی اور صحت تھوڑی آمدنی پر بھی قائم رہ سکتی ہے۔تمام لوازماتِ زندگی سے ہر کوئی لطف اندوز نہیں ہوسکتا ،جبکہ امیدوں کے سہارے زندگی گذارنا بھی خود کو دھوکہ دینے کے برابر ہے۔زندگی کا اصل مقصد خدائی حکومت کا قیام ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ ہم میں سے ہر شخص سچائی اور دیانت داری اختیار کرے۔عقلمندی اسی میں ہے کہ اپنی زندگی کو ضروری کاموں میں صرف کیا جائےاور یہ سمجھ کر کہ جیسے آج کا دن میری زندگی کا پہلا دن ہے اور یہی آخری دن بھی ہے،تو آپ محسو س کریں گے کہ زندگی موت سے بھی سخت ہے ،جو حُسن اخلاق سے ہی راحت اور سکون سے گذاری جاسکتی ہے۔