شیخ ولی محمد
انسانی زندگی تین ادوار پر مشتمل ہے۔ بچپن ، جوانی اور بڑھاپا ۔ لیکن ان میں سب سے جو یاد رکھنے والا دور ہے وہ بچپن ہے۔ ہر انسان اسے اپنی زندگی کا حسین اور خوبصورت دور سمجھتا ہے۔ بچپن کہنے کو تو صرف چار حروف ہیں۔ لیکن ان حروف میںخدا جانے کیا کچھ چھپا ہے۔ معصومیت ، نادانیاں ، حماقتیں ، بے وجہ ضد ، اسکول ہوم ورک نہ کرنے پر امی ابو کی شفقت بھری ڈانٹ ڈپٹ ، مار پڑنے پر والدین سے ناراض ہوجانا ، اور پھر ان کا پیار سے منانا ، اپنی فرضی کی کوئی چیز لانے کی ضدکرنا ، چیز نہ ملنے پر اسکول نہ جانے کی دھمکی دینا ، چیز ملنے پر تفاخرانہ انداز میں سب کو دکھانا ، چھٹیوں میں ننھال جانے کے لئے خوشی خوشی تیاری کرنا ، نانا ابو کی انگلی پکڑکر باہر گھومنے جانا ، نانا نانی دادا دادی کا دیر تک کہا نیاں سننا ، سارا دن کھیلتے رہنا ، گھنٹوں تک تتلیاں پکڑنے کی کوشش کرنا ، ریت اور مٹی کے گھر وندے بناکر خود ہی ان کو مٹانا ، کا غذکے جہاز بناکر اڑانا اور کاغذ کی کشتیاں بارش کے پانی میں چلانا ، چھت پر چڑھ کر چڑیوں کو دانا کھلاکر پکڑ نا ، اور اس قسم کی بے شمار یادیں انسان کی زندگی کا جز لاینفک ہے جسے بھلانا انسان کے بس میں نہیں ہے ۔بچپن سے جڑی ہوئی ایسی سرگرمیاں عملی طور پر بیسویں صدی کے آخر تک ہی دیکھنے کو ملتی تھی۔ آج کے 21دیں صدی کے اس انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں ایسی سرگرمیاں ماضی کی یادیں بن چکی ہیں ۔ اس وقت جو لوگ اپنی جوانی اور بڑھاپے کے دور سے گزررہے ہیں جب وہ اپنے حسین بچپن کو یاد کرتے ہیں تو وہ ایسی وادیوں میں گم ہوجاتے ہیں جن سے واپس لوٹنے کو دل ہی نہیں چاہتا ۔ اس دور کے حسین بچپن کی عکاسی سُدھرشن فقیر نے اپنے ان اشعار میں بجا طور پر کی ہے جس کو معروف گلو کار جگجیت سنگھ نے پر اثر انداز میں گا یا ہے ۔
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کا غذ کی کشتی ، وہ بارش کا پانی
محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرہ
وہ چہرے کی جھریوں میںصدیوں کا پہرہ
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں ،وہ لمبی کہانی
کڑے دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیا ، وہ بلبل، وہ تتلی پکڑنا
وہ گڑیاں کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا، وہ گر کےسنبھلنا
کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پر جا نا
گروندے بنا نا ، بنا کے مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں ، کھلونوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا ،نہ رشتے کے بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی
دور حاضر جسے موبائیل اور انٹر نیٹ کا دور کہتے ہیں میں ہمارے معصوم بچوں میں بچپن ختم ہوتاجارہاہے ۔ یہ معصوم بچے مختلف قسم کے بوجھ تلے دب چکے ہیں ۔ جہاں ہمیں ٹی وی ، موبائیل ، کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ اور انٹر نیٹ سے فرصت نہیں ملتی وہاں وہ دادا دادی ، نانا نانی سے درکنار اپنے ماں باپ کی شفقت اور محبت سے بھی محروم ہیں ۔ مادیت کے اس دور میں والدین نے اپنے بچوں سے کتنی دوری اختیار کی ہے اس کا اندازہ فیصل آباد کے اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ایک اُستانی گھر میں جوابی پر چوں کی مارکنگ Evaluation کررہی تھی کہ وہ اچانک رونے لگی ۔ وہاں بیٹھے اس کے شوہر نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس عورت نے یہ جوابی پرچہ اس کی طرف بڑھایا ۔ بچے سے سوال کیا گیا تھا ’’ کہ آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟ ‘‘ بچے نے جواب دیا” I want to be a smart phone “یعنی میں ایک سمارٹ فون بننا چاہتا ہوں ۔ اور آگے لکھا تھا کہ جب میں اپنی ماں سے بات کرتا ہوں تو وہ سمارٹ فون کے ساتھ مشغول ہوتی ہے اور میری باتوں کا جواب اشاروں اور آوازوں سے ہی دیتی ہے اور یہی حال پاپا کا ہوتا ہے ۔ میں حسرت سے تمنا کرتا ہوں کہ کاش میں یہ سمارٹ فون ہوتا تاکہ مجھے بھی اتنی توجہ ملتی۔ اب شوہر نے کہا کہ ’’ رونے کی کیا بات ہے ‘‘ ؟ تو استانی نے بتا یا کہ یہ ہمارا ہی بچہ ہے۔یہ واقعہ دراصل پورے سماج کی عکاسی کرتا ہے ۔ مسابقتی دور میں ہم ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں اپنے 3سالہ شیر خوار بچوں کی اسکولوں کے حوالے کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچپن کی صورت میں جو حسین تحفہ دے رکھا ہے ہم اس کو بھی چھین رہے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ بچہ ’’ بادشاہ‘‘ کے مانند ہوتا ہے۔ تا ہم یہاں کے اسکولی سسٹم میں اس کا تصور ہی نہیں ۔ تعلیمی لحاظ سے آگے بڑھنے والے ممالک میں 7 سال کی عمر کے بعد ہی بچے کو اسکول میں داخلہ ملتا ہے اور وہاں پر اسکول وقت کو 6گھنٹے سے گٹھا کر4گھنٹے تک کیا گیا ہے۔ جبکہ ھوم ورک سے بھی بچوں کی مستثنیٰ رکھا گیا ہے لیکن اس کے برعکس یہاں پر معصوم بچے کتابوں ، امتحانات اور دیگر بوجھ تلے دب چکے ہیں ۔ بقول حنیف کیفی ؔ۔
رہ گیا دب کے کتابوں تلے بچپن میرا
پڑھنا لکھنا ہی مرابن گیا دشمن میرا
دل کو میں کھیل کھلونوں میں لگا ؤں کسے
مجھ پہ جو روز گزرتی ہے بتاؤں کیسے !
بوستان کالج Bostan College کے ریسرچ پروفیسر نفسیات پیڑ گرے Peter Grayکے الفاظ ہیں :”Children are designed by Natural Selection to play”یعنی بچے قدرت کی طرف سے کھیلنے کے لئے تخلیق کیے گئے ہیں ۔ انھوں نے اپنے تحقیقی مقالہ میں ٹھوس حقائق کی بنیاد پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ نظام تعلیم نے بچے کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ انھوں نے موجودہ ناقص نظام تعلیم کو ہدف تنقیدبناتے ہوئے کہا کہ اسکولوں میں بچوں کو پڑھانے کی خاطر وہی جبری اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جو کھیتوں اور فیکٹریوں میں مزدور کو کام کرنے کیلئے اُٹھا ئے جاتے ہیں۔ موجودہ ترقی یافتہ دور کے والدین اور سرپرست اپنے ننھے اور معصوم بچوں سے ایسی امید یں ، خواہشیں اور توقعات کرتے ہیں کہ وہ جلد سے جلد عصری علوم حاصل کر کے اپنا مستقبل روشن اور تابناک بنالیں ۔اس کے لئے دور حاضر کے والدین اپنے معصوم دودھ پیتے بچوں کو جنہو ں نے ابھی ٹھیک سے بولنا نہیں سیکھا اس پرتعلیم کا بوجھ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں ۔مدرسہ عمل Activity Based School کے علمبر دار ماہر تعلیم روسو کا کہنا ہے کہ ’’ قدرت کا منشا ہے کہ بچے جوان ہونے سے پہلے بچے ہی رہیں ۔ اگر ہم اس اصول کو اُلٹ دیں تو اس کا نتیجہ ایک ایسا بے موسم پھل ہوگا جو نہ صحیح طور پر پکاہوا ہوگا اور نہ ذائقہ دار ‘‘ ۔ معصوم بچوں کو تعلیمی بوجھ سے نجات دلانے اور ان کا بچپن بچانے کیلئے جرمن نژاد ماہر تعلیم فیڈرک فروبل نے کنڈر گارٹن (KG) Kinder Gartonکا تصور دیا۔ جس کے مطابق بچوں کی نشو ونماء فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہئے ۔ اس کا نظر یہ یہی تھا کہ بچوں کی ابتدائی تعلیم آزادانہ اور فطری ماحول میں ہو۔ بچوں کو کھیل کود کے لئے مواقع میسر ہوں ۔ بچوں کی خواہشات اور دلچسپیوں کو مدنظر رکھا جانا چاہئے ۔ فروبل نے کھیل کود کے ذریعے تعلیم دینے پرزو دیا ۔ کنڈر گارٹن کے ذریعے بچوں کے لئے کتابوں کا مطالعہ کم سے کم رکھا جائے۔ کہانیوں اور گیتوں کے ذریعے ذہنی اور اخلاقی تعلیم فراہم کی جائے ۔ بدنی حرکات اور جسمانی ورزشوں سے جسمانی اور ذہنی صحت کی پرورش کی جائے ۔اخلاقی اور مذہبی نقطہ نظر سے بھی اگر اس مسلے پر غور کیا جائے تویہ بات واضح ہے کہ جہاں بچے کی پیدائش پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا جائے ۔صنفی تفریق سے اجتناب کیا جائے ۔ بچے کا عقیقہ اور ختنہ کیا جائے ، اس کی پرورش ، تعلیم و تربیت کا معقول انتطام کیا جائے تو وہاں اس بات پر بھی زو ر دیا گیاہے کہ ’’بچپن ‘‘ جو بچوں کیلئے عطیہ الٰہی ہے اس کو چھینانہ جائے ۔والدین کی شفقت و محبت ان کا بنیادی حق ہے ۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کا ارشاد ہے کہ ’’ بچوں کو چوما کرو اس کے بدلہ میں تم کو جنت میں بدلہ ملے گا۔ جو بچوں کے ساتھ شفقت اور رحمت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ‘‘۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو چوم رہے تھے تو ایک بدونے دیکھ کر کہا کہ رسول اللہؐ ’’میرے دس بچے ہیں میں نے کبھی نہیں چوما ‘‘۔ آپ ؐ نے فرما یا کہ ’’ اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں ‘‘۔
آج کل کے ترقی یافتہ دور کے والدین ، سرپرست اور اساتذہ حضرات سے مودبانہ درخواست ہے کہ جس طرح کلی کھلنے کے بعد فوراًپھول نہیں بنتی اسی طرح کھلی کو کھلنے سے پہلے مرجھانا کسی کو پسند نہیں ۔ تو بالکل ایسی طرح اپنے بچوں کو کلی بننے سے پہلے کیوںمرجھارہے ہو آپ اپنے بچوں کے چہرے کی بھولی ، معصوم مسکراہٹ کو برقرار رکھنا سیکھیں ۔ اب نئی قومی تعلیمی پالیسی میں ابتدائی بچپن کی نگہداشت اور تعلیم Early Childhood Care and Education (ECCE) کی بات کی گئی ہے تو محکمہ تعلیم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آنگن واڈی سنٹروں اور پرائمری اسکول میں خوشگوار ماحول فراہم کیا جائے تاکہ ہمارے معصوموں کا بچپن متاثر نہ ہو ۔