عاشق حسین وانی عاشق
جب انسان کی رُوح گناہوں سے مردہ پڑ جاتی ہے، جب گمراہی کا غیر اخلاقی رجحان انسان کی نیک سیرت پر قابض ہو جاتی ہے یا جب انسانیت سوز افعال سماج میں ہر طرف پھیل جاتے ہیں تو جو چیز انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر غفلت و سر شاری کی اس نیند سے بیدار کر تا ہے اور ذہن میں فکریِ شعورکی ایک نئی کیفیت کو جنم دیتا ہے ،وہ دراصل احساس کہلاتا ہے اور اگر چہ گمراہی نے انسان کو سچائی و پر ہیز گاری سے جینے کی صلاحیت کو کسی حد تک مغلوب بھی کیا ہو لیکن احساس کی یہ نئی بیداری انسان کے د ماغ کومضطرب کر کے تغیر وتبدل کی ایک نئی کیفیت اُبھار دیتا ہے جو انسان کو فکر و خیال کا ایک نیا جوش پیدا کر دیتا ہے اور یہ احساس کی نئی بیداری اس وجہ سے انسان کو خو شی کا ایک پیغام دیتی ہے کیوں کہ وہ احساس کی بدولت کسی کا دکھ، درد یا خوشی کو محسوس کر کے اس میں شریک ہوتا ہے۔
احساس کیا ہے ؟ احساس در اصل ذہنی تاثیر کا وہ خوش نما جذبہ ہے جو انسان کے شعور کو متحرک کرکے انسان کو انسانیت اور انسانی ہمدردی کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔ جس کی مکمل حیات احساس میں موجود نیک خلوص اور تاثیر میں مضمر ہوتا ہے یا ہم احساس کو انسانی ذہن میں رونما اس تبدیلی کے ساتھ بھی جوڑ سکتے ہیں جو ایک انسان اپنے اندر حس کے نظام سے محسوس کرتاہے اور پھر ان غیراخلاقی و غیر انسانی افعال سے بعض آنے کی کوشش کرتا ہے جویہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ حق اور انصاف کے عین بر عکس بار بار دہراتا ہے اور اس ابھرتے ہوئے احساس میں جس قدر مظبو طی اور خلوص ہو، اس قدر احساس کا جذبہ بھی عمیق تر اور گہرا دکھائی دے گا ۔
شدتِ جذجات سے موجزن احساس کبھی بھی زبان یا کسی اور تربیت کا محتاج نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ دل سے اٹھنے والے جذباتوں و خیالاتوں کی وہ براہِ راست ترسیل ہے جو محبت کے پھیلاو اور نفرتوں کو دور کر کے سماج میں ایک فرد کو دوسرے فرد کے ساتھ جوڑ دیتا ہے ۔ احساس کی بیداری گہری و ابستگی و ہمدر دی کے ساتھ ساتھ کبھی اس کا الٹ یعنی نفرت کا مزاج بھی دکھا سکتا ہے ۔ مثال کے طو ر پر ایک مظلوم جب بار بار ظالم کی بربریت کو سہتا ہے تو مظلوم اس ظلم کے خلاف جو انتہائی عبرت ناک قدم اُٹھاتا ہے وہ بھی ایک احساس ہو تا ہے ۔ گویا احساس جو انسانی تا ثیرات و احساسات کی خارجی عمل کے ساتھ ایک مکمل اظہار ہے خلوص و نظریات سے پر کھی جاتی ہے ۔ احساس وہ ایک فکری آینہ ہے جس کو بار باردیکھنے سے ہم اپنی زندگی کو نیک راستے پر استوار کر سکتے ہیں اور ہر قدم پر یہ جایزہ لے سکتے ہیں کہ ہم میں کہاں تک صفائی و سچائی یا بے غیرتی و بد مزاجی ہے۔
احساس ایک ہی کیفیت کا حامل نہیں ہوتا اس کے اعلیٰ قدر قوت میں دو طرح کے رجحان پائے جاتے ہیں ایک مثبت اور دوسر ا منفی ۔ مثبت احساس محبت ، ہم آہنگی و انسانی ہمدردی سے بھر پور وہ صلاحت ہے جو ایک دوسرے کے دلوں کو جوڑنے میں معاون و مدد گار ذریعہ ثابت ہوتا ہے ۔ یہ احساس انسان کے اندر محسوسات سے متاثر ہوکر خود بہ خود پیدا ہوتا ہے۔ در اصل اس احساس کے پیچھے فکری ِزوق کی ایک ایسی طاقت کارفرما ہوتی ہے جو کسی خارجی یا داخلی قوت کی محتاج نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی یہ قوتیں اس کو کسی بھی طرح مغلوب کر سکتی ہیں اس کا اثر غیر انسانی افعال پر برابر حاوی ہوتا ہے ا ور یہی احساس ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ جوڑنے کی تلقین کر تا ہے اور سماج میں امن و سکون پیدا کرتا ہے۔ اور اس کے بر عکس منفی احساس کے ابھرنے سے انسان کے ضمیر میں خو د غرضی ، نسل و ذات پرستی، مذہبی تعصبات جیسے غیر اخلاقی عناصرپرورش پاتے ہیں جو انسان کی عقل و اخلاقیات پر قابض ہو کر انسان کو امن و استحکام کو بگاڑنے والا ،مطلب پرست او ر لالچی بنا دیتا ہے جو غم و غصہ ،بے چینی ، انتشارو افرا تفری کے کردار میں نظر آتا ہے۔
احساس نیکی و مہربانی کا راستہ دکھا کر انسان کے دل کو نرم و انکسار اور عقل کو عمدہ اوصاف کا نمونہ بنا دیتا ہے ۔ یہ احساس کی قوت ہی ہے جو انسان کو انفرادی و اجتماعی دونوں صورتوں میں صحیح سو چنے کی تلقین کرتا ہے تا کہ انسان کو ہر وقت اپنے سماج کے تئیں فلاح و بہبود کی فکر رہے ۔ غریبوں و محتاجوں کی مدد اور سماج میں ہر انسان کے ساتھ بھلائی یہ سب اس کے دل میں اسی احساس ہی کی بدولت نشو و نما پاتا ہے ۔
کسی بھی فرد میں احساس پیدا کر نے کا واحد راستہ اس فرد کو ان تمام تر ذمہ داریوں کی طرف راغب کرنا ہے جو اس کی طرف سے سماج یا ملک کو لازم آتے ہیں ۔ ان زمہ داریوں کو جب کوئی فرد سماج میں رہ کر بخوبی انجام دیتا ہے تو گویا یہ فرد احساس کی اہمیت کو تسلیم کر کے دوسروں کے جذبات و احساسات کو متاثر کر کے انہیں نیکی کی طرف دعوت دیتا ہے اور انھیں انسان دوستی و ہمدردی کا وہ مادہ ذہن میں بھر دیتا ہے جو حقیقت میں احساس کہلاتا ہے ۔ ا و ر وقت آتا ہے جب یہ انسان اخلاقی برتر ی حاصل کر کے منفردحیثیت کا مالک بن جاتا ہے ۔
وہ فرد جس کے دل میں دوسرں کی بھلائی کا احساس ابھرے اور پھر وہ اس احساس کو عملی جامہ نہ پہنے یا نا وابستگی یا بے مروتی کا اظہار کرے تویہ واقعی انسانیت کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔ در اصل ایسے لو گوں کی زندگی انسانی امنگوں کے پابند ہو نے کے بجائے آزاد ہو ا کرتی ہے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے وہ دوسروں کی فکر نہیں کرتے ہیں ۔وہ لوگ جن کو احساس کا شعور نہیں ہوتا، ان کے دل سخت ہو تے ہیں ان میں انسانی ہمدردی یا ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ بھی موجود نہیں ہوتا ہے۔
وہ فرد جس کے اندر احساس ہوتا ہے اس میں ضروری دوسروں کی محبت ہو تی ہے کیوں کہ یہ احساس ہی ہے جو بہترین زندگی کی پہچان ہوتی ہے اور احساس رکھنے والے فرد کے ساتھ زندگی گزارنا یا اس سے کوئی اہم مشورہ لیناآسان ہوتا ہے کیوں کہ وہ انسانی درد مندی کے جذبے سے ہر وقت سرشار ہوتاہے اور اس کو ہر ہمیشہ دوسروں کی خوش حالی کا خیال رہتا ہے اوریہ احساس اس فرد میں سدا برقرار رہتا ہے اور اس میں کبھی بھی کوئی کمی نہیں آ جاتی ہے۔ اس کے برعکس وہ فرد جو احساس سے عاری ہوتا ہے اس کا دل یقینا محبت سے خالی ہوتا ہواور وہ مکاری و بے ایمانی سے اپنی زندگی گزارتا ہے۔
احساس انسان کی عقل کو ہر دم بیدار رکھتا ہے تا کہ زندگی میںوہ بے شمار گناہ سر زد نہ ہو جائیں جس کا بوجھ ہم بعد میں اٹھا نہیں سکتے ہیں اس دنیاوی دوڑ میں جب ہمار ا سفر اختتام کو پہنچ جاتا ہے اور آنکھوں کی روشنی ختم ہو جاتی ہے تو احساس ہی کے سہارے ہمارے ڈگمگاتے قدموں میں ایک نئی طاقت آجاتی ہے جو ہمیں حق کے راستے پر گامزن کر نے کی کوشش کرتا ہے اور انسانوں سے محبت سکھاتا ہے ۔ احساس ہی کے سہارے سے ہماری عقل سے غفلت کے پردے کھل جاتے ہیں ۔ احساس آخرت کا خیال اور گناہوں سے پرہیز گاری کا سلیقہ پیدا کرتا ہے ۔ غرض احساس عقل کی روشنی میں وہ چمکتا ہوا خیال ہے جس کے تابع دنیا و آخرت کی تما م خوبیاں اور ساری نیکیاں ہیں۔
رابطہ۔بانڈی پورہ،کشمیر
[email protected]
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)