توصیف احمد وانی ۔اونتی پورہ کشمیر
سیرت النبی ؐکے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کی تہذیب و تربیت کے لیے معمولات زندگی میں ایسے اداب کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت فرمائی ہے جن کے اپنانے سے انسان مہذب، شائستہ، اور باوقار بن جاتا ہے اور اس کی زندگی مناظم و منضبط ہو جاتی ہے۔ تہذیب و شائستگی کے امور میں سب سے اہم چیز طہارت و صفائی ہے۔ جس کے بارے میں نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ بحیثیت مسلمان ہر فرد کو اپنے کپڑے، گھر، گلیوں اور محلوں کو صاف رکھنا، نیز جہازوں، ریل گاڑیوں اور پبلک مقامات پر موجود غسل خانوں کی صحیح طریقے سے استعمال کرنا اور صاف کرنا لازم ہے۔
انسان کی بعض حرکات و سکنات تہذیب و شائستگی کے خلاف ہوتی ہے، جنہیں دیکھ کر دوسرے لوگوں کو ناگواری محسوس ہوتی ہے۔ مثلا جمائی لینا، اس لیے نبی اکرم ؐ نے تلقین فرمائی کہ جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اپنے منہ کو بند کر لے، کیونکہ شیطان اس کے منہ کے اندر گھس جاتا ہے۔ بعض لوگ چھینک کر الحمدللہ کہنے کی بجائے Excuse me کہتے ہیں،حالانکہ اس میں کسی کو تکلیف نہیں ہوتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھینک آنے پر الحمدللہ اور جواب میں یرحمک اللہ کہنے کی تلقین فرمائی ہے۔
مجلس میں تہذیب و وقار کی شکل پیدا کرنے کے لیے فرمایا کہ کوئی شخص مجمع کو چیر کر آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے بلکہ جہاں جگہ مل جائے وہیں بیٹھ جائے۔ صحابہ کرام ؓ،رسول اللہ ؐ کی مجلسوں میں اسی طرح بیٹھتے تھے۔ صحابہ نے عرض کیا ،ہماری مجبوری ہے کہ ہم محفل جماتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کرتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا، اگر اتنی مجبوری ہے تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرام نے پوچھا راستے کا حق کیا ہے؟ رسول اللہؐ نے فرمایا، نظروں کو جھکا کر رکھو، تکلیف دہ چیزوں کو دور کرو، سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو۔ یہ حدیث ٹریفک کے نظام میں نظم و ضبط کی پابندی اختیار کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ ہمارے یہاں کشمیر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی معمولی چیز بن گئی ہے۔ حدیث کے الفاظ ہے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ایک جامع کلمہ ہے۔
دین اسلام اجتماع کے مواقع پر نظم و ضبط اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ نبی اکرمؐ خود ایسے مواقع پر صحابہ کرام کو نظم و ضبط اور سکون کی تلقین فرماتے تھے۔
بہت سے اسلامی ممالک پر ایسا طبقہ برسر اقتدار ہے جو ایک طرف اسلامی طریقوں سے نا آشنا ہے اور دوسری طرف مغربی تہذیب سے متاثر ہے۔ حالانکہ امت مسلمہ کے حکمرانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی خودداری، حیثیت، اور غیرت کو پیش نظر رکھ کر مغرب کو نمونہ تقلید بنانے کی بجائے اس اسوہ حسنہ کی طرف لوٹے، جس کی پیروی میں ان کی اخروی اور دنیاوی فوز و فلاح مضمر ہے۔ اسلامی تہذیبی اقدار کی ترویج و اشاعت کے لیے حکمرانوں کو دو اہم موضوع پر توجہ دینی ہوگی۔ پہلا محاذ نظام تعلیم ہے۔ قرآن و سنت کی روح کے مطابق ایسا نظام تعلیم قائم کیا جائے جس میں مقاصد تعلیم، نصاب تعلیم، اور طریق تعلیم تینوں اسلامی اقدار و روایات کی عکاسی کرتی ہوں۔ دوسرا اہم معاملہ ذرائع ابلاغ کی تطہیر و اصلاح ہے۔ اسلامی ممالک کے ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی فلمیں، ڈرامے، اور اشتہارات مغربی ثقافت کو ترویج دے رہے ہوتے ہیں۔ حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ ٹی وی اور کیبل پر ان بےہودہ اور بے حیائی کی طرف مائل کرنے والے پروگراموں کی بجائے مثبت اور مقصد سے بھرپور مہذب پروگراموں کے ذریعے افراد معاشرہ کو عملی زندگی میں تہذیب و شائستگی اور نظم و ضبط کی پابندی قائم رکھنے کی تربیت کریں۔