سبزار احمد بٹ
عصرِ حاضر کے شعرا میں ڈاکٹر بشیر بدر اپنی ایک منفردپہچان رکھتے ہیں ۔شعروادب سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی انسان ہوگا جو بشیر بدر کے نام سے واقف نہ ہوبلکہ کہا جاتا ہے کہ غالب کے بعد بشیر بدر ایسے واحد شاعر ہیں جو اردو دان طبقے کے ساتھ ساتھ غیر اردو دان طبقے میں بھی اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ان کے بہت سارے اشعار زبان زد عام ہو چکے ہیں ۔ بشیر بدر ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منفرد نقاد بھی ہیں۔اُن کا اصل نام سید محمد بشیر ہے لیکن شعرو ادب کی دنیا میں بشیر بدر کے نام سے مشہور ہیں۔اردو کا یہ درخشندہ ستارہ 15 فروری 1935 کو کانپور (اترپردیش )میں طلوع ہوا اور تا ایں دم اردو شاعری کی خدمت کر رہا ہے۔ کم عمری میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ،والدہ محترمہ نے بہترین تربیت کی ۔ سات یا آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔ حافظ صدیقی انٹر کالج کے طالب علم ہونے کے دوران ہی شاعری کا آغاز کیا ۔والد صاحب کی وفات کے بعد اگر چہ پولیس میں ملازمت کرنے لگے تاہم گھریلو اور ملازمتی مصروفیات کے باوجود پرائیوٹ طور پر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔ ایم اے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے کیا ۔پی ایچ ڈی کی ڈگری “آزادی کے بعد اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ ” کے موضوع پر پروفیسر آل احمد سرور کی سرپرستی میں کیا ۔ کچھ دیر علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں بطور لیکچرر تعینات رہنے کے بعد میرٹھ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر مقرر ہوئے ۔بشیر بدر کو نئی غزل کا ایک منفرد شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ناصر کاظمی کے بعد بشیر بدر جدید اردو غزل گوئی کے سب سے معتبر شاعر مانے ہیں۔ مشہور شاعر ڈاکٹر ملک زادہ منظور اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ” جدید اردو غزل گوئی کا کوئی بھی منظر نامہ بشیر بدر کے نام کے بغیر نامکمل ہے۔اس حوالے سے بشیر بدر خود لکھتےہیں کہ” غزل کا عالمی اور جدید منظر نامہ فارسی زدہ غزل کے طریقۂ کار سے مختلف ہو چلا ہے، یہ کارنامہ میرا ہے ۔میری غزل اس سفر کا آغاز تھی” اگر چہ چند ناقدین نے اس دعویٰ کو نکارا بھی ہے لیکن اکثر شعرا بشیر بدر کے رنگ و آہنگ کی تقلید کرتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ بشیر بدر کا یہ دعویٰ کتنا سچا ہے۔بشیر بدر کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی رقمطراز ہیں کہ ’’بشیر بدر کی آواز میں ایک نیا پن ہے، ان کے یہاں نغمگی میں ہے اور عہد حاضر کی آواز بھی۔ ‘‘رضیہ حامد بشیر بدر کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ” ایک محتاط اور ذمہ دار سروے کے مطابق بشیر بدر کی صرف ایک غزل جس کی ردیف بابا ہے، اس سے متاثر ہو کر رسالے اور مشاعرے کے اہم شعرا نے ڈھائی ہزار غزلیں کہیں۔71 شاعروں نے اپنی غزلیں شائع کرتے وقت ایسی غزلوں کو بشیر بدر کے نام معنون و منسوب کیا۔
ان کے مختلف شعری مجموعے جیسے “اکاہی”(1969) ،امیج(1973) ،آسمان (1993)،آہٹ، آس ، اللہ حافظ، اور آمد ( 1994)شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بیسویں صدی میں اردو غزل، امتیاز میر اور تمہارے لیے ان کی اہم تصانیف ہیں ۔ان کی شاعری کو مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔جس کی وجہ دنیا کے مختلف لوگ ان کی شاعری سے متعارف ہوئے ہیں۔1999 میں انہیں ملک کے سب سے بڑے ادبی اعزاز” پدم شری ” بھی نوازا جاچکا ہے جبکہ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کے ساتھ ساتھ ادبی خدمات کے سلسلے میں متعدد اعزازات اور انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کے شاعرانہ قد کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ابھی بہت سارے انعامات اور اعزازات بشیر بدر تک پہنچنے کے لیے تڑپ رہے ہیں یا انہیں ابھی بشیربدر تک پہنچنا نصیب نہیں ہوا ہے ۔
شعرو شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ بشیر بدر کو یہ شہرت اور یہ مقام یوں ہی نہیں ملا ہے بلکہ انہیں اللہ نے وسعت تخلیق، ذہانت اور فکری ریاضت عطا فرمائی ہے اور بشیر بدر نے اللہ کی دی ہوئی اس صلاحیت کو اپنے خون جگر سے آبیاری کی ہے لکھتے ہیں کہ
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
اللہ نے نواز دیا ہے تو خوش رہو
تم کیا سمجھ رہے ہو یہ شہرت غزل سے ہے
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
اس آخری شعر کو اگر بشیر بدر کی پیچان سے تعبیر کروں تو بے جا نہ ہوگا۔ اپنے شعری سفر کے آغا میں اس طرح کا لافانی شعر کہنے والے اس عظیم شاعر کے قد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے قدیم اور فرسودہ موضوعات کے بجائے روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے اور محسوس کئے جانے والے حالات و واقعات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ بشیر بدر کی شاعری میں سادگی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کشش ہے جو سامعین کو کھینچ کر لاتی ہے، یہی وجہ ہے کی بشیر بدر مشاعروں کی زینت بنے ہوئے ہیں بلکہ بشیر بدر کو اگر مشاعروں کی کامیابی کا راز کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔بشیر بدر نے اپنی شاعری میں مختلف موضوع پیش کئے ہیں ،جن میں ایک طرح کا اخلاقی درس بھی موجود ہے ۔لکھتے ہیں :
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہوجائیں تو شرمندہ نہ ہوں
دشمنی کا سفر ایک قدم، دو قدم
تم بھی تھک جاؤ گے، ہم بھی تھک جائیں گے
بشیر بدر نے دنیا کی بے ثبانی جیسے اہم اور حساس موضوع کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے :
شہرت کی بلندی بھی دو پل کا تماشہ ہے
جس شاخ پر بیٹھے ہو ٹوٹ بھی سکتی ہے
بشیر بدر اپنی شاعری میں محبت کا پیغام سنایا ہے یہی وجہ ہے کہ بشیر بدر کو ” محبت کا شاعر ” بھی کہا جاتا ہے لکھتے ہیں کہ
انہیں راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مجھے روک روک پوچھا تیرا ہم سفر کہاں ہے
چاند سا مصرعہ اکیلا ہے میرے کاغذ پر
چھت پہ آجاؤ میرا شعر مکمل کر دو
1987 میں جب میرٹھ فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آیا۔تو متعدد آشیانےخاکستر ہو گئے ،جس میں بشیر بدر کا گھر بھی شامل تھا ۔اس حادثے میں بشیر بدر کا شعری اثاثہ بھی جل کر راکھ ہوگیا۔ اس حادثے سے بشیر بدر کو بہت زیادہ تکلیف ہوئی اور وہ میرٹھ چھوڑ کر بھوہال چلے گئے اور گھر جلنے کا دکھ کچھ اس طرح سے ظاہر کیا ؎
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس کیوں نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ بشیر بدر محبت کے شاعر ہیں اور انہیں نفرت سے سخت نفرت ہے۔ملک میں نفرت انگیز سیاست اور مذہبی تعصب کو وہ کچھ اس طرح سے ہدف تنقید بناتے ہیں کہ
بڑے شوق سے میرا گھر جلا کوئی آنچ تجھ پر نہ آئے گی
یہ زبان کسی نے خرید لی، یہ قلم کسی کا غلام ہے
جو لوگ اپنے حقیر مقاصد کے لیے مذہبی سیاست کرتے ہیں اور تعصب کی فضا قائم کرنے کی کوشش کر کے امن و امان بگاڑنے میں ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے ہیں، ان کے لیے بشیر بدر اس طرح سے مخاطب ہیں کہ ؎
کسی کو گرا رہے ہو کسی کو جلا رہے ہو
اے مذہبی درندو ! ہر گھر خدا کا گھر ہے
ہندوستان کا سچا وفادار میں ہی ہوں قبروں سے پوچھ اصلی زمیندار میں ہی ہوں
دریا کے ساتھ وہ تو سمندر میں مل گیا
مٹی میں مل کے مٹی کا حق دار میں ہی ہوں
بشیر بدر نے اپنی شاعری میں ایسی تشبیہات اور استعارے استعمال کئے ہیں جو ان کی اپنی تخلیق ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں غزلوں کی فضا عام غزلوں سے مختلف ہے ،جیسے؎
وہی شہر وہی راستے وہی گھر ہے وہی لان بھی
مگر اس دریچے سے پوچھنا وہ درخت انار کا کیا ہوا
بھٹک رہی ہے پرانی دلائیاں اوڑھے
حویلوں میں مرے خاندان کی خوشبو
ان اشعار میں لان، دریچے، پرانی دلائیاں، بچوں کی کاپی، ہرن کی پیٹھ جیسی تشبیہات اور استعارے استعمال کر کے غزل کو ایک نیا ڈکشن دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔اتنا ہی نہیں بشیر بدر نے شاعری میں فلسفہ پیش کرنے کے بجائے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور محرومیوں کو بڑی سادگی کے ساتھ پیش کیا ۔ اس حوالے سے وہ خود لکھتے ہیں کہ
سنوار نوک پلک ابروؤں کو خم کر دے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کردے
غرور اس پہ بہت سجتا ہے مگر کہہ دو
اسی میں اس کا بھلا ہے غرور کم کردے
ڈاکٹر بشیر بدر ایک جرأت مند اور بے باک شاعر ہیں لکھتے ہیں: ؎
مجھ سے کیا بات لکھانی ہے کہ میرے لیے
کبھی چاندی کبھی سونے کے قلم آتے ہیں
کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئی موج پھول کھلا گئی
کوئی پیڑ پیاس سے مر رہا ہے ندی کے پاس کھڑا ہوا
بشیر بدر کی ذات اور ان کی شاعری کے بارے میں بات کرتے ہوئے پروفیسر خلیق انجم نے کہا ‘ تھا کہ ’’ہندوستان کی دوسری زبانوں میں غزل کے لئے جو محبت اور عزت پیدا ہوئی ہے، اس میں بشیر بدر کا نمایاں حصہ ہے۔ بشیر بدر کی شاعری معمولی شاعری نہیں ہے وہ زندگی کے تفکر کو غزل بناتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ اچھی شاعری کر کے مقبول ہیں ،میرے نزدیک اس وقت ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر اردو غزل کی آبرو بشیر بدر ہیں۔‘‘
ڈاکٹر بشیر بدر نے ظلم کرنے والوں اور ظالموں کی حمایت کرنے والوں کے لیے بھی اپنی شاعری میں پیغام رکھا ہے لکھتے ہیں کہ ؎
ہماری بے بسی کی انتہا ہے
کہ ظالم کی حمایت کر رہے ہیں
بشیر بدر کے بارے میں مختلف شعرا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کا خیال ہے کہ ’’ ڈاکٹر بشیر بدر پیارے شاعر ہیں اور اتنے ہی پیارے انسان بھی ہیں ۔‘‘ندا فاضلی کا خیال ہے کہ ’’بشیر بدر کی آواز زور سے پہچانی جاتی ہے۔ یہی بہت ہے۔ ‘‘اس کے علاوہ ڈاکٹر زماں فتح پوری، ڈاکٹر جمیل جالبی، پروفیسر خلیل انجم اور حیات اللہ انصاری نے بھی بشیر بدر کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے۔بشیر بدر کے متعدد اشعار محفلوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اشعار کئی بار پارلمنٹ میں بھی پڑھے جاچکے ہیں ،یہاں تک میں ملک اور ملک سے باہر بھی بشیر بدر کے اشعار کا چرچہ ہے۔ اگر چہ ان سبھی اشعار کا حوالہ دینا ممکن نہیں ہے تاہم بشیر بدر کے چند مشہور اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔
نفرت کو محبت کا شعر سناتا ہوں
میں لال پسی مرچیں پلکوں سے اٹھاتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارادے، کچھ خواب، کچھ بھولی ہوئی یادیں
غزل کے ایک دھاگے میں کئی موتی پروتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان پرندوں پر بھروسہ کیجئے
آسماں چھونے کی ہمت دیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار سے سر لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرکھنا مت پرکھنے سے کوئی اپنا نہیں رہتا
کسی بھی آئینے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اویل نورآباد، کولگام
7006738436