انجم قدوائی
ذات کا کرب جب سماجی خارزاروں کے درمیان لہو لہان ہوتا ہے تو وہیں کسی درد کی لہر سے ایک روشنی کی کرن بھی پھوٹتی ہے اور اس کی روشنی سے ہر جانب اجالا پھیلانے کی کو شش میں اپنا وجود فراموش کر دینا،یہ ہے ’’نوحہ گر ‘‘ ۔
آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ ذوق سخن اور ذوق قلم دونوں کا معیار کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اور خاص کر اردو زبان کے شیدائی ناپید ہوتے جا رہے ہیں، ایسے پر آشوب دور میں یہ عظیم و ضخیم ناول منظر عام پر آیا ہے جس وقت کسی پختہ اورحقیقی تحریرکی اشد ضرورت ہے ۔یہ ناول علم و ادب کے پیاسوں کے لئے ایک میٹھی ندی کے مانند اپنے جملوں اور منظر نگاری سے سیراب کرتا چلا جاتا ہے ۔میں نسترن فتیحی صاحبہ کے نئے ناول ’’نوحہ گر ‘‘ کا ذکرکررہی ہوں ۔ جسے ایجویشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی نے نومبر 2021 میں شائع کیا ہے۔504 صفحات پر مشتمل یہ ناول جب ایک بار آپ پڑھنا شروع کر دیں تو اس طرح اس ناول کی دنیا کا حصہ بن جائیں گے جیسے آپ وہیں کہیں موجود ہیں۔
برجستہ وبرمحل تخلیقی جملوں سے مزین ناول ” نوحہ گر” کے الفاظ کا چناؤ ،جملوں کی چاشنی اوران کی بنت اور جزیات نگاری ناول کے طویل ہونے کے باوجود ایسی دلچسپی قائم کردیتا ہے کہ اس طوالت سے اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا ۔ دریا کی روانی کی طرح الفاظ کا بہاؤ اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے ۔
سنہری روایتوں،ادبی ثقافت، مذہبی سماجی ماحول،انسانی نفسیات،غربت اور کسمپرسی اور’’راحت‘‘۔۔۔۔اس کا کردار ،ایک عام کردار نہیں بلکہ وہ اپنی ماں کا صبر ضبط دیکھ کر شعور کی اس منزل پر پہنچ گئی ہے جہاں اسے ساری دنیا دو دائروں میں قید نظر آتی ہے ۔ایک طرف ہنسی کے آبشار ہیں بے فکری ہے عیش کوشی ہے اور دوسری طرف صبر و ضبط کی منزل ہے اور ایک سرمئی سی اداسی ہے ۔ یہ اداسی پورے ناول پرمحیط ہے۔
’’بہت شروع سے شاید شعور کی سرحد کے کہب بہت پہلے سے اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کے اندر بھی ایک دنیا تھی،جو باہر کی دنیا سے بالکل الگ تھی اور ہر وقت بڑی خاموشی سے اس کے ساتھ شب و روز کا سفر طے کرتی ۔اس دنیا میں کوئی شور نہ تھا کوئی مصروفیت نہ تھی مگر ایک سرگوشی تھی جوہر وقت اس کی توجہ باہر سے اندر کھینچنے کی کوشش کرتی رہتی۔۔۔اندر کی دنیا میں بے پناہ اداسی بھری رہتی۔شاید باہر کی دنیا میں اس کی شمولیت اندر کی دنیا کو پسند نہ تھی۔۔۔۔اندر کی دنیا۔۔۔۔۔ جہاں کے رشتے نرم و نازک جھاڑیوں کی طرح محبت کی ہوا کی خنکی سےہلکے ہلکے کانپتے،ہلکورے لیتے ہوئے سانس لیتےاور جن میں معصوم خرگوش جیسے جذبے اپنی چمکتی سرخ آنکھوں کو مچمچاتے ہوئے یہاں وہاں پناہ لیتے۔پھدک کرنکلتے اور پھر ان میں ہی جاکر چھپ جاتے ۔ان معصوم جذبوں کو وہ جب چاہے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیتی۔انہیں سہلاتی، پچکارتی اور پھر ان ہی جھاڑیوںمیں چھوڑ دیتی۔ تب اسے معلوم نہ تھا کہ آنے والا وقت اس کے سامنے دونوںدنیاؤں میں تال میل بثھانے کی اجازت کبھی نہ دیگا ۔ باہر کی دنیا کے اپنےاصول تھے ۔۔۔اس کا اپنا قانون تھا۔۔” (نوحہ گر: صفحہ۔15)
ماحولیات سے محبت اس ناول کی ایک اور خاصیت ہے ’’اس کی آنکھ کھلی تو کمرے کی مشرقی کھڑکی کے سامنے سورج کا گولا بالکل پورے چاند کی طرح ٹھنڈا سیاہی مائل آسمان کی پیشانی پر سہاگن کی بندی کی طرح چمک رہا تھا۔ماں نماز سے فارغ ہو کر اپنے بستر کو درست کر رہی تھیں ۔اس نے حیران ہو کر سورج کی طرف دیکھا۔ راحت کی آنکھ کھلتی دیکھ کر وہ مسکرائیں ،نماز نہیں پڑھی، دیکھو طلوع آفتاب کا وقت ہو گیا۔اُٹھ جائو میں چائے بنانے جا رہی ہوں۔
آج اتنے د نو ں بعد ایسی فر صت سے امّی کے کمر ے میں سو نا اور جا گنا اُسے کتنا اچھا لگ ر ہا ہے۔ جسم کے پورپور سے جیسے تھکن بو ند بو ند ٹپک کر با ہر نکل گئی ہو اور جسم با لکل ہلکاپھلکا اور د ما غ با لکل پر سکو ن ہے اس و قت جی چا ہ ر ہا ہے کہ صبح صا د ق کا و قت یو ں ہی تھم جا ئےاور کھڑ کی کے چہر ے پر طلو ع آفتا ب کی بند ی یوں ہی ٹنکی ر ہے۔ مگر یہ کیا۔۔ ان چند لمحو ں میں سو رج کی بند ی کھسک کر او پر چلی گئی تھی اور اب کھڑ کی سے آد ھی نظر آر ہی تھی۔ اُس کی سرخی کے سا تھ اب اُس کے چہا ر طرف روشنی کی سپید ی کا ایک ہا لہ سا بھی بن گیا تھا۔ را حت غور سے اُدھر د یکھتی ر ہی اور اُسے احسا س ہوا کہ وہ بہت تیزی سے کھسکتا جا ر ہا تھا۔ شا ید اُسے د نیا کو جگا نے کی بہت جلد ی تھی اور ایک پل گنوائے بغیر وہ اپنے سفر پر گا مز ن تھا۔ لو گو ں کی سُستی د یکھ کر اُس کا جلا ل اوربھی فزو ں ہو ر ہا تھا۔ را حت کو یقین تھا جب وہ کمر ے سے با ہر جا کر اُس کی طرف د یکھے گی تو اُس سے نظر یں نہ ملا پا ئیگی۔ اب وہ نظروں سے او جھل ہو چکا تھا مگر کھڑکی کے با ہر اُس نے اپنے و جو د کی روشنی کے پہرے بٹھا دئے تھے۔ را حت نے کسلمند ی سے انگڑا ئی لی اور کر و ٹ بد ل کر د یوا ر کی طر ف ر خ کر کے آنکھیں بند کر لیں۔ابھی وہ اس آلسی صبح کو پکڑ ے ر ہنا چا ہتی تھی۔‘‘(نوحہ گر: صفحہ۔14۔13 )
’’راحت نے دور ندی میں دن کے آخری مدھم اجالے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا۔پانی پر شام کے سلیٹی رنگ کے سائے پگھل کر پوری ندی پر پھیلتے جا رہے تھے۔جنگل کی طرف سے ایک دہشت بھری سرسراہٹ،ایک بہکی ہوئی جنگلی خوشبو کے ساتھ، ہوک بن کر اس کے دل میں اتر گئ۔‘‘ (نوحہ گر: صفحہ۔295)
’’جیپ پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی اور راحت گم تھی اپنے ہی خیالوں میں،ہوا راحت کے سائے کو اڑائے لئے جا رہی تھی۔راحت نے جانے پہچانے اس مانوس ماحول میں اپنی روح کو سرشار ہوتے ہوئے پایا ۔سورج تمام دنیا کواپنی ضوفشانی کے دائرے میں لئے ہوئے تھا۔ ا س نے تیز ہوا میں اپنا سر اوپر اٹھایا اوراسے محسوس ہوا کہ زمین کا یہ لا متنا ہی سلسلہ ، یہ عظیم الشان آسمان اور آزادی اور مسرّتوں سے مالامال وطن کا یہ تمام علاقہ اس کے دل کی وسعتوں میں گم ہوتا جا رہا ہے۔ اسے لگا زمین کا یہ ٹکڑا۔۔۔۔ دنیا کا سب سے خوبصورت حصّہ ہے، بلکہ بہشت سے مشابہ ہے۔‘‘ (نوحہ گر: صفحہ۔180 )
وہیں آدی واسیوں کے درد نے کو اس ناول میں اس طرح پیش کا ہے کہ جھکجھورکررکھ دیا ہے ۔صاف ہوا پانی بھی میسّر نہ ہو تو زندگی کی نمو کہاں ممکن ہے ۔آدی واسیوں کی پسماندگی راحت کی حساس طبیعت کو نشتر چبھو تی ہے ۔یہ سارا ماحول کچھ اس قدر فطری انداز میں پیش کیا ہے کہ اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ۔ وہ جنگل کا ذکر ہو یا شہر کا ،گاؤں ہو یا گھر آپکی یادداشت میں بس جائیگا۔کوئی اس بات کو محسوس نہیں کرتا کہ راحت کا باغیانہ اند ز اس کی محرومیوں کا بدلا ہے ۔اس نے محسوسات اور تخیل کو ایک نئی مضبوط دنیا سے متعارف کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔مظلوم کے لئے طاقت بن کر وہ اس دنیا کو جینے کے قابل بنانا چاہتی ہے۔
اس ناول میں رشتوں کی پائیداری بھی ہے، محبت کی میٹھی میٹھی کسک بھی۔ اس ناول میں سارے وہ مشاہدات اور تجربات ہیں جو وقتاً فوقتاً سامنے آکر حیران کرتے ہیں ۔ اور ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں۔ نوحہ گر وقت کے صفحات پرلکھا گیا ایک ایسا نوحہ ہے جسے ہر حساس انسان اپنی روح سے محسوس کرسکتا ہے۔
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے)