معراج الدین مسکینؔ
بلا شبہ عقل کی حد ہوسکتی ہے لیکن نقل کی کوئی حد نہیں۔عقل اور نقل میں کچھ نہ کچھ عیب ہوتا ہے ،فرق صرف اتنا ہے کہ عقل مند اپنے عیوب کو دیکھتا ہے اور دنیا نہیں دیکھتی جبکہ نقل کرنے والا اپنے عیوب کو خود نہیں دیکھتا بلکہ دنیا دیکھتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل مند اپنے آپ کو پست کرکے بلندی حاصل کرتا ہے اور نقال اپنے آپ کو بڑھاکر ذلت اُٹھاتا ہے۔انسان کا اپنی خصوصیات سے نکلنا اور ایسے ذہنی و نفسیاتی مزاج سے علاحیدہ ہونا جس میں کو ئی کجی نہ ہو ،انسان کی زندگی خراب کردیتا ہے ،اُسے وسوسوں اور مخمصے میں ڈالتا ہےاور اس کے طرزِ عمل میں انتشار پیدا کردیتا ہے۔کواجب ہنس کی چال چلنے لگتا ہے تو وہ نہ تو زمین پر ہی چل پاتا ہے اور نہ ہی آسمان میں اُڑپاتا ہے۔انسان کچھ اور بن جائے یہ تو بہت دشوار چیز ہے ،خواہ وہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلے۔ماہرین نفسیات کے حساب سے جو کچھ ہمیں ہونا چاہئے تھا ،اگر ہم اپنے آپ کو اس معیار پر جانچیں تو صاف نظر آئے گا کہ ہم نصف زندہ ہیں کیونکہ ہم اپنے جسمانی و ذہنی وسایل کا بہت کم حصہ استعمال کرتے ہیں یعنی ہم میں سے ہر شخص اُن تنگ حدوں میں زندگی گذارتا ہے جو اُس نے اپنی حقیقی حدوں کے اندر بنا رکھی ہیں۔وہ مختلف طرح کی بہت سی صلاحیتیں رکھتا ہے لیکن عام طور پر اُن کا احساس نہیں کرتا یا اُن کا بھرپور استعمال نہیں کرتاہے ۔ہماری تخلیق اتنی باریکی سے کی گئی ہے کہ ہم دہشت زدہ اور ششدرہ جائیں،اپنے اجسام اور طبعی خصوصیات کی لحاظ سے تمام انسان ایک جیسے نہیں ہوتے،چھوٹے بڑے قد،موٹا اور دُبلا پَن ،طاقتور و کمزور اور صحت و مرض کے لحاظ سے ،آنکھ ،کان ،ناک ،پیشانی اور چہرے کے لحاظ سے سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ایک ہی سانچے میں ڈھالے ہوئے نہیں لگتے ،چھوٹی چھوٹی چیزیں تک مختلف ہوتی ہیں جیسے کروڑوں انسانوں کے انگوٹھوں کے نشانات تک الگ الگ ہوتے ہیں ،جن کی بِنا ء پر مجرموں کی پہچان کرنے میں قانون کے رکھوالوں کو مدد ملتی ہے۔اسی طرح مزاجی کیفیات ،جذبات و افکار اور اعلیٰ نفسیاتی حالات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور یہ سب عجیب و غریب اور حیرت انگیز خالق کی قدرت ِ بے پایاں پر دلالت کرتا ہے۔
جس طرح جہالت اور حسد کی آگ میں جل کر انسان اپنا وجود ہی مِٹا دیتا ہے، اُسی طرح نقل اور کسی کی مشابہت اختیار کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی خامیوں کو تسلیم کرے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اُس کے لئے مقرر کردیا ہے اُس پر خوش رہے۔بے کار نقل کی فضا میں ہمارے معاشرے کا صدق و اخلاص ،پیداواری صلاحیت ،خیر خواہی اور حقیقت سب کچھ برباد ہوچکا ہے ۔نقل کی بیماری نے وبائی صورت اختیار کرکے زندگی کے ہر شعبے کو اپنے شکنجے میں کچھ اس طرح کَس لیا ہے کہ اس سے آزادی اب محال لگتی ہے۔بے جا نقل کی اس وباء کے کارن ہی ہمارے یہاں کی دنیا بھر میں مشہور کتنی صنعتیں اور دستکاریاں دَم توڑ چکی ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ نقل اور ایک دوسرے کا پیچھا کرتے ہوئے اب یہاں نیک کام بھی حقیر دنیاوی مقاصد کے لئے کئے جاتے ہیں ،یہی یہاں کے اکثر لوگوں کا مزاج ہے اور پھر جب حقیر مقاصد کارفرمان نہیں ہوتے تو ایسے لوگ کوئی نیک کام نہیں کرسکتے بلکہ بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں۔فیشن کے پس ِ پردہ اور مغرب کی اندھی تقلید میں یہاں کے آدم و حوا نے جیسے کسی بند کمرے میں ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے کا کوئی خفیہ معاہدہ کررکھا ہے ۔آج کی نوجوان نسل پر ایک بھرپور نگاہ ڈالتے ہیں تو اُن کی ایک خاصی تعداد مرد کم اور ہیچڑہ زیادہ لگتی ہے۔بالوں کا عجیب و غریب انداز ،گلے میں سونے کی زنجیر ،ہاتھ میں کنگن ،انگلیوں میں رنگدار انگوٹھیاں ،اُن کے یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ناک چھید کر اور اس میں نَتھ چڑھاکر وہ ایک مکمل عورت کا روپ اختیار کرے گی ۔نقل کے اس موذی مرض میں مبتلا ہمیں یہاں کے باغوں اور پارکوں میں بے سُدھ پڑے ایسے نوجوان بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو مغرب کے مفلوک الحال نوجوانوں کی تقلید کرتے ہوئے بالآخر اپنے آپ کو فنا کے گھاٹ اُتارتے ہیں کہ اُن کے سامنے کوئی نصب العین اور کوئی مقصدِ حیات ہی نہیں ہوتا ہے،یہ جانتے ہوئے بھی کہ چاول پیدا کرنے والی زمین اگرچہ بھلائیوں سے بھری پڑی ہے ،بغیر محنت انہیں چاول کا ایک دانہ بھی نہیں دے گی۔ وہ محنت و مشقت سے جی چرا کر نشیلی اور زہریلی دوائوں کا استعمال کرکے نہ صرف اپنے عزیز و اقارب بلکہ پورے معاشرے کے لئے وبال ِ جان بن جاتے ہیں۔نقالی کے فن اور مشابہت اختیار کرنے کے اس طرز عمل میں ہمارے معاشرے کی عورت ذات یہاں کے مردوں سے کوسوں آگے نکل چکی ہے ۔پردہ کرنا تو خیر دور کی بات ہے ،اُس کا لباس اب اتنا باریک ،چُست اور مختصر ہوکے رہ گیا ہے کہ دیکھ کر شیطان بھی مارے شرم کے پانی پانی ہوجائے اور آج اس مختصر سے لباس سے بھی وہ باہر آنا چاہتی ہے۔مسرت و شادمانی کی محفل ہو یا کوئی تعزیتی مجلس ،ہمارے معاشرے کی عورت ذات نقل کرنے اور ایک دوسرے پر سبقت لینے میں ایک ایسا رُخ اختیار کرچکی ہے جس کی بدولت لاتعداد بُرائیوں نے جنم لے کر معاشرے کی پوری عمارت کو ہِلاکے رکھ دیا ہے۔
معیشت کے میدان میں پلٹ کر دیکھتے ہیں تو وہ پہلے ہی یہاں کے عرصۂ دراز سے چلے آرہےغیر یقینی سیاسی حالات کا شکار ہوچکی تھی اور اُسے زمین برد کرنے کی باقی رہی سہی کسر یہاں کے مال و زَر کے بھوکے پیاسے نقالوں نے پوری کردی ہے۔کتنی ہی صنعتیں اور دستکاریاں جن کی باعث دنیا بھر میں ہمارا ایک خاص مقام تھا، آج ہمارے یہاں سے ناپید ہوچکی ہیں کہ ہم نے اصل کی بجائے اُن کی نقل بناکر خود اپنی روزی روٹی پر لات ماردی۔کسی صنعت کو جب دیکھا کہ اُسے دوام ملنے لگا ہے اور کسی دستکاری کی جب مانگ بڑھنے لگی تو بغیر کوئی مہارت رکھے اور اس میں بے جا مداخلت کرکے جب تک نہ ہم نے اُسے دفن کردیا ،ہم چین سے نہ بیٹھےاور نتیجتاً بے کاری جیسی اذیت ناک آفت ہمارے یہاں آج پوری طرح لنگر انداز ہوچکی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ انسان اپنے دُکھوں سے اتنا پریشان نہیں ہوتا ہے جتنا دوسروں کو سُکھی دیکھ کر اپنے دِل میں تکلیف محسوس کرتا ہے ،یہ انسانی فطرت ہے جو ہمیشہ یوں ہی رہے گی اور شائد کبھی نہ بدلے گی ۔
نقل کرنا اور شخصیت کو مِٹادینے کی بیماریاں جتنی قابل مذمتِ دین کے میدان میں ہیں کسی اور میدان میں نہیں۔ کیونکہ کوئی شخص تقویٰ کے مرتبہ تک پہنچ ہی نہیں سکتا ،جب تک اس کا کردار اور عادتیں دُرست نہ ہوں۔اس بنیاد سے محرومی کے بعد ہر ظاہر داری انسان کو صرف مسخ ہی کرسکتی ہے۔کاش! ہمارے سربراہاں اور لیڈران اس حقیقت کو جانتے اور مانتے کہ پاکیزہ خصلتوں ، خود دارانہ اوصاف اور صاف ستھری عادتوں کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس لوگ جمع ہوتے تھے اور خدا کے رسول ؐ اپنے ساتھیوں سے مشورہ فرماتے تھے اور اُسے مان بھی لیتے تھے،مگرہمارے راہنما اور لیڈر صاحبان ایسے لوگوں کو ترجیح دیتے رہے جو نااہلی کے باوجود اپنے آپ کو اُن کے سامنے مِٹادیں اور آزادانہ ضمیر رکھنے والوں کو پیچھے دھکیل دیتے رہے، چاہے اُن میں کام کو آگے بڑھانے کی کتنی ہی صلاحیت ہو اور یہی ہمارے اس خطہ میں بسنے والی قوم کی بدنصیبی اور سب سے بڑی مصیبت رہی ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ نقل کے لئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے، اور عقل ،استقلال اور تحمل کا نام ہے۔دوسروں کی بد بختی سے عقل مند لوگ یہ سبق لیتے ہیں کہ انہیں کس چیز سے بچنا چاہئے،تدبیر جیسی کوئی عقلمندی نہیں، اس لئے حکمت اور عقل جہاں پائو قبول کرلو،کیونکہ جو عقل سے محروم ہے وہ گویا دین سے بھی محروم ہے۔اور ہاں!وہ ہرگز عقلمند نہیں جو دنیاوی لذّتوں سے خوش اور مصیبتوں سے مضطرب ہو ۔
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)