عابد کبروی
خالقِ کائنات نے وادی کشمیر کو نفیس نعمتوں سے نوازا ہے۔ کائنات کے موجد نے وادی کشمیر کو شہرئہ آفاق نظاروں سےٍ مالا مال کیا ہے۔ اس کے مچلتے ہوئے آبشار اور سرسبز جنگل، وادی کی خوش نمائی میں مزید بڑھاوا دے رہے ہیں۔ وادی کشمیر کو صدسالہ عرسہ سے ریشیوں اور صوفی نفس رکھنے والے درویشوں کی سرزمین کے القابات سے نوازا گیا ہے۔ یہاں کئی عالی مقام اہلِ عقل بزرگانِ دین اور مقدس روحانی اجسام پیدا ہوئے۔ علاوہ ازیں یہاں اعلیٰ اور بلند درجے کے شاعر بھی پیدا ہوئے۔ دنیاکی ہر زبان نے بلاشبہ ایسے شعراء اور قلم کار پیدا کئے ہیں جنہوں نے اپنی گہری سوچ، شعور اور پاکیزہ و قیمتی خیالات کو نظم و نثر کی صورت میں پیش کر کے اس زبان کو ادب کے لئے ایک بیش قیمتی سرمایہ بنا دیا ہے۔ کشمیر میں بھی ایک ایسی ہستی پیدا ہوئی جنہوں نے اپنے کلام کے جوہر سے لوگوں کے دلوں کو چاک کر کے اپنے لئے جگہ بنا لی۔ جی ہاں ! اُن کا اسمِ گرامی رسول میر ؔ شاہ آبادی ہیں،جن کا کلام رہتی دنیاتک ہر دھڑکنے والے دل کو دھڑکاتا رہے گا۔
رُسل چُھے کران گتھ تس شمع رویس پتھ
تی گو عشقُن جوش، پروانہ مسا روش
چُھک سون جِگر گوش، جانانہ مسا روش
کیاہ چُھے ژے حُسنُک بوش، جانانہ مسا روش
رسول میرؔ شاہ آبادی ۱۹ویں صدی کے معروف کشمیری شاعروں میں سے ایک تھے۔ کشمیری شاعری کے یہ آفتاب ڈورو شاہ آباد میں طلوع ہوئے، جو کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا ایک تاریخی قصبہ ہے۔ شہنشاہ اکبر کے نامور درباری ملّا محمد، جنہوں نے کلہانہ کی کتاب ’’راج ترنگنی‘‘کا فارسی میں ترجمہ کیا، اسی جگہ کا رہنے والا تھا اور اسی طرح شاعر محمود گامیؔ بھی۔ میرؔ ایک ل خوبصورت رنگ کا آدمی تھا جس نے اپنے سر کو پگڑی سے ڈھانپ رکھا تھا اور لمبی مونچھیں ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ ہر جمعرات کو اننت ناگ ضلع کے لِسر مقام میں شعراء کی مجلس منعقد کرتے جس میں سینکڑوں لوگ شریک ہوتے۔ میرؔ صاحب کی عمر کے بارے میں لوگوں کی آراء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اِن کا تعلق زمینداروں کے خاندان سے تھا، جو ڈورو شاہ آباد کے محلہ میر میدان میں اپنے گائوں کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ محمد یوسف ٹینگ نے اپنی کتاب ’’کلیاتِ رسول میرؔ ‘‘ میں دستاویز کا ذکر کیا ہے جو اسے اننت ناگ کے محکمہ محصولات سے دستیاب ہوا، جس پر میرؔ کے دستخط نمبردار کے طور پر تھے ۔ اس سے محققین کو یقین ہوتا ہے کہ رسول میر ؔ کی وفات ۱۸۹۰- ۔ ۱۹۰۰ کے درمیان ہوئی۔ وہ ذہانت کی اونچائی کوچھوتا ہوا ایک ایسا شاعر تھا جو جہانِ فانی سے بہت کم عمری میں گزر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ میرؔ صاحب اپنی زندگی کے آخری ایام میں خانقاہ فیض پناہ ڈورو کی پہلی منزل کی کھڑکی کے قریب بیٹھ کر تنہائی میں وقت گزارتے تھے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق اسی کھڑکی کے متصل دفن ہے اور ان کی مرقد انور پر اس کی درج ذیل اشعار کندہ کیے ہوئے ہیں:
رُسل چُھ زانِتھ دین و مذہب ، رخ تہ زُلف چون
کو زانِہ کیا گو کُفر تہ اسلامِ نِگارو
یہ جنت ِ ارضی جو اپنے دلکش مناظر اور بھرپور ثقافتی ورثے کے لئے جانی جاتی ہے، نے میرؔ کی فنی حساسیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ کشمیری شاعری کے اُفق پر یوں تو سینکڑوں روشن ستارے نمودار ہوئے جن کی روشنی اور جگمگاہٹ آج بھی افق ادب پر نمایاں ہے ۔ لیکن ان سب کے بعد میرؔ کا جو ’’نیرتاباں‘‘طلوع ہوا اور اس کی کرنیں جب کشمیری شاعری کے اُفق پر پڑیں تو اس کی جگمگاہٹ سے پوری کشمیری شاعری شفق کا گلزار بن گئی۔ رسول میرؔ ایک ممتاز اور با اثر شخصیت کے طور پر ابھرے ، جس نے کشمیری شاعری کی رفتار پر ناقابلِ تلافی نقوش چھوڑے۔ رسول میرؔ شاہ آبادی عشقیہ شاعری کا امام سمجھا جاتا ہے۔ میرؔ نے اپنے زمانے کے کسی بھی پیش رو شاعر کی تقلید نہیں کی۔ جبکہ اس وقت کشمیری شعر و ادب کے ممتاز اُستاد محمود گامیؔ بھی عام و خاص میں مقبول تھے۔ اگر بنظر عمیق کلامِ میرؔ کا مطالعہ کیا جائے تو ادبی نقادوں کا ماننا ہے کہ رسول میرؔ نے ہی کشمیری شاعری کو تصوّف کے روایتی اظہار سے فارغ کر کے رومانوی رنگ کے لطیف مقامات سے آشناکرایا۔ کہتے ہیں :
رُسلہ عشقُن عذاب زون کمی بُلبُل تہ پونپری
اون کیاہ زانہِ مہتاب بے تاب کورتھس سوندری
جہاں رسول میرؔ کے کلام میں مجازی عنصر کثرت سے پایا جاتا ہے وہاں کہیں کہیں عارفانہ اور عشق حقیقی کا تذکرہ بھی ان کے کلام میں جھلکتا ہے کیونکہ اس زمانے میں کشمیری شاعری میں تصوف کا زیادہ تسلط تھا۔ رسول میرؔ نے کشمیری غزل گوئی کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا ہے۔ اس وقت عموماً صوفیانہ شاعری میں عارفانہ کلام کو ہی ترجیح دیتے تھے کیونکہ لوگوں کا مزاج ویسا بن گیا تھا ۔ رسول میرؔ اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :
رسولؔ اَز حُسنِ تو اے ماہِ سَپُن دیوانہ کیا
وُچھے تمی مظہرِ اللہ ، یہِ ونِنے کَم صلاح جانو
رسول میرؔکی منفرد شاعرانہ آواز، جو روایتی شکلوں اور جدید موضوعات کے امتزاج سے نشان زد ہے ، کشمیر کی قدرتی خوبصورتی ، ثقافتی گہرائی اور سماجی پیچیدگیوں کے جوہر پر قبضہ کرتی ہے۔ میرؔ کی ابتدائی زندگی اپنے ارد گرد کے قدرتی حسن کی گہرائی سے لبریز تھی۔ کشمیر کے سر سبز مناظر ، یہاں کے دریا اور شاندار پہاڑ ان کے شاعرانہ تاثرات کے لئے تحریک کا سر چشمہ بن گئے۔ ان کی شاعری اکثر اس خطے کی خوبصورتی اور دلکشی کو جنم دیتی ہیں جو فطرت کے غیر معمولی حسن اور انسانی دل کے گہرے جذبات کے درمیان نازک توازن کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ اپنے تخیل اور استعارہ کے تعامل کے ذریعے میرؔ کشمیر کے شاندار مناظر اور انسانی جذبات کے پیکر تراشتے ہیں۔ رسول میرؔ نے اپنے خوبصورت کلام کے ذریعے کشمیر کی خوبصورتی کو نہ صرف چار چاند لگا دیا بلکہ اُسے پوری دنیا میں متعارف کرایا۔ ان کا ادبی کام اگرچہ محدود ہے لیکن یہ کشمیری ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ کشمیر کے مشہور و معروف شاعر غلام احمد مہجور ؔکے شاعرانہ مزاج کو میرؔ صاحب کے کارناموں کی عظمت نے کافی متاثر کیا ہے۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ :
اتھ درد سوزس پرد تُلِتھ گو سُہ رُسول میرؔ
مہجورؔ لاگِتھ آو بییہ ِ دوبار اتی روز
میر ؔ صاحب کو اپنی طاقتور رومانوی شاعری کے لئے ’’کیٹس آف کشمیر‘‘کا خطاب دیا گیا ہے۔ رسول میرؔ دراصل سیدھے سادے، نرم دل شاعر تھے۔ انہیں کشمیری غزلوں کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں زیادہ فارسیت ہے۔ چنانچہ ان کی بعض ریختہ غزلیں عوام الناس کی سمجھ سے بالا تر ہیں۔ جس کا لطف فقط خواندہ لوگ اُٹھا سکتے ہیں۔ میرؔ صاحب کی غزل جذبات نگاری، واردات عشق و محبت اور سراپا نگاری تک محدود ہے۔ اُلفت و جذبات اور واردات کی ترجمانی کرتے ہوئے میر ؔ صاحب قیس و فرہاد کی طرح ننگ و ناموس کے پردے چاک کرتے ہیں۔ اُ ن کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عشق میں ثابت قدم نہیں، کیونکہ وہ عشق بازی اور حسن پرستی کو اپنی بدنامی کی وجہ قرار دیتا ہے اور لوگوں کی ملامت سے متاثر ہو کر اپنے دل کو تسلی دیتا ہے ۔ گویا اس کو عشق بازی میں اپنے ننگ و ناموس کا بھی خیال آتا ہے۔ فرماتے ہیں:
رسولہؔ یدوے غنچہ لبن پت ژ چُکھ بدنام
خوش روز عاشق کر ثے نافرمان دپان چھے
میرؔ صاحب اپنی تحریروں میں استعارے اور تشبیہات کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کی رومانوی جستجو نے کشمیری رومانویت کی تاریخ میں ایک پہچان چھوڑی ہے۔ وہ رومانوی ادب میں انقلاب کے لئے بھی لائق تحسین ہیں۔ ان کی شاعری قاری کو ایک ہموار راستہ فراہم کرتی ہے۔ اگر ہم میرؔ اور انگریزی ادب کے ایک عظیم شاعر و رومانوی تحریک کی ایک اہم شخصیت جان کیڑسؔ (John Keats) کے اشعار پر بات کریں گے تو ان دونوں شخصیات کے شعروں میں محبت اور خوبصورتی کا جذبہ بار بار ملتا ہے۔ دونوں نے فطرت اور انسانیت سے محبت کا اظہار کیا۔ وہ اپنے افکار اور ساری زندگی محبت پر قربان کردیتے ہیں۔
میرؔ کی شاعری جو صوفیانہ لہجے اور روحانیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے ، قارئین کو اندرونی تبدیلی کے سفر پر رہنمائی کرتی ہے ۔ ان کی میراث ان کی شاعری سے آگے پھیلی ہوئی ہے،جو بعد میں آنے والے شاعروں کو متاثر کرتی ہے۔ میرؔجیسی ممتاز شخصیت کی تخلیقات محبت، فطرت اور روحانیت کا احاطہ کرتے ہوئے کشمیری شاعری میں گہرائی سے گونجتی ہیں۔ میرؔ صاحب کی بے شمار غزلیں اور اشعار پورے کشمیر میں عید اور شادی جیسے تہوار کے موقع پر کشمیر کے مشہور و معروف گلوکاروں کےذریعہ گائے جانے والے گھریلو گیت بن چکے ہیں۔’’رِند پوش مال گِندنے درائے لو لو‘‘ مشہور ہندی فلم’’ مشن کشمیر‘‘کے اس گانے کی بدولت رسول میرؔ کو برصغیر میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی ۔
رسول میرؔ کا کلام انتھر (۷۹) نظموں پر مشتمل ہیںجن میں ایک فارسی میں ہے۔ انہوں نے کشمیری غزلوں کے علاوہ عشقیہ داستانوں کو بھی منظوم کیا جن میںہیمال نگری اور یوسفِ زلیخا بھی شامل ہیں۔ غزل گوئی میںان کی خدمات کو سرہاتے ہوئے محکمہ آرٹ اینڈ کلچر ہر سال رسول میرؔ کی یاد میں ایک محفل کا انعقاد کرتے ہیں جس میں مقررین نہ صرف غزل کے تعین میرؔ کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہیں بلکہ میرؔ صاحب کی یاد میں اُن کے کلام کو بھی آج کے گلوکار اپنی آواز سے یہاں موجود لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔الغرض رسول میرؔ شاہ آبادی کے بارے میں جتنا کہا جائے یا لکھا جائے کم ہے کیونکہ رسول میرؔ صاحب ویسی ہی شخصیت رہے ہیں۔ رسول میرؔ صاحب کی شاعری وراثت ان کی زندگی کے بعد بھی تابندہ ہے۔ ان کا کلام نسلوں اور سرحدوں کے پار گونجتا ہے۔ یہ بات بھی عیاں ہے کہ ان کی شاعری ایک ابدی الہام کا سر چشمہ رہے گی۔
رُسل چُھے عاشق ثے پتھ بِلا شک
چُھے فنا فی اللہ ، سُبحان اللہ
رابطہ ۔6006795215