ضیاءالمصطفیٰ نظامی
سلطان الاولیاء، شیخ الاسلام، محی الدین ابو محمد سیدناشیخ عبدالقادر الحسنی الحسینی الجیلانی کی ولادت باسعادت یکم رمضان المبارک470ھ بمطابق 1075ء بروزجمعہ کو بحیرہ خزر کے جنوبی ساحل سے ملحق گیلان کا چھوٹاسا مگر زرخیز صوبہ ہے‘اُس کے ایک قصبہ نیف میں ہوئی۔
آپ ثابت النسب سیّد ہیں۔ جامع حسب ولقب ہیں۔ والد بزرگوار کی نسبت سے حسنی علوی اور والدہ ماجدہ کی نسبت سے (جو سیّد عبداﷲ صومعی زاہدکی بیٹی ہیں)حسینی سیّد ہیں۔ آپ کے والد گرامی کا اِسم گرامی حضرت سیّدابو صالح موسیٰ جنگی دوستؒ ہے۔ حضورغوث اعظم قدس سرہ حضرت عبدﷲ صومعی زاہدرحمۃاللہ علیہ کے نواسے ہیں۔ غوث اعظم کی والدہ محترمہ کا نام حضرت فاطمہ اورکنیت اُم الخیرتھی۔آپ بڑی پاک طینت اور صالحہ خاتون تھیں۔ آپ نجیب الطرفین اور شریف الجانبین ہیں۔ آپ کے اِس سلسلہ عالیہ کی اِبتداء متواتر صحیح ثابت اور ایسی روشن ہے جیسا آفتاب عالم تاب ہوتا ہے۔ محققین اُمّت کا اِسی پر اتفاق ہے۔ آپ کی کنیت ابو محمد ہے ۔
آپ کی ولادت کے وقت آپ کی والدہ ماجدہ کی عمر ساٹھ سال تھی۔ آپ جب پیدا ہوئے تو رمضان شریف میں دن بھر دُودھ نہ پیتے تھے۔ یہ بات مشہور ہوگئی کہ سیّدوں کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں دن کو دُودھ نہیں پیتا۔
آپ بچپن میں شفقت ِ پدری سے محروم ہوگیے۔ آپ کے نانا حضرت سیّد عبدﷲ صومعی علیہ الرحمہ باحیات تھے۔ اُنہوں نے آپ کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا۔ آپ بچوں کے ساتھ نہیں کھیلا کرتے تھے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب میں بچوں کے ساتھ کھیلنے کاارادہ کرتا تو آواز آتی۔ اے خوش بخت وخوش نصیب ہماری طرف آجاؤ۔ میں آواز سن کر ڈرتا اور دوڑ کر سیدھا اپنی والدہ کی گود میں آجاتا ۔
آغازِ تعلیم کا تو صحیح طور پر معلوم نہیں مگر اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ آپ نےدس سال کی عمر میں اپنے وطن جیلان ہی کے مکتب میں باضابطہ طور پر قرآن کریم ختم کیا اور چند دیگر کتابیں پڑھیں۔
حضرت ابو عبدﷲ محمد بن قائد وانی کا بیان ہے کہ میں حضرت شیح سیّد عبدالقادرقدس سرہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ ایک شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے اَمر کی بنیاد کس چیز پر رکھی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’سچ‘‘ پراور فرمایا میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا نہ بچپنے میں نہ جوانی میں۔
حضرت شیخ سیّدنا عبدالقادر جیلانی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک دفعہ مجھے جنگل میں جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے کھڑا ہو کر عام کسانوں کی طرح ہل چلانے لگا‘ میری حیرانگی کی اِنتہا نہ رہی جب اُس بیل نے مجھ سے کلام کیاکہ تم کاشتکاری کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں اِس کا حکم بھی نہیں دیا۔ فرماتے ہیں ‘میں خوف کی حالت میں گھر آیا اور گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو میں نے حاجیوں کو میدانِ عرفات میں دیکھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی آنکھوں کے آگے سے تمام حجابات ہٹا دئیے۔ فرماتے ہیں‘ میں اپنی والدہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے اِجازت دیجئے تاکہ میں بغداد شریف جا کر علماء کرام سے علم ظاہری اورمشائخ طریقت سے طریقت کا فیض حاصل کروں۔ فرماتے ہیں اُس وقت میری عمر 18 سال تھی۔
ایک ماں کے لیے ایسے ہونہار‘ اِطاعت شعار اور پیدائشی ولی بیٹے کو اپنے سے جدائی کی اجازت دینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مگر والدہ نے اپنے بیٹے کے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے بغداد شریف جانے کی اِجازت مرحمت فرمادی اور ساتھ ہی نصیحت فرمائی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا اور الوداع فرماتے ہوئے فرمایا۔ ’’میں تمہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حوالے کرتی ہوں شاید میں تمہیں زندگی میں نہ دیکھ سکوں‘‘۔
سرکارغوث اعظم قدس سرہ نے علوم ظاہری حاصل کرنے کے بعد علوم باطنی کے حصول کی ابتداء فرمائی اور مجاہدہ و ریاضت کی انتہائی مشکل اور پر خار راہوں میں قدم رکھا۔ چنانچہ آپ شہر چھوڑ کر عراق کی ویران وادیوں میں یکتا و یگانہ زندگی بسر کرنے لگے تاکہ کامل یکسوئی ملے جیسے ہی آپ نے اپنی مجاہدانہ زندگی کا آغاز کیا فضلِ اِلٰہی ابتدا ہی سے آپ کے شامل حال رہا۔
شیخ ابوالعباس احمد یحییٰ بغداد المعروف ابن الدیبقی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں نے 558ھ میں حضرت شیخ سیّد عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کو سنا کہ کرسی پر بیٹھے ہوئے فرما رہے تھے میں پچیس سال عراق کے جنگلوں اور ویرانوں میں اکیلا پھرتا رہا۔ چالیس سال عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتا رہا اور پندرہ سال نماز عشاء پڑھ کر قرآن پاک شروع کردیتا اور ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر اور نیند کے خوف سے دیوارکی کھونٹی ہاتھ سے پکڑ کر صبح تک ختم کردیا کرتا۔ ایک رات میں ایک سیڑھی پر چڑھ رہا تھا میرے نفس نے کہا کاش تو ایک گھڑی سو جائے اور پھر اُٹھ کھڑا ہو جونہی یہ خطرہ میرے دل میں آیا میں ٹھہر گیا اور ایک پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور قرآنِ مجید شروع کر دیا اور اِسی حالت میں مکمل قرآن پاک پڑھ لیا۔
حضورسیّدنا غوث اعظم قدس سرہ نے جب تمام علوم پر دسترس حاصل کر لی ،عبادت وریاضت اور مجاہدات کی مشقتوں اور صحر ا نوردی کی خلوتوں میں بہت عرصہ گزر گیا اور محنت شاقہ کے بعد پورا تزکیہ نفس ہوا تو آپ حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضرہو ئے اور بیعت کرکے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگیے جس سے آپ کوکمال عروج ملا۔ حتیٰ کہ ایک دن اپنے مرشد کامل قاضی ابو سعید مبارک مخزومی قدس سرہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور کسی کام کے لیے اُٹھ کر باہر آئے تو آپ کے شیخ طریقت نے فرمایا اس نوجوان کا قدم ایک دن تمام اولیا ءﷲ کی گردنوں پر ہو گا اور اِس کے زمانے کے تمام اولیا ء اِس کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دیں گے اور انکساری کریں گے۔
حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رحمہ اللہ جب سیّدنا غوث اعظم قدس سرہ سے بیعت لے چکے تو آپ کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا جس سے آپ کو اتنا فیض ملا کہ خود فرماتے ہیں میرے شیخ طریقت جو لقمہ میرے منہ میں ڈالتے تھے وہ ہر لقمہ میرے سینہ ِکو نور معرفت سے بھر دیتا تھا۔ پھر حضرت شیخ قاضی ابو سعید مبارک مخزومی رحمہ اللہ نے آپ کوخرقۂ خلافت پہنایا اور فرمایا:اے عبد القادریہ خرقہ حضور سرور کونینﷺ نے امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا اُ ن سے حضرت خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ کو ملا، اور پھر اُن سے دست بدست مجھ تک پہنچا اور اب میں تمہیں دے رہا ہوں۔ یہ خرقہ پہننے کے بعد حضور سیّدنا غوث اعظم قدس سرہ پر برکات و تجلیات اور بے شمارا نوارِ ا لہٰیہ کا نزول ہوا۔ (قلائد الجواھر)
حضرت سیّدنا غوث اعظم قدس سرہ نے 16 شوال المکرم 521ھ مطابق 1127ء بروز منگل باب الازج کے متصل ایک بڑاحلبہ(مسافرخانہ)ہے وہاں دوپہر کے وقت قیلولہ فرمارہے تھے آپ نےظہر سے پہلے رسول اکرمﷺ کا دیدار کیا‘ حضور اَقدسﷺ نے فرمایا: اے میرے بیٹے وعظ کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا‘ یارسول اللہﷺ میں عجمی (غیر فصیح)ہوں۔ بغداد شریف میں فصحائے عرب کے سامنے کیسے کلام کروں ؟حضور نبی کریم ﷺنے سات بار لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا اورمجھ سے فرمایا کہ لوگوں کو وعظ کر اور حکمت وموعظ حسنہ سے اپنے رب کے راستے کی طرف بلا۔ پس میں ظہر کی نماز پڑھ کر بیٹھ گیا‘بہت سے لوگ میرے پاس آئے‘ میں گھبرا گیا پھر میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا‘ اُنہوں نے مجھے فرمایا: اے میرے بیٹے تو وعظ کیوں نہیں کرتا؟ میں نے عرض کیا ‘حضور میں گھبرا گیا ہوں‘ آپ نے فرمایا: اپنامنہ کھول‘ میں نے منہ کھولا تو آپ نے چھ باراپنا لعاب شریف میرے منہ میں ڈالا‘میں نے عرض کیا‘ پورے سات مرتبہ کیوں نہیں ڈال رہے‘ آپ نے فرمایا: کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ اَدب کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔
تھوڑے عرصہ میں آپ کے وعظ میں لوگ بکثرت شامل ہونے لگے ‘باب الحلیہ کے مصلے میں گنجائش نہ رہی تو آپ کی کرسی شہر کے باہر عید گا ہ میں لے گیے‘ وہاں بھی لوگ جوق درجوق شوق سے گھوڑوں‘خچروں‘گدھوں اور اونٹوں پرآیاکرتے تھے ‘ حاضرین مجلس کی تعداد تقریباً ستر ہزار ہوا کرتی۔
حضور سیّدنا غوث اعظم قدس سرہ کے صاحبزادے سیّد عبد الوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ نے 528ھ/1127ء سے561ھ تک(تینتیس سال) درس وتدریس اور فتاویٰ نویسی کے فرائض سرانجام دئیے۔ آپ کی مجلس مبارکہ میں باوجودیکہ ہجوم بہت زیادہ ہوتا تھا لیکن آپ کی آواز مبارک جتنی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی اتنی ہی دور والوں کو سنائی دیتی تھی اور آپ اہل مجلس کے خطرات قلبی کے موافق کلام فرماتے تھے۔
قول وفعل میں مطابقت:حضرت احمد بن صالح بن شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ‘ میں مدرسہ نظامیہ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی مجلس میں بیٹھا تھا۔ اِس مجلس میں وقت کے اکثر علماء و فقہا موجود تھے اور آپ کاموضوع گفتگو قضا و قدر تھا۔ اتنے میں ایک بہت بڑا سانپ چھت سے آپ کی گود میں آ گرااور پھر سینہ سے نکل کر گلے کے گرد لپٹ گیا۔ اِس واقعہ کے باوجود نہ تو آپ اپنی جگہ سے ہلے اور نہ ہی سلسلہ کلام منقطع کیا۔ چند لمحوں کے بعد سانپ اُترا اور زمین پرآپ کے سامنے کھڑا ہو کر کچھ کہنے لگا جسے ہم نہ سمجھ سکے اور پھر وہ چلا گیا۔ لوگ واپس آگئے اور آپ کی خیریت پوچھی اور معلوم کرنا چاہا کہ اِس سانپ نے آپ سے کیا کہا۔ آپ نے فرمایا‘ وہ کہتا تھا کہ میں نے اپنی لمبی زندگی میں بہت سے اولیاء اللہ کو دیکھا ہے مگر آپ جیسا ثابت قدم نہیں دیکھا۔
روایت میں آیا ہے کہ حضرت غوث اعظم قدس سرہ بہت زیادہ رویا کرتے تھے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف دِل میں رکھتے تھے اور مستجاب الدعاء تھے اور سخاوت کرنے میں مشہور تھے۔ اچھے اخلا ق کے مالک اور بہترین خوشبو استعمال کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کے جسم پر پہنے ہوئے لباس کا سوال کرتا تو اُتار کر اُسے عطا فرما دیتے تھے۔ آپ حاکموں کے پیسے کی طرف تکتے نہیں تھے۔
آپ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالرزاق رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپ حج کے لیے روانہ ہوئے جب بغداد کے قریب ایک موضع میں جس کا نام حلّہ تھا پہنچے تو حکم دیا کہ یہاں کوئی ایسا گھر تلاش کرو جو سب سے زیادہ ٹوٹا پھوٹا اور اُجڑا ہواہو‘ ہم اُس میں قیام کریں گے۔ قصبہ کے امیروں اور رئیسوں نے بڑے اچھے اچھے مکانات آپ کے سامنے قیام کرنے کے لئے پیش کئے لیکن آپ نے اِنکار فرما دیا۔ تلاشِ بسیار کے بعد ایک ایسا مکان مل گیا جس میں ایک بڑھیا بوڑھا اور ایک بچی تھی۔ آپ نے بڑے میاں سے اِجازت لے کر رات اُس کے گھر میں گزاری اور وہ تمام نذرانے اور ہدایات جو نقد‘جنس اور حیوانات کی صورت میں آپ کو پیش کیے گیے تھے آپ نے اہل خانہ کو دے دئیے۔
آپ کاوصال11ربیع الآخر 561ھ بروزدوشنبہ بعد نماز عشاء اکیا نوے (91)سال کی عمرمبارک میں بغداد میں ہوا آپ کی زبان مبارک پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا۔آخر میں آپ نےﷲ،ﷲ،ﷲ کہا پھر آپ کی آواز مبارک مخفی ہوگئی اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
آپ کے صاحبزادے حضرت سیدناشیخ عبدالوہاب قدس سرہ نے نمازجنازہ پڑھائی اورمدرسہ عالیہ باب ازج کے پاس بغدادشریف میں تدفین ہوئی آپ کے فیوض وبرکات سے مستفیض ہونے کے لیے ہمہ وقت زائرین کااژدھام رہتاہے۔
(مضمون نگار جنرل سیکریٹری آل انڈیابزم نظامی ہیں)
ای میل۔[email protected]
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)