رئیس احمد کمار
شیخ العالم حضرت شیخ نورالدین نورانی ؒضلع کولگام کے کھی جوگی پورہ گاؤں میں پیدا ہوئے ہیں ۔ کچھ مورخین کی رائے یہ بھی ہے کہ آپ ؒ کا جنم کیموہ گاؤں میں ١٣٧٧ء میں ہوا ہے ۔ آپ کا شمار ملک کشمیر کے اعلیٰ ولی اللہ میں ہوتا ہے ۔ حضرت میر سید حسین سمنانی ؒ، جو شاہ ہمدان ؒ کے چچیرے بھائی تھے، نے ہی آپ کا نام نورالدین رکھا ۔ گھر کے افراد آپ کو پیار سے نند کہتے تھے ۔ بعد میں آپ نے اپنا قلمی نام بھی نند ہی رکھا ۔ آپ کی نسبت راجگان کشتواڑ کے خاندان سے ہے۔ آپ کے والد بزرگوار پہلے ہندو نژاد تھے، ان کا نام سلر سنز تھا۔ مختلف تاریخوں ، تذکروں اور ان کے شاعرانہ کلام کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شیخ العالم ؒ مختلف علوم وفنون اور نظریات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ آپ کے کلام کو جہاں وادی کشمیر کے لوگ عام فہم زبان میں کوشُر قران کہتے ہیں، یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ آپ حافظ قرآن بھی تھے۔
حضرت شیخ العالم ؒ جب پندرہ سولہ سال کے ہوئے تو ان کی شادی زے بی بی سے ہوئی ۔ شادی کو جب چھ سال ہوئے تو وہ غار نشین ہو گئے۔ پھر آپ مختلف روایات کے مطابق بارہ سال تک کیموہ کے غار میں ہی یاد ِخدا میں محو رہے۔ تیس سال کے ہوئے تو ترکِ دنیا اور غار نشینی کی زندگی کو چھوڑ دیا ۔ پھر آپ اللہ کے فرمان کو بجا لاتے ہوئے تبلیغ دین کے کام میں مشغول ہوئے۔ وادی کشمیر کے چپے چپے اور کونے کونے میں پیغام حق پہنچا کر لوگوں کو راہِ راست پر کھڑا کیا۔ حضرت شیخ العالم کو ایک صوفی بزرگ ، مبلغ اور شاعر کی حیثیت سے غیر معمولی نوعیت کی شہرت حاصل ہوئی۔ انہوں نے اسلام کی تبلیغ واشاعت اور اولیاء کرام کی تعلیم اور رہنمائی کی خاطر کشمیر کے شہرودیہات کے سیر کیے اور انگنت لوگوں کو مسلمان بنایا۔ تبلیغ دین کی خاطر شیخ العالم نے اننت ناگ ، مٹن، شاہ آباد، دیوسر، نورآباد ، کشتواڑ ، پانپور، صورہ، بارہ مولہ، ٹنگمرگ، پٹن، کھاگ، بیروہ، بڈگام، چاڈورہ اور چرار، جو بعد میں آپ کی نسبت سے چرارشریف کہلانے لگا، کے علاقوں کا بار بار دورہ کیا اور کئی مقامات پر اپنے تبلیغی مراکز قائم کیے۔ حقیقت میں شیخ العالم ؒریشی سلسلہ کے بانی مانےجاتے ہیں اور جو عروج آپ کی ذات بابرکت سے ریشی قبیلہ کو حاصل ہوا، اتنا پہلے کسی اور کو نہ ہوا تھا ۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی آپ کے عقیدت مند تھے۔ آپ کا تمام کلام جو کہ مولانا رومی کی مثنوی شریف کی طرح دین حق کی خوب ترجمانی کرتا ہے ،آسان کشمیری زبان میں ہے۔
لوکچار راوم منز غفلتس
وین پیوم ژیتس گریکہ وز نون
اسلام سے پہلے کشمیر میں لوگ سماجی و دنیاوی زندگی چھوڑ کر جنگلوں، غاروں اور پہاڑوں پر رہتے تھے ۔ اس جماعت سے وابستہ ہر فرد کو لوگ یہاں ’’ریشی‘‘ کہتے تھے ۔ جب شیخ العالم ؒآئے تو انہوں نے ان ریشیوں کے افکار ونظریات کو یکسر بدل دیا ۔ یہاں کی مقامی ریشیت کو ہندومت سے پاک کر کے اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔ اس کے بعد اہل کشمیر کے نزدیک ریشیت کا معنی و مفہوم وہ نہ رہا جو قبل از اسلام تھا۔ اب ریشی مسلمان عابد و زاہد اور خدا ترس شخص کو کہا جانے لگا۔ شیخ العالم ؒایک عظیم داعی اسلام ، بے مثال قائد ، ممتاز مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک لامثال شاعر بھی تھے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی حضرت شیخ نورالدین نورانی ؒ کا کلام کشمیریوں کے زبانوں پر رواں رہتا ہے اور آج بھی مقبول عام اور زندہ ہے ۔ حضرت شیخ ؒ کی زندگی کا نصب العین اشاعت دین، تعلیمات حق کی سربلندی اور لوگوں کی اصلاح تھا ۔ اس لیے انہوں نے اپنے شاعرانہ کلام کو دعوت حق، تبلیغ دین اور اصلاح کے لئے ایک اہم زریعہ بنایا ۔
حضرت شیخ نورالدین نورانی ؒ کے ذریعے جو خاص لوگ اسلام کے دائرے میں آگئے، بعد میں اُن کے خاص خلیفہ بن گئے، ان میں بمہ ساؔد حضرت بابا بام الدینؒ، زیا ؔسنگھ حضرت سخی زین الدین ولیؒ، بابا نصرالدینؒ ، لدی ؔرینہ بابا لطیف الدین، تازی بھٹ، تولی رینہ، سدہ شرکنٹ، کٹی پنڈت ، یاون مثری، شام بی بی وغیرہ بطور خاص شامل ہیں ۔ حضرت شیخ نورالدین نورانیؒ نے اپنے کلام کے ذریعے نفس پرست عالموں، بے عمل واعظوں ، گمراہ دانشوروں ، دھوکہ باز صوفیوں ، دنیا پرست دولت مندوں اور جاہ پسند حاکموں کے طرز عمل کی تنقید کرتے ہوئے انہیں بار بار حق و صداقت قبول کرکے راہ راست پر چلنے کی ہدایت کی۔
حضرت شیخ نورالدین نورانی ؒ ایک مادر زاد ولی تھے۔ حضرت میر سید حسین سمنانی ؒاور للؔ عارفہ نے پہلے ہی اُن کے دنیا میں آنے کی پیش گوئی کی تھی۔ جب آپؒماں کے پیٹ میں ہی تھے اور حضرت میر سید حسین سمنانیؒ اور لل عارفہ آپ کی والدہ محترمہ سیدرہ ؔموج کے پاس خبر پرسی کے لئے گئے تو وہاں پہنچ کر انہوں نے شکایت کی کہ اذان کے وقت وہ شدید تکلیف سے گزرتی ہے ۔ جواب میں سید حسین سمنانی نے اُن سے کہا کہ آپ کے رحم میں ایک مادر زاد ولی اللہ پل رہے ہیں ،وہ اذان کے وقت عبادت خدا میں محو ہوجاتے ہیں جس وجہ سے آپ تکلیف محسوس کرتی ہیں۔ حضرت شیخ نورالدین نورانی کشمیر کے کونے کونے میں خدا کا پیغام پہنچانے کی غرض سے پہنچےاور بے شمار کرامات دکھا کر لوگ جوق در جوق اسلام کے دائرے میں شامل ہوتے گئے۔
کشیر پھیورس اندی اندی کانسہ کورم نہ براند تراو
جندس ییلہ لیاگم پیوندی اتھ تہ دوپہ ہم فندی آؤ
شیخ نورالدین نورانی ؒ کے نام سے ہر کشمیری بچہ، جوان اور بزرگ واقف ہے کیونکہ وہ اپنے آباؤاجداد سے ان کی کرامات کے بارے میں بچپن سے سنتے آئے ہیں ۔ ٦٣ سال کی عمر پا کر حضرت شیخ نورالدین نورانی نے ١٤٤١ء میں انتقال فرمایا ۔ نماز جنازہ خلیفہ دوم حضرت سخی زین الدین ولیؒ نے پڑھائی اور چرارشریف میں دفن کئے گئے ۔
وادی کشمیر جہاں اپنی بےپناہ خوبصورتی ، اونچے برف پوش چوٹیوں اور میٹھے آبشاروں کی وجہ سے پورے آفاق میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے وہیں یہ جنت بے نظیر کہلانے والا خطہ ریشیوں اور صوفی سنتوں کی وجہ سے بھی پیروار کہلایا جاتا ہے ۔ یہاں دنیا کے مختف حصوں سے اللہ کے پیارے بندے خالق کائنات کے دکھائے ہوئے راستے کی تعلیمات پہنچانے کی غرض سے مختلف اوقات میں تشریف لائے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جائیں اور ان کے مشن کی اسی طرح آبیاری کریں جس طرح ہمیں حق ہے کیونکہ ہم ان ہی کے مرہون منت ہیں ،جنہوں نے ہم تک دین حق پہنچایا ۔ اللہ ہمیں ان کے نیک اعمال کے تفیل اپنی حفاظت میں رکھے۔ آمین
رابطہ۔۔قاضی گنڈ کشمیر
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)