زاہد بشیر
گول//ہزاروں آبادی پر مشتمل علاقہ جات کو سب ڈویژن گول کے ساتھ ملانے والا واحد پل جو قریباً چار سال قبل شدید بارشوں کی وجہ سے گر گیا تھا ابھی تک تعمیر نہیں ہو رہا ہے جس وجہ سے یہاں ہزاروں لوگوں کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بالخصوص بارشوں اور برفباری کے دوران لوگ یہاں اس دریا کو ایک لکڑی کے عارضی کمزورپل پر گزر کر سفر کرنے پر مجبور ہیں ۔ جہاں عام لوگ اس مشکلات سے دو چار ہیں وہیں سکولی بچوں کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ لوگوں کو بھی کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ مقامی لوگوں نے کشمیرعظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ واحد پل ہے جو کلی مستا ، گاگرہ ، گوئی ، بھیمداسہ م ڈاکہ ، چنا وغیرہ علاقوں کو گول سب ڈویژن صدر مقام کے ساتھ ملاتا ہے اگر چہ متبادل راستے بھی ہیں لیکن جہاں دو تین گھنٹے کا سفر دس گھنٹے میں طے ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قریباً تین سال قبل یہ پل ڈھہ گیا تھا جس وجہ سے یہاں پر لوگوں کو پیدل چلنے میں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔ وہیں اس سلسلے میں محکمہ تعمیرات نے ایک بلا ک ڈیولپمنٹ کونسل گنڈی داڑم کے چیئر مین کی طرف سے ایک خط پر عمل درآمد کرتے ہوئے چنا میں پل کی تعمیر کے لئے رقوم واگزار کئے جو نبارڈ کے ذریعے یہاں پر تعمیر ہو گا ۔ لوگوں نے اگر چہ پل کی تعمیر کے لئے محکمہ کی جانب سے نوٹس پر شکریہ کیا لیکن انہوں نے اس پل پر جلداز جلد تعمیر کرنے کی مانگ کی تا کہ آنے والے وقتوں میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔چنا پل کی تعمیر کے لئے تمام لیڈران بشمول ڈی ڈی سی ممبرچوہدری سخی محمد نے یقین دہانی بھی کرائی تھی اور جائے موقعہ پر بھی لوگوں کے ساتھ ملاقات کی تھی لیکن اس کی تعمیر نہیں ہو سکی ۔اس سلسلے میں آج پھر سے ڈی ڈی ممبر چوہدری سخی محمد سے جب بات کی تو انہوں نے کہا کہ پہلے اس کے لئے 58لاکھ روپے سیکشن آیا تھا لیکن محکمہ آر اینڈ بی کو اس کے ڈیزائن میں تبدیلی آئی تھی جس وجہ سے بن نہیں پایا اور اس کو اب دوبارہ ڈیزائن کے لئے بھیجا گیا ہے ، اگر سی یہاں پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ جلد پل کا ڈیزائن آئے گا اس کے ٹینڈر ہوں گے لیکن نا ہی ایک سال گزرنے کے بعد ڈیزائن آیا اور نہ ہی پل کے ٹینڈر ہوسکے ۔ ۔آج ایک سال ہونے کو جا رہا ہے لیکن ابھی تک یہاں پر عوام پل نہ ہونے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ مقامی لوگوں کے مطابق اب بارشوں اور برف باری کا موسم آ رہا ہے اور لوگوں کو آنے جانے میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اگر لوگوں کو دریا کے اُس پار بھی جانا ہو گا تو کم و بیش دس بیس کلو میٹر پیدل سفر کر کے داڑم ریلوے پل سے لوگوں کو جانا پڑے گا اس کے علاوہ یہاں کسی بھی مقام پر کوئی پل نہیں ہے ۔افسوس کا مقام ہے کہ آج بھی وہ پل اسی مقام پر لٹکا ہوا ہے جب قریباً سات سال قبل یہاں شدید بارشوں کے دوران یہ پل اکھڑ گیا تھا اور لاکھوں کی مالیت کا لوہے کو ایک کچرا سمجھ کر لٹکا دیا ہے ۔ اگر محکمہ اسی لوہے کو نکال کر اس کی مرمت کر کے دوسری جگہ اس کو پل تعمیر جا سکتا کیونکہ اس میں اسی فیصد لوہا بالکل صاف ہے اور بیس فیصد ہی کام باقی کرنا ہے اور پل تیار ہو جاتا لیکن محکمہ خزانہ پر کوئی ترس نہیں کھا رہا ہے اور یہ لاکھوں کا لوہا نما پل آج بھی چنا کے مقام پر لٹکا ہوا دکھا ئی دے رہا ہے ۔