ہم گزشتہ چند ماہ سے مسلسل انہی سطور میں اور صفحہ اول پر تفصیلی رپورٹوں کی صورت میں ارباب بست و کشاد کی توجہ گراں بازی کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ متعلقین خواب غفلت ہیں اور وہ ہماری گزارشات کو در خور اعتناء نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بازار میں صارفین کی چمڑی ادھیڑنے کا سلسلہ جاری نہ ہوتا۔آج بھی گوشت سے لیکر مرغ اور سبزیوں سے لیکر روزمرہ ضروریات کی سبھی چیزوں کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی میکا نزم ہی نہیںہے کہ وہ قیمتوں کو اعتدال میں لائے۔مانا کہ آپ نے محکمہ امور صارفین کو کم و قلیل راشن کی سپلائی تک ہی محدود کرکے رکھا ہے حالانکہ وہ محکمہ صارفین کے حقوق اور مفادات کا محافظ کہلایاجاتا ہے لیکن اب جس طرح گوشت سے لیکر ہر چیز کو ڈی کنٹرول کیاگیا ہے ،اُس نے صارفین کو بازار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاہے لیکن اس کے باوجود سرکار کے پاس ایسے محکموں کی کمی نہیں ہے ،جو بازار پر نظر گزر رکھ سکتے ہیں۔
محکمہ ناپ تول کا کام یہی ہے ۔فوڈسیفٹی محکمہ کا بھی یہی کام ہے جبکہ اس کے علاوہ بلدیاتی اداروں کے ذمہ بھی یہ ہے اور اس سارے عمل میں محکمہ مال سے وابستہ مجسٹریٹ بھی کلیدی رول ادا کرسکتے ہیں لیکن بادی النظرمیں ایسا لگ رہا ہے کہ سب اپنی آنکھیں بند کرچکے ہیں اور انہیں نظر ہی نہیں آرہا ہے کہ بازار میں کوئی سا طوفان بدتمیزی بپا ہے اور کس طرح گراں بازاری بام عروج ہے جس کے چلتے صارفین بے بس ہوچکے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی متعلقین کو خبردار کیاتھا کہ اس رجحان پر قبل از وقت قابو پانے کی ضرورت ہے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور حکام خواب خرگوش میں مست رہے ۔اب حالت یہاںتک پہنچ چکی ہے کہ مرغ سے لیکر گوشت اور سبزیوںسے لیکر پھلوں کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کو مہنگے داموں یہ چیزیں خریدنے پر مجبور کیاگیا اور لوگ بحالت مجبوری خریداری کربھی رہے ہیں۔؎اس صورتحال میں یہاںایک سیدھا سا سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ ہمارے پاس مارکیٹ کے معائنہ کا ایک موثر نظام موجودکیوں نہیں ہے جو اس بات کو یقینی بناتاکہ صارفین کا کوئی استحصال نہیں ہو۔وہ کون سی نظامی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے زیادہ قیمتیں وصولنا اور دیگر بددیانتیوں کا یہ مسئلہ ہمارے بازاروں سے ختم ہونے کانام نہیں لیتا۔اس بات سے بھی قطعی انکار نہیں کہ سارے تجارت پیشہ مخصوص مواقع کا فائد ہ اٹھاکر صارفین کو لوٹنے کا کام نہیں کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک بڑا طبقہ تاجر برادری میں موجود ہے جو لین دین کرنے ک دوران اس طرح کے غلط طریقوں کا سہارا لیتاہے۔جہاں تک سرکاری نظام کا تعلق ہے تو بلا شبہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمارے پاس ایک سے زیادہ محکمے موجود ہیں جن کا کام ہی مارکیٹ میں قیمتوں کو اعتدال پر رکھنا اور اشیاء کا معیار برقرار رکھنا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ محکمے اور ان کے کارندے مفت کی روٹیاں توڑنے میں ماہر بن چکے ہیں اور وہ حقائق سے چشم پوشی اختیار کرکے غریب کو لٹتا ہوا دیکھنے میں شاید لطف اٹھاتے ہیں۔بازاروںکا معائنہ کرنے اور اس طرح کے طریقوں کو روکنے کے لئے انفورسمنٹ اہلکاروںکو تیار رہنا چاہئے تھااور اس بات کو یقینی بنانا چاہئے تھا کہ اشیاء کی قیمتیں من مانی طور پر مقرر نہ ہوں لیکن نہ محکمہ ناپ تول کے لوگ کہیںہیں اور نہ ہی دیگر محکموں کے اہلکارکہیں نظر آرہے ہیں۔شہر اور قصبہ جات میں میونسپل حکام بھی غائب ہیں جبکہ گائوں دیہات میں محکمہ مال کے حکام و اہلکار بھی گہری نیند سوئے ہوئے ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ کالابازاری عروج پر ہے ۔اگر متعلقہ محکموں کی ٹیمیں حرکت میں آجاتیں تو یقینی طور پر قیمتیں اعتدال میں آجاتیں جس کا فائدہ عام صارفین کو ملتا لیکن ہمارے یہ سرکاری کارندے یہ کھلی لوٹ شاید دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔متعلقہ محکمہ کی ٹیموں کے ذریعہ کئے گئے بازار کے معائنے سے صارفین میں ایک حد تک اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب مارکیٹ کے معائینے باقاعدگی سے اور موثر ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس طرح کے معائنے بہت کم ہوتے ہیں۔جب مارکیٹ چیکنگ کو معمول نہ بنایا جائے تویہ مارکیٹ میں غلطی کرنے والے عناصر کو کچھ حد تک استثنیٰ کے ساتھ قوانین کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت عطا کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ از خود قیمتوں میں اضافہ کرنے کے گناہ کی کوئی سزا نہیں ملتی او ر یوں اس طرح کا گناہ کرنا معمول ٹھہرتا ہے اور پھر کالابازاری یا ایسی لوٹ کھسو ٹ کوئی جرم ہی تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر متعلقہ حکام متحرک ہوتے اور مارکیٹ کی مسلسل بنیادوں پر چیکنگ کرتے تو کوئی بھی صارف کا استحصال کرنے کی جرأت نہ کرتا۔جو چیز متعلقہ حکام کی اس کام میں مدد کر سکتی ہے وہ ہے تاجر انجمنوں کو ایسے معاملات پر حساس بنانا۔ ایسے تاجر اور انجمنیں ہیں جن کی مدد اس طرح کی بددیانتی سے لڑنے میں حاصل کی جا سکتی ہے۔اس عمل میںمیڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچنابھی لازمی ہے اور عوام کو اپنے حقوق سے آگاہ کرنا ہے ۔جب صارف جاگ جائے تو وہ اپنے حقوق کیلئے بھی لڑے گا اور جب نرخناموں کی وسیع تشہیر یقینی بنائی جائے تو صارفین کو بھی پتہ ہوگا کہ اصل قیمتیں کیا ہیںا ور بازار میں دکانداروں نے ان میں کتنا اضافہ کررکھا ہے ۔اس سے لوگ اصل قیمت پر خریداری کا تقاضا کریں گے اور نتیجہ کے طور پر اس تجارتی بددیانتی پر قابو پایا جاسکے گاجس سے صارفین کو یقینی طور پر راحت ملے گی اور تجارت بھی ایمانداری سے ہوگی۔