محمد اشرف بٹ
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے معاشرہ اپنی ثقافت، علم اور ہنر کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچاتا ہے۔ روایتی تعلیم میں تعلیم کا مرکز اکثر استاد ہوتا ہے لیکن موجودہ تعلیمی نظام پچھلے دہائیوں سے بہت مختلف ہے اور اس میں بچے آزادانہ طور جدید تعلیم کو اپنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔
جدید دور کی تعلیم مختلف قسم کی ٹیکنالوجی ،کمپیوٹر،پروجیکٹر، انٹرنیٹ جیسے آلات کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ تعلیم کا بدلتا رخ مختلف چیزوں کی یاد دلاتی ہے۔تعلیمی نظام میں درس و تدریس کا عمل کھلے میدان سے لیکر بلیک بورڈ ،وایٹ بورڈ، پروجیکٹر اور سمارٹ بورڈ جیسے مرحلوں سے موجودہ نظام تک پہنچا ہے ۔موجودہ نظام میں طلبا اگر روایتی استاد کے موضوع کو سمجھ نہیں پاتے تو یوٹیوب کا رخ کرتے ہیں ۔یو ٹیوب پر اگر موضوع سمجھ نہیں آتا ہو تو استاد کو رپیٹ موڑ پر رکھتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں موضوع کی لمبائی کو دیکھ کر ٹیچر کو بھی تیز یا آہستہ چلا سکتے ہیں ۔ویکی پیڈیا،گوگل اور یوٹیوب ہمارے جدید دور کے اساتذہ اور کمپوٹر،لیپ ٹاپ اور سمارٹ فون ہمارے سکول بن گئے ہیں۔ غرض ٹیکنالوجی استاد کا متبادل ثابت ہو رہا ہے۔ ایسا دیکھنے میں آرہا ہے کہ درس وتدریس کا پیشہ اب زیادہ دن نہیں رہ پائے گا کیونکہ روبوٹس اساتذہ کے مقام پر متعارف کرائے گئے ہیں اور بہت سی جگہوں پر روبوٹس کے ذریعے درس وتدریس شروع ہورہی ہے ۔والدین کی ذمہ داری پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ٹیکنالوجی نے بچوں کی تعلیم وتربیت سمیت زندگی کے ہر شعبے میں اپنا حد سے زیادہ عمل دخل قائم کر لیاہے۔ والدین کے لیے بچے کی پرورش کی ذمہ داری پہلے کے مقابلے میں کئی گنابڑ ھ گئی۔ طلبا کا بچپن ،کینڈر گارٹن، پرائمری تعلیم ، ٹین ایج وغیرہ جیسے مختلف مراحل پر مشتمل ہے۔ والدین کو ہر ایک مرحلے پر بچوں کی مختلف انداز میں دیکھ بھال اور پرورش درکارہے۔ نونہالی کے دنوں میں بچوں کو ٹیکے لگوا کر بیماریوں سے تو محفوظ رکھنا ضرور ہوتا ہے لیکن جب بچہ سکول جانے کے لائق ہو جاتا ہے تو والدین کو چاہئے کہ اس معاشی دوڑ کے ساتھ ساتھ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر وقت صرف کرکے سکول کے کام کاج کے بارے میں بات کریں۔انہیں بد زبانی، لڑائی، جھگڑے اور جھوٹ سے پرہیز کرنے کی تلقین کریں۔ والدین کو چاہئے کہ بچے کو آداب اور اخلاقیات کی بنیاد ی تربیت فراہم کریں۔ جب بچہ ٹین ایج کی عمر میں داخل ہوتا ہے تووالدین کی ذمہ داریوں میں بھی تبدیلی آتی ہے۔اس عمر میں بچے سکول، محلے اور معاشرے میں دوستیاں قایم کرتے ہیں۔والدین کو چاہئے کہ وہ اس عمر میں بچوں کی رہبر ی کریں۔ ان کے ساتھ دوستوں جیسا سلوک کریں۔ ان کے ساتھ جتنا ممکن ہو سکے وقت گزاریں۔ ان کے ساتھ مشورہ کرے انہیں تھوڑاذمہ دار ی کا احساس دلائیں۔
کسی ملک و قوم کا مستقبل اسکے تعلیمی نظام پر منحصر ہوتا ہے اور تعلیمی نظام اساتذہ کے معیار اور اخلاقیات پر دارومدار رکھتا ہے۔ اس لئے ایسے بدلتے تعلیمی نظام میں استاد کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اخلاقیات بنیادی طور پر اچھے اور برے، صحیح اور غلط کے تصور ات سے متعلق ہے۔ اخلا ق کسی بھی قوم کی زندگی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ دونوں کو چاہئے کہ وہ بچوں کو اچھے اخلاق سکھائیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہو جائیں کیونکہ بچے ان کی حرکتوں کو نقل کرکے اپناتے ہیں۔استاد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ صرف بچوں کی پڑھائی اور امتحان کوہی نہ دیکھیں بلکہ ان کی شخصیت پر اپنی توجہ مرکوز کریں ورنہ وہ پڑھ لکھ کر ایک نئی مصیبت کھڑاکر سکتے ہیں جس سے وہ والدین کے لئے باعث شرمندگی بن سکتے ہیں ۔بچوں کے آزادانہ طور انٹرنیٹ کا استعمال ان کی نشوونما اور جسمانی اعضاء پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ بچوں کا انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت خود بھی ان کے ساتھ بیٹھے رہیں۔ ڈارک ویب تشویش کا ایک بڑا علاقہ ہے ۔یہاں غیر محفوظ سوشل میڈیا پروفائلز بچوں کے جنسی استحصال کی سایٹس اور آن لائن کھیل فورمز ایسے مجرموں کے لئے بنیاد ہے جو گم نام ہوتے ہیں۔آن لائن کے زیادہ استعمال سے منفی اثرات یہاں کے بچوں میں رونما ہورہے ہیں جسے طالب علم کو موضوع ڈھونڈنے میں بہت سی سایٹوں پر رکنے کو من کرتاہے جیسے ٹیلی گرام ، انسٹا گرام ،سنیپ چیٹ وغیرہ۔اس طرح کی سایٹس اس اخلاقی گراوٹ میں سب سے زیادہ مدد گار ثابت ہورہی ہیں۔
ان برائیوں کا رحجان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے اثرات گھر گھر رونما ہورہے ہیں ۔یہی وقت بچوں کی پڑھائی کا اہم مرحلہ ہوتا ہے جس میں بچوں کے برتائو کے اثرات سماج میں دکھائی دے رے ہیں۔آج والدین اپنے بچوں کی معیار ی تعلیم کے سلسلے میں بڑے فکر مند ہیں ۔ان کی فکر مند ی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے لئے بڑی بڑی رقوم خرچ کرنے کو تیار ہیں یہاں تک کہ اس کے لئے اپنا مقام چھوڑ کر بڑے شہر وں کومنتقل بھی ہو رہے ہیں۔ اتنا سب کرنے کے بعد کیا ان کے بچوں کومعیاری تعلیم مل پا رہی ہیں یا معیار ی تعلیم کے فرضی دکھاوے اور ایک دوسرے کی دوڑ میں شریک ہونے پر والدین کی خواہشاتِ کا استحصال اور دھوکہ ہورہا ہے۔بہتر یہ تھا کہ والدین بہت پہلے سے بچے کی پڑھائی کے بارے میںسکول کے ساتھ رابطے میں رہتے ۔یہ وہ وقت تھا جب بچے کا دماغ نشود نما پا رہا تھا اور بچے کی دماغی اور اخلاقی تعلیم کو مد نظرکھ کر بچوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ لینا تھا۔ نہیں تو سکول ہی وہ جگہ ہے جہاں بچے کو حقیقی تعلیم مل سکتی ہے۔ بچہ جدید دور میں انٹرنیٹ سے تو تعلیم حاصل کر سکتا ھے لیکن سکول ہی وہ جگہ ہے جہاں سے بچہ انسا ن بن سکتا ہے۔
(مضمون نگار محکمہ تعلیم میں بحیثیت استاد فرائض انجام دے رہے ہیں)
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)