مشتاق مہدی
کچھ لوگوںنے علامتیت کو گپھا میںبند کسی خونخوار شیر کی مانند سمجھا ہے کہ اگر ہم اسکی طرف جائیں۔۔۔تو نہ معلوم ہمارا کیا حلیہ بنائے گا۔اس لئے گپھاکو دور سے ہی دیکھکر سلام کرکے نکل جاتے ہیں ۔اب اگر اتنا ہی ہوتا تو ٹھیک تھا۔لیکن وہ علامت بیزاری کا اظہار کرنے سے باز نہیں آتے۔ مختلف سٹیجوں پر کچھ اِس قسم کی باتیں کرتے نظرآتے ہیں ۔
علامتی افسانوں کا ایک دور تھا جو شب خون کے بند ہوجانے کے ساتھ ہی فوت ہو چکا ۔علامتی کہانیوں نے کہانی کا سٹرکچر تبدیل کرکے عام قاری کو افسانے سے دور کر دیا ہے ۔علامتی افسانہ کیا ہے ایک گورکھ دھندا بس۔۔۔۔۔۔اِس میں نہ واقعات بھری زندگی کی جھلک ملتی ہے نہ اس میں کہانی ہوتی ہے نہ سادہ سلیس بیانیہ کی چاشنی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر افسوس اس بات کا ہے کہ سچ بولنے کی ان میںہمت نہیں ہوتی ۔یہ نہیں کہتے بھئی میں علامتی نظام سمجھنے سے قاصر ہوں۔میری اس قسم کی تربیت نہیںہوئی ہے ۔یا میرا ذہن اتنا پھرتیلا نہیں ہے ۔میرا ذہن الجھا ہوا ہے ۔مجھے اور نہ بھٹکائو۔
مجھے بس لڈو اوربرفی کھلاو ۔۔۔یعنی روایتی بیانیہ کی ہلکی پھلکی کہانیاں سناو۔
انتظار حسین کا افسانہ کایاکلپ، نیر مسعود کا شیشہ گھاٹ اور اس خاکسارکا دیوتا۔۔۔۔جیسے افسانے کیا روایتی اسلوب میں پیش کئے جا سکتے ہیں۔۔۔؟ میں کون ہوں ۔میرے ہونے کے ساتھ۔۔۔۔وہ دوسرا کون ہے ۔؟اور تیسرا جو ہوکر بھی نہیں جیسا ہے ۔کیا ہے یہ گورکھ دھندا۔۔۔۔۔۔۔؟ہر کوئی جاننا چاہتا ہے ۔فرد کیا ہے۔خواب ہے یاحقیقت ہے ۔۔۔یا کہ پرچھائی ۔۔۔۔مگرکس کی۔۔۔؟ ہرسوچنے والے ذہن کایہ سوال ہے ۔ایک قلم کار کا بھی ہو سکتا ہے ۔اب اس جاننے کے عمل کو نبھاتے ہوئے اُسے کئی مرحلوں اور تجربوں سے گزرنا پڑے گا ۔جنکو وہ اگر بیان کرنا چاہے تو روایتی بیانیہ میں بات کرنے سے بنے گی نہیں کہ معاملات (میں کون ہوں وہ دوسرا کون ہے ) پیچیدہ ہیںتجریدی ہیں اشاراتی اور مبہم سے ہیں ۔اسکے لئے بیانیہ بھی الگ ہی ہوگا۔حقیقت یہ ہے اِن تجربوں کو قارئین تک پہنچانے کے لئے سادہ سلیس روایتی بیانیہ نا کافی ہے ۔اس لئے وہ اشاراتی یعنی علامتی زبان کا سہارا لیتا ہے
لیکن مسَلہ قاری کا ہے۔جس کی تربیت ہی نہیں ہوئی۔۔۔ علامتی افسانہ پڑھنے پرکھنے اور سمجھنے کی۔۔۔۔۔۔کہ منشی پریم چند سے لے کر جدیدیت یعنی قریب 1960/کے دور تک افسانوی افق پر روایتی بیانیہ کاروں کی ہی اجارہ داری رہی ۔اجارہ داری سے مطلب بادشاہت ۔کہ چندبڑے اور اعلی ٰ حقیقت نگار ۔۔۔منٹو، بیدی ،عصمت چغتائی ،کرشن چندر۔۔۔وغیرہ پوری آب و تاب کے ساتھ افسانوی اُفق پر چھا گئے تھے۔اور قاریئن کی ایک بڑی تعداد کو متاثرکر گئے ۔بلکہ کہنا چاہئے بہا کر لے گئے اپنے ساتھ۔۔۔جس کا اثر آج بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔لیکن یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اس بڑے دریا کے ساتھ ہی ایک متوازی چھوٹی سی ندی بھی رواں تھی کچھ اہم علامت نگار بھی میدان میں آچکے تھے ۔جن میں انتظار حسین،بلراج مینرا،انور سجاد، سریندر پرکاش اور نیر مسعود ۔۔۔ ذکر کے قابل ہیں۔جنہوں نے اعلیٰ قسم کے علامتی وتجریدی افسانے لکھے۔جن میں معنی کی بوقلمونی بھی تھی۔خیال کی تازگی اور فنی چابکدستی و خوبصورتی بھی۔گو تعداد میں علامت نگار کم تھے ۔لیکن اہم تھے۔
ادارہ شب خون نے بھی جدید تر فکشن و شاعری کی ترویج وترقی کے لئے ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا کردیاجو جدیدیت کی تحریک کے لئے فال نیک ثابت ہوا اور نئے لوگ سامنے آگئے ۔احمدہمیش، حسین الحق،شوکت حیات،منشایاد،خالد جاوید وغیرہ۔۔۔( نام گننا میرا مقصود نہیں ) ۔ان حضرات نے اپنی چیدہ چیدہ اور عمدہ تخلیقات سے صحن علامتیت کوایک نئی زیبائش بخشی۔ایک نور سے منور کردیا۔ایک ممتاز فن بنادیا بلکہ علامت نگا ری کا رتبہ مزیدبلند کیا ۔پھر ایک رَو سی چلی۔۔۔۔اِس رواروی میں علامت کے نام پرخرافات سے بھی قاری کا سابقہ پڑا اور لکھے گئے عجیب قسم کے گنجلک،بے روح مبہم قسم کے ذہنی الھجاوے۔( افسانے)
جن میں فلسفہ تو تھا کرب ذات کا اظہار بھی تھا ۔زندگی کی بے کیفی اور تنہائی کا ماتم بھی ،تھانیم خام ہمکلامی بھی تھی۔۔مگرجو چیز مفقود تھی ۔وہ تھی افسانویت۔۔۔۔۔۔ افسانویت سے میری مراد واقعات کاتسلسل۔۔۔مختلف کڑیوں کی آپسی ہم آہنگی… روانی۔۔۔۔۔ کردار کی مرکزیت…اور تخلیق کی اثر پزیری وغیرہ
اس سے فن افسانہ گری کا متاثرہونا لازمی تھا ۔ایک اکتاہٹ سی پیدا ہوئی ۔عام قاری کیا بلکہ خاص قاری بھی علامتیت سے دور ہوگیا۔علامت بیزارہوگیا۔۔۔۔ یہاں کشمیر میں چونکہ یہ رَو تھی ہی نہیں۔اس لئے اِس پر بات بھی نہیں کی گئی۔ ہمارے اولین سربرآوردہ افسانہ نگار بلکہ شہہ سوار پریم ناتھ پردیسی قراردئے جاتے ہیں۔جنکے افسانے اپنے وقت کا آئینہ پیش کرتے ہیں ۔ خیر با ت یہاں
اسلوب کی ہورہی ہے ۔انہوں نے مشعلِ پریم چند(یعنی حقیقت نگاری کے اسلوب ) کو ہی گلے سے لگاکر افسانہ لکھنا شروع کیا۔جو بیسویں صدی کی عام روِش بھی تھی۔پھر یہی روایت یہاں پر پنپی۔جواں ہوئی اور قائم دائم رہی۔بلکہ تازہ دم افسانہ نگاروں کی نگارشات میں بھی عام طور پر حقیقت نگاری کی خوشبو ہی رچی بسی ملتی ہے۔البتہ کچھ فکشن نگار علامتی کہانیاں لکھنے پر بھی قادر ہیں۔ہمارے سینئر افسانہ نگار وحشی سعیدکا علامت برتنے کا ایک خاص انداز ہے۔زاہد مختار،ڈاکٹر ریاض توحیدی اور راجہ یوسف کے کئی علامتی افسانے میری نظروں سے گزرچکے ہیں۔یہ خاکسار بھی کئی دہائیوں سے علامتی افسانہ لکھ رہا ہے ۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیںکہ روایتی اسلوب میںلکھنا میںنے اپنے لئے ممنوع کر دیا ہے ۔ جی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا ماننا ہے ۔ہرایک تخلیق خود اپنا قالب لے کر آتی ہے ۔
خیر بات روایت پسندی کی چل رہی تھی۔ روایت ہماری ماں سہی۔ ماں کا احترام کرناسب پر واجب ہے۔لیکن اِس سے چمٹ کے رہنا کسی بھی طور سودمند نہیں ۔فن کی دنیا معجزوں کا نام ہے بیانیہ کے اور بھی کئی طریقہ کار ہیں۔۔۔ ۔علامتیت،تلمیح ،تخلیقی بدل ،تمثیل تجریدیت وغیرہ۔۔۔ بنی آدم کے اظہار کے وسیلہ ہیں ۔خوبیاں او رخوشبویئںسب کی جدا جدا ہیں۔۔۔۔۔۔
لغت میں علامت کا معنی نشان۔۔ مارک۔۔ سراغ۔۔۔ کھوج۔۔۔۔ اشارہ۔۔۔ کنایہ۔۔۔ تخلیقی بدل وغیرہ ہے ۔علامتی کہانی گویا وہ کہانی ہے۔جس میں نشانات کا سہارا لے کر بات اشاروں کنائیوں میں کی جاتی ہے ۔
a symbol is a thing ( word ) that represents some thing else
نور ۔۔۔فتح مندی ،کامیابی اور سچائی کی علامت ہے ۔جب کہ تا ریک رات ،سیاہ گھناابر ظلم مایوسی اور شکست کی نشاندہی کرتی ہے ۔علامتی کہانیوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اگر قاری وہ حقیقت نہ پائے جو کہانی کار نے بیان کی ہے مگر علامتوں کا تخلیقی برتاو اُسے مایوس نہیں کرے گا۔وہ سوچ کی لہروں پر چلتے ہوئے ایک اور گھاٹ پر تو ضرور پہنچ جائے گاکہ علامتی برتاو لفظ کو معنی کی پھوار سے بھر دیتا ہے۔علامتی افسانوںکی کئی پرتیں ہوتی ہیں۔علامتیں بیک وقت کئی اطراف میں دوڑتی نظر آتی ہیں۔مگر شرط یہ ہے کہ علامتیں تخلیقی ہوں۔انسانی وجدان کی پیداوار ہوں۔سوچ کر گڑھی ہوئی،،بلف گیم۔۔۔۔ذہنی گورکھ دھندا نہ ہو۔ ریت کا محل بنتا نہیں ہے۔جب کہ پتھروں اور اینٹوں سے بنایا ہوا قائم رہتا ہے ۔یہ بات بھی توجہ کے قابل ہے کہ علامت نگاری ٹکنیک محض نہیں،شعور کا ڈرامہ نہیں ، ذہنی فریب کاری نہیں ۔۔۔۔اور فلسفیانہ مکالمہ بازی بھی نہیں۔بلکہ یہ لاشعوری طلسمات و قدرتی نظام کا ایک حصہ ہے ۔کہ سارا نظام کائنات ہی علامتی ہے۔ لفظ خود ایک علامت ہے ۔ایک sign،اشارا ،ایک سراغ،ایک نشانی ۔۔۔جب کہ حقیقت اسکے باطن میں چھپے ہوئے مختلف معانی ہیں۔۔۔۔۔ علامت بھی اسی طرح کی ایک نشانی ہوتی ہے ۔حقیقت تک پہنچے کا ایک ذریعہ ہے ۔ایک code…ایک جھنڈا ۔۔۔۔ایک سمبل۔۔۔۔
حدیث قدسی میںہے۔ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاوُں ۔۔۔ اس لئے میں نے یہ عالم وجود میں لایا۔تخلیق کیا ۔گویایہ سارا منظر نامہ۔۔۔ زمین، آسماں،چاند سو رج وتارے، چرندپرند،درندے ،دریا سمندر، پہاڑ، بیاباںدرخت پھول و نظارے ۔۔۔۔سب محض نشانیاں ہیں۔خالق کائنات کے ہونے کے اشارے ہیں ۔قدرتیں ہیں۔ اور تخلیق کا تاج آدم بھی ایک نشانی قدرت (علامت ) ہی ہے۔
تو پھر دوستو۔۔۔۔علامت بیزاری کیوں ۔؟
علامتیت سے الجھن کیوں ۔؟
( میری خاکسارانہ رائے میں ) علامتیت سے ادب عالیہ میں توانائی تازگی اور ہمیشگی قائم ہے۔یاد رہے یہ بھی میں نہیں کہتا ۔۔۔روایتی بیانیہ کم اہمیت کا حامل ہے ۔ہم اگر غور کریں تو پائیں گے۔ زندگی اپنی گہرائیوں میں ایک طلسماتی چکرہے ۔ایک اَن بوجھی پہیلی ہے ۔ایک الجھا ہوا سوال ہے۔جسکو حقیقت میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔اسکو بیان کرنے کے لئے زبان بھی طلسماتی اور معجزاتی ہو نی چاہئے۔علامت نگاری کسی حد تک یہ فریضہ انجام دینے میں کامیاب ہے ۔اور دوسرے اسالیب کے ساتھ ساتھ علامت نگاری کی اپنی ایک اہمیت اور افادیت ہے۔اسے کم آنکنا کج فہمی کی دلیل ہے ۔۔۔۔!
۰۰۰
مدینہ کالونی۔ملہ باغ ۔حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053