مولانا محمد عبدالحفیظ
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، تمہارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے ، انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناو۔اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔
جب تم نماز کیلئے منادی کرتے ہو تووہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے۔ (سورہ مائدہ ، آیات 57تا58)
پہلی آیت مبارکہ میں اللہ تبارک تعالیٰ یہ ارشاد فرماتے ہیںکہ اے میرے ’’ایمان والے‘‘ بندو دیکھو! تم ان اہل کتاب اور کافروں کو اپنا رفیق نہ بناو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے تفریح کا ذریعہ بنالئے ہیں۔
پھر آگے دوسری آیت کریمہ میں ان منکرین حق اور دین کا مذاق اڑانے والوں کی کیفیت بیان فرمائی جارہی ہے کہ دیکھو جب تم لوگ نماز کیلئے منادی (اذان) کرتے ہوتو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں اور ان کے اندر یہ جو کیفیت پائی جارہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عقل نہیں رکھتے۔
دین کا مذاق اڑانے والے
دین اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی مقبول ہے۔جو اہل ایمان مخلص بندے ہوتے ہیں اسی دین اسلام سے محبت کرتے ہیں اور اپنی جان سے زیادہ اسے عزیز رکھتے ہیں۔ لیکن جوبندے اللہ کے باغی ہوتے ہیں یہ دین اسلام سے نفرت کرتے ہیں ان میں یہود و نصاری اورمشرکین سب شامل ہیں۔ یعنی ان کی دین اسلام سے نفرت و عداوت کی یہ دلیل ہے کہ یہ لوگ دین اسلام کا استہزا کرتے ہیں اور دین داروں کے طرز عبادت، معاشرت کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنے لئے تفریح وکھیل کا سامان فراہم کرلیتے ہیں۔ حالانکہ یہی دین اللہ کو پسند و قبول ہے۔ جس کی تعلیم قرآن مجید دیتا ہے اور جس کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو بتاتے ہیں۔ اب اس طرح جو کوئی اس دین کا مذاق اڑاتا ہے حقیقت میں اللہ کی پسند کا مذاق اڑاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی پسند کا مداق اڑانے والے ظالموں سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے فرمانبردار بندوں (اہل ایمان ) کو بھی تاکید فرما رہے ہیںکہ ’’اے ایمان والے‘‘میرے بندو دیکھو! تمہارے لئے میں نے جس دین کو پسند کیا ہے، اس کا مذاق اڑانے والوں کو اپنا دوست نہ بناو کیونکہ تمہارے دین اسلام کا مذاق اڑانے والے نہ تو تمہارے دوست ہوسکتے ہیں اور نہ ہی رفیق بن سکتے ہیں۔ دیکھو خبردار ہوجاو کہ (یہ غیرت ایمانی کا تقاضا ہے کہ ) تم اس طرح کے بد بختوں سے دوستی نہ کرنا ،رفیق نہ بنانا۔ اگر تم مومن ہوتواس معاملہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے۔
بے حمیتی پر تمہارا ایمان سلب نہ ہوجائے
مولانا امین احسن اصلاحی مد ظلہ اس سلسلہ میں لکھتے ہیںکہ :
’’جو لوگ تمہارے دین کا مداق اڑاتے ہیں آخر کس دل و جگر سے تم ان کو دوست بناتے ہو؟ اس کے بعد نہایت سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی کہ اللہ سے ڈر و اگر تم مومن ہو ،یعنی اگر تم سچ مچ ایمان کا دعوی رکھتے ہو تو خدا سے ڈرو کہ اس بے حمیتی پر تمہارا ایمان نہ سلب ہوجائے اور خدا کاغضب نہ نازل ہوجائے۔ (تدبر قرآن ، جلد دوم ،ص 550)
اذان کی آواز اور اس کا مذاق
مضمون کے آغاز میں جو آیات پیش کی گئی ہیں اول اس میں یہ بیان ہوا کہ ’’اے ایمان والو‘‘ تم ان لوگوں کو اپنا دوست و رفیق نہ بناو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن دوسری آیت میں اس بات کی نشاندہی ہورہی ہے کہ یہ لوگ کس طرح مذاق اڑاتے ہیں۔ فرمایا۔
وَإِذَا نَادَیْ تُمْ إِلَی الصَّلاَۃِ اتَّخَذُوہَا ہُزُواً وَلَعِباً
ترجمانی: جب تم نماز کیلئے منادی (اذاں ) کرتے ہوتو وہ اس کا مذاق اڑاتے اور اس سے کھیلتے ہیں
پہلی آیت مبارکہ میں ایک عمومی بات بتائی گئی تھی کہ دین کا مذاق اڑانے والوں سے دوستی نہیں کرنی چاہئے لیکن آیت مذکوہ میں یہ بتایا جارہا ہے کہ ان یہود و نصاری و مشرکین کی ، دین اسلام کا مذاق اڑانے کی یہ انتہا ہے کہ اذان جیسی چیز کو یہ لوگ کھیل سمجھتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں جبکہ تم (اہل ایمان) اس کے ذریعہ (میری عبادت کی اعلیٰ ترین شکل ) نماز کیلئے لوگوں کو بلاتے ہو۔
رسالتؐ کی گواہی اور جھوٹے کا انجام ِبد
موذن جو اذان دیتا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی و کبریائی بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے الاواحد ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ یعنی کائنات میں اگر سب سے بڑی ہستی اگر کوئی ہے تو صرف اور صرف اللہ ہی کی ذات ہے جو بلا شبہ کسی شرکت غیر ساری کائنات کا خالق ، مالک ہے اور ا س کے سوا کوئی اس کا مالک نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ موذن یہ بھی کہتا ہے ’’اشھد ان محمدا رسول ؐ ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں ’’محمد ‘‘ اللہ کے رسول ہیں۔ یعنی یہ اس بات کا اعلان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں جن کی تعلیمات میں تمام انسانوں کیلئے ہدایت پانے اور سیدھی راہ اختیار کرنے کیلئے واضح احکام موجود ہیں جس پر عمل کرنے سے انسان دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کو یقیناً پاسکتا ہے الحمد للہ اس پر ہر اہل ایمان شخص کا ایمان ہے لیکن جو اسلام دشمن لوگ ہوتے ہیں اوپر بیان کئے گئے کلمات کو جھٹلاتے ہیں اور جو لوگ مشرک ہوتے ہیں اس طرح کے کلمات (توحید باری تعالیٰ) کا انکار کرتے ہیں اور اذان کے یہ الفاظ ان کے کانوں پر گراں گزرتے ہیںکیونکہ اذان میں ادا کئے جانے والے الفاظ، باطل افکار و خیالات ، عقیدہ عمل کا رد کرتے ہیں۔
مدینہ شریف میں ایک نصرانی تھا اذان کی آواز اس کے کانوں پر گراں گزرتی تھی۔ اور یہ ظالم، اللہ کے آخری نبی و رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا منکر تھا اور جب کبھی اذن میںآپ صلی الہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی سنتا تو گواہی دینے والے (موذن ) کو بدعا کرتا لیکن اللہ تبارک تعالیٰ نے اس کی بدعا کو خود اسی کے حق میں قبول فرماتے ہوئے اس بدعا میں اس کو گرفتار کردیئے۔ تفصیل درج ذیل ہے۔
بحوالہ ابن ابی حاتم، تفسیر مظہری میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ
مدینہ طیبہ میں ایک نصرانی تھا، وہ جب اذان میں ’’اشھد ان محمداً رسول اللہ‘‘ کا لفظ سنتا تو یہ کہا کرتا تھا (احرق الکاذب ) یعنی جھوٹے کو اللہ تعالیٰ جلا دے ،آخر کار اس کا کلمہ ہی اس کے پورے خاندان کے جل کر خاک ہوجانے کا سبب بن گیا ، جس کا واقعہ یہ پیش آیا کہ رات کو جب یہ سو رہا تھا اس کا نوکر کسی ضرورت سے آگ لے کرگھر میں آیا اس کی چنگاری اڑ کر کسی کپڑے پر گر پڑی اور سب کے سوجانے کے بعد وہ بھڑک اٹھی اور سب کے سب جل کر خاک ہوگئے۔
(معارف القرآن ، جلد سوم ،ص 180تا 181)
دین کا مذاق اڑانا بے عقلی کی دلیل ہے
آیت مبارکہ کے ختم پر فرمایا گیا کہ
’’ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْقِلُون‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے یعنی دین حق کے ساتھ اس تمسخر و استہراء کی وجہ اس کے سواء نہیں ہوسکتی کہ یہ لوگ بے عقل ہیں۔
دنیوی امور میں اہل کتاب کی عقل مشہور و معروف
ہم دیکھتے ہیں کہ دنیوی امور میں اہل کتاب کی عقل مشہور و معروف ہے یعنی سائنسی، تکنیکی اور آلات حربی کے میدان میں یہ قوم ساری دنیا میں امام بنی ہوئی ہے لیکن اللہ تبارک تعالیٰ جوکہ عالم الغیب ہے ، اس قوم (یہود و نصاری ) کو جو دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں ’’بے عقل فرمایا ہے‘‘ اس سلسلہ میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں۔ ’’اللہ تعالیٰ نے ان کو بے عقل فرمایا ہے ، حالانکہ امور دنیا میں ان کی عقل و دانش مشہور و معروف ہے ،اس سے معلوم ہوا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی انسان ایک قسم کے کاموں میں ہوشیار عقلمند ہو مگر دوسری قسم میں یا وہ عقل سے کام نہیں لیتا یا اس کی عقل اس طرح چلتی نہیں، اس لئے اس میں بیوقوف لا عقل ثابت ہوتا ہے، قران کریم نے اسی مضمون کو دوسری آیت میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ ترجمہ یعنی یہ لوگ دنیا وی زندگی کی سطح امور کو تو خوب جانتے ہیں، مگر انجام اور آخرت سے غافل ہیں۔
حضرت مولانا مودودیؒ اس سلسلہ میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ۔
۱۔ یعنی اذان کی آواز سن کر اس کی نقلیں اتارتے ہیں، تمسخر کیلئے اس کے الفاظ بدلتے اور مسخ کرتے ہیں اور اس پر آوازکستے ہیں‘‘۔
۲۔ یعنی ان کی یہ حرکتیں محض بے عقلی کا نتیجہ ہیں۔ اگر وہ جہالت اور نادانی میں مبتلا نہ ہوتے تو مسلمانوں سے مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجود ایسی خفیف حرکات ان سے سرزد نہ ہوتیں۔ آخر کون معقول آدمی یہ پسند کرسکتا ہے کہ جب کوئی گروہ خدا کی عبادت کیلئے منادی کرے تو اس کا مذاق اڑایا جائے۔ (حوالہ تفہیم القرآن ، جلد اول ،ص 483 ،حاشیہ 89۔90)
حاصل کلام
آیات مبارکہ کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ چاہے وہ یہودی ہوںکہ نصرانی یا دیگر مشرکین اگر وہ دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہوں یا اس سے کھیل اور دل لگی کرتے ہوں تو ان لوگوں سے دوستی نہیں رکھنی چاہئے بلکہ ترک تعلق کرنا چاہئے۔
علاوہ ازیں اگر کوئی شخص نماز، اذان یا دین اسلام کی کوئی چیز کا تمسخر کرتا ہے ہنسی و کھیل کرتا ہو تو ایسے شخص سے دوستی و رفاقت ترک کرنا چاہئے یا پھر کسی محفل میں یا کسی مجلس میں دین اسلام پر رکیک حملے کئے جارہے ہوں یا اس کا استہزا کیا جارہا ہے ہو تو ایسے موقع پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا معقول جواب دیاجائے گا اگر ایسا نہ کرسکتے ہوں تو پھر اس طرح کی محفل و مجلس سے فورا اٹھ جانا چاہئے کہ یہ ایمان کی حمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ایسی جگہ جہاں دین کا مذاق اڑایا جائے اور ہم بیٹھے رہیں؟
فون نمبر۔ 9849099228
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیںا ور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)