قیصر محمود عراقی
تر قی اور خوشحالی کے حصول کے لئے تیز رفتار ی سے مسلسل دوڑتے انسان جب سے محبت ، چاہت اور احساس کی جمع تفریق شروع کی ہے ، سماجی زندگی مادیت کی تر قی کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے ۔ رشتے ناطوںکا تقدس اور باہم غم و خوشیاں نفع نقصان کی شرح سے بانٹی جا رہی ہیں ۔ معاشی و معاشرتی اونچ نیچ نے ایک ہی کو کھ سے جنم لینے والوں کے خلوص اور حُسن خلق میں کٹھور پن پیدا کر دیا ہے ۔ آسائشوں اور تعیشات کو ضروریات زندگی کا نام دے کر مشینی زندگی نے اخلاقی و خاندانی اقدار میں صبر و قناعت ، ایثار و قربانی ، محبت و رواداری اور رشتے ناطوں میں خون کی مٹھاس کو کڑواہٹ میں بدل دیا ہے، مذہبی اور اخلاقی روایات کی بناپاسداری کے راتوں رات امیر بننے کے جنون نے آدمی کو آدمیوں کی بھیڑ میں تنہا کر دیا ہے، بہت کچھ پا لینے کی خواہش اور کچھ کھو جا نے کے خوف نے انسان کو خود دور کر دیا ہے ،خلاقی و خاندانی اقدار کے زوال میں نفرتوں نے محبتوں کو مات دے دی ہے ،معاشی و معاشرتی آسودگی کے حصول کی دوڑ میں انسان اپنی اُن روایات و اقدار کو ہر سنگ میل کے نیچے دفن کر تا چلا آ رہا ہے جن کی بنا پر انسان کو مخلوقات عالم میں اشرف المخلوقات کا خطاب ملا تھا ۔
ایک وقت تھا جب دوسروں کے کام آنا ، دکھ درد باٹنا، اپنا فرض اور عبادت سمجھا جا تا تھا ، ذات برادری یا خاندان میں اگر کوئی ایک فرد معاشی طور پر آسودہ حال ہو جا تا تو وہ اپنے عزیزی رشتہ داروں کو اپنی آسودگی کی معرفت فائدہ پہنچاتا تھا ۔ اگر کوئی اعلیٰ عہدے دار بنتا تو اپنے پیاروں کے لئے وسیلہ روزگار بننے کی کوشش کر تا ۔ اگر بیرون ملک بہتر روزگار میں کا میاب ہو جا تا تو دیگر عزیز رشتہ داروں کے لئے بھی کا میابی کی راہ ہموار کر تا تھا ۔ اول رشتہ داروں کی محبت و معاشی بھلائی کے اصول کی بنا پر خاندان سے باہر شادی کر نا معیوب سمجھا جا تا تھا ، امیر بھائی اپنے بیٹے کی شادی غریب بھائی کی بیٹی سے کر نے کو تر جیح دیتا تھا، اگر کسی بہن بھائی یا پھر کسی بھانجے بھتیجے میں معاشی اعتبار سے کمی رہ جا تی تو اس کو بنا احسان جتائے ہم پلہ بنانے کے لئے خاندانی طور پر مشترکہ اقدامات کئے جا تے تھے ۔
اسی طرح محلے میں کسی کے گھر شادی کا موقع آتا تو پورا محلہ تیاریوں میں مصروف ہو جا تا تھا ، محلہ دار کی بیاہی جا نے والی بیٹی کو پورا محلہ اپنی سگی بیٹی کی مانند رخصت کر تا تھا ، شادی والے گھر میں دور دراز شہروں اور دیہاتوں میںرہنے والے رشتہ داروں کو کئی کئی ہفتہ قبل مدعو کیا جا تا اور محلہ داروں کی بیٹھکوں میں مہمانوں کی رہائش چائے پانی کا اہتمام اور رات رات بھر گپ شپ کے سلسلے کا بندوبست کیا جا تا تھا، شادی کے موقع پر گلے، شکوئوں اور رنجشوں کو ختم کر تے ہو ئے محبت کی شمع سے قربتوں میں روشنی پھیلائی جاتی تھی ،رشتہ داروں کا تعارف والدین اپنے بچوں سے رشتوں ناطوں کے تقدس کی اہمیت کو اُجاگر کر تے ہو ئے کراتے تھے کہ تعلقات کا یہ سلسلہ آئیندہ نسلوں میں موتی کی مالا بن کر جڑا رہے ۔
لیکن ماضی کے بر عکس آج شادی بیاہ میں ، عید ملن پارٹیاں ، سالگرہ اور دعوتوں پر نفع نقصان کا جائزہ لے کر دعوت ناموں کی تقسیم کی جا تی ہے ۔ لہو کے سنگ سے زیادہ معاشی مفادات کے حامل باعث ِ افتخار ہستی کو دعوت نامہ دیا جا تا ہے ۔ اپنا کوئی عزیز رشتہ دار دوسرے شہر یا گائوں میں بیمار ہو تو عبادت کے لئے جا نے کی بجائے بذریعہ موبائل فون یا واٹس اپ پر حال احوال دریافت کر لیا جا تا ہے ۔ ایک ہی شہر میں کوئی رشتہ دار اسپتال میں داخل ہو تو کوئی نہیں پوچھتا کہ علاج معالجہ کے لئے پیسے بھی ہیں یا نہیں ۔ مریض کے پاس رات کو کون ٹھہرتا ہے ؟ دوا کو ن لا تا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔بس مریض کے پاس چکر لگا کر تھوڑے بہت پھل اور پھول چھوڑ کر جلدی سے جان چھُرانے کی کوشش کی جا تی ہے ۔ دوسرے شہر میں رشتہ داروں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شر کت سے کتراتے ہو ئے موبائل فون پر اپنی مصروفیت اور وقت کے نہ ہو نے کا رونا روکر معذرت کے بے جان الفاظ سے جان چھڑا لی جا تی ہے ۔ خود نمائی اور اسٹیٹس کی بیماری کی وجہہ سے امیر بھائی اپنے غریب بھائی سے ملنے سے کترانے لگاہے ، حتیٰ کہ غریب باپ کا امیر بیٹا اپنے باپ کی کمتر سماجی حیثیت پر شرمسار نظر آتا ہے ۔ امیر بہن بھائیوں کے بچے اپنی غریب خالہ ، ماموں یا چچا کے یہاں جا نے یا اُن سے تعلق قائم رکھنے میں شرم محسوم کر نے لگے ہیں ۔ غریب بہن بھائیوں کے بچوں کی شادی اپنے امیر کزنوں سے نہیں ہو سکتی خواہ تعلیمی اور اخلاقی اعتبار سے غریب کزن کتنے ہی ارفع و قابل کیوں نہ ہو ۔
ایک طرف ہماری ثقافتی اور معاشرتی قدریں روز بروز دم توڑ رہی ہیں تو دوسری جانب تجسس ، حسد ، لالچ ، بناوٹ ، دکھاوا، امرا کے فیشن کی اندھا دھند تقلید کر کے اپنے سے غریب لوگوں پر رعب ڈالنے کی جبلتیں ہمارے قومی مزاج کا لازمی حصہ بن چکی ہیں ۔ دوسروں سے نمایا ں یا پھر ان جیسا نظر آنے کی کوشش میں ہماری قوم کے مزاج میں طبقاتی کشمکش اور تضادات کی راہیں ہموار کر لی ہیں ۔ یہی وجہہ ہے کہ ہماری مزاجوں میں ٹھہرائو نہیں رہا بلکہ ہمارے مزاجوں میں جارحیت کا عنصر غالب آنے لگا ہے ۔ جارحیت کا یہی عنصر جرائم ، معاشی و معاشرتی برائیوں کا موجب اور اخلاقی اقدار کا قاتل بن رہا ہے ۔ ہر معاشرے کے لوگوں میں فیشن کے پیچھے دیوانے ہو نے اور خود کو نمایا کر نے کے لئے نت نئے طریقے اختیار کر نے کا جنون ہو تا ہے ، لیکن وہ فیشن کے ساتھ ساتھ معاشرتی اقدار کو قائم رکھتے ہو ئے ملکی تعمیر و ترقی کے عمل کو ساتھ ساتھ جاری رکھتے ہیں ، جبکہ ہمارے یہاں لوگوں میں کسی فیشن کے اپنانے کی جب جنونی لہر چلتی ہے تو وہ فقط اندھا دھند تقلید کا روپ اختیار کر لیتی ہے ۔ جوا اور سٹہ کے چکر میں لوگوں نے اپنے گھر کا قیمتی سامان اور زیورات بیچ کر راتوں رات امیر بننے کے لالچ میں ہزاروں روپئے اُڑا دیئے ۔یوں بن محنت کے امیر بننے کے فیشن نے بہت سے گھر اجاڑ دیئے ، لوگوں کو کنگال کر دیا اور بہتوں کا رہا سہا کاروبار بھی تباہ ہو گیا۔
آج جس گھر میں بڑی سائز کی LCD، ہاتھوں میں مہنگا اسمارٹ فون ، لیپ تاپ اور کیبل کنیکشن نہیں اسے معاشرہ عزت دینے کو تیار نہیں ، اسی نفسیاتی کمپلکس میں پوری قوم کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے ۔ سفید پوشی اور دکھاوا کلچر کے بھرم کو قائم رکھنے کے لئے جس کے پاس اپنی چادر کے مطابق سائیکل ہو نی چاہیئے تھی اس نے کار رکھی ہو ئی ہے ، حالانکہ کے موٹر سائیکل اور کار کے اضافی اخراجات نہ صرف اس شخص کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں محبت ، رشتوں کے تقدس، جذبوں اور احساسات کو بے حس کر دیا ہے ۔ آج ہر شخص اپنے ہی پیدا کر دہ معاشی تفکرات کا شکار ہو کر چڑ چڑا ہو گیا ہے ، اگر چہ موجودہ دور میں ہر شئے روپئے ، پیسے اور سماجی حیثیت کے ترازو میں تولی جا نے لگی ہے اور مندرجہ بالا بے اعتنائیوں اور لا پر واہیوں نے ہماری سماجی زندگی میں اخلاقی اور خاندانی اقدار کو گر ہن زدہ کر دیا ہے تاہم ان سب باتوں کے باوجود ہمارے معاشرے میں آج بھی ماں باپ ، بھائی اور عزیز رشتہ داروں کا تقدس ابھی بھی قائم ہے ۔ شکر الحمد اللہ !
رابطہ ۔کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی ، کولکاتا ۔58
موبائل نمبر۔ 6291697668