عادل نصیر
بارش
ٹپ ٹپ برستے پانی میں بھیگ رہی نادرہ کو بارش بہت پسند تھی۔ بارش کی بوندوں سے مٹی کی مہکتی خوشبو اسکے بے جان دل میں شادمانی کی کلیاں کھلا دیتی۔ چھتیس برس سے وہ ہمیشہ بارش کا انتظار کرتی اور جب بھی موقع ملتا وہ خود کو بھگو کر خوشی کے ہزاروں چمنستان آباد کرتی۔ آج بھی وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے آنکھیں بند کئے آسمان کی طرف منہ کئے بارش کی بوندوں کو اپنے دل کا راستہ دکھا رہی تھی کہ اچانک اس کی چھ سالہ بیٹی کی چیخ نے اسے چونکا دیا۔ اس کی بیٹی اپنی ماں کو دیکھ کر رو رہی تھی ۔ نادرہ نے جب سامنے کھڑکی پر لگے آئینے میں خود کو دیکھا تو وہ لہو لہان ہوچکی تھی۔نادرہ نے آسمان کی طرف دیکھا تو یہ بارش خون کی بارش تھی، آسمان لہو برسا رہا تھا۔
نشہ
اسلم صاحب آج بڑے دنوں کے بعد منشیات فروخت کرنے والے ایک بڑے گروہ کو گرفتار کرکے خوشی خوشی گھر لوٹ رہے تھے۔ انسپکٹر صاحب نے جب دیر رات گھر کا دروازہ کھولا تو برآمدے میں ان کی بیگم روتے روتے اوندھے منہ پڑے لخت جگر کو اٹھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔
فیصلہ
سات سال سے چلتے آرہے قتل کے مقدمے کا فیصلہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے آج حامد کے حق میں آیا تو اس نے مٹھائی کا بڑا ڈبہ لے کر گھر کا رخ کیا۔ گھر میں اس کی چار سالہ معصوم بچی نے مسکراہٹ سے باپ کا استقبال کیا اور مٹھائی پر جھپٹا مار کر باپ کی گود میں بیٹھ گئی اور معصومیت سے اپنے باپ سے پوچھا :
“ابا ۔۔۔ کیا آپ مجھے بھی اماں کی طرح جلا دو گے”۔
ہندوارہ،[email protected]>