ابو نعمان محمد اشرف بن سلام
کائنات میں حق و صداقت کے علمبرداروں کو مصائب اور دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے اوردعوت حق کی صدا جب بھی بلند ہوتی ہے تو باطل اس کو دبانے کی کو شش کرتا رہتا ہے ۔اگر چہ وہ وقتی طور کامیاب بھی ہوجاتا ہے مگر یہ اس کیلئے گمنامی اور موت بن جاتی ہے۔میدان کربلا میںجہاں پر ایک طرف سیدنا حسین ؓحق پرست اور دوسری طرف خود کوطاقتور حکمران کہنے والے یزید ظالم تھا۔ان دو خیالات نے دنیا کو ایک سوچ وفکر دی کہ حق کا ساتھ دیا جائے یا وقتی طاقت کی پیروی کی جائے۔
نواسہ سردار ابنیائِ ﷺسیدنا حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فلسفہ شہادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف یزید کا فلسفہ اوردوسری طرف امام حسین ؓ کا فلسفہ ہے۔ اسی فلسفہ کی بناء پر سیدنا امام حسینؓکے نظریہ و فلسفہ کو ’’حسینیت‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور یزید کا فکر و فلسفہ ’’یزیدیت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔واقعہ کربلا کے اس پس ِ منظر میں یزید کی سوچ یہ تھی کہ طاقت ہی حق ہے یعنی جس کے پاس طاقت ہے وہ حق پر ہے اور اسی کی پیروی اور تابعداری کی جائے اور اسی سے سمجھوتہ کر کے اس کا ساتھ دیا جائے۔یعنی طاقت کی تائید کرکے زندگی گزاری جائے۔یزید کے اس فلسفے کے برعکس سیدنا امام حسین ؓ کا فلسفہ اور سوچ یہ تھی کہ طاقت حق نہیں بلکہ حق ہی طاقت ہے۔اس لئے طاقت کے سامنے نہ جھکاجائے اور نہ ہی اس کا ساتھ دیا جائے، بلکہ حق کا ساتھ دیا جائے۔ حق کا ساتھ دیتے ہوئے اگر طاقتور حق کے علمبرداروں کو کچل بھی دے، پھر بھی خسارے کا سودا نہیں بلکہ اس صورت میں راہِ حق کے مسافر زندہ و جاوید ہوجاتے ہیں۔
انہی دو فلسفوں کی فکر نے عالم ِ انسانیت کو یہ بات سمجھادی کہ میدان کربلا میں نواسہ سردار ابنیائِ ﷺسیدنا حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوکر بھی زندہ ہیں، جبکہ یزید حکمران رہ کر بھی مردہ ہوگیاہے ۔سیدنا حسینؓ کا سر مبارک تیر کی نوک پر چڑھ کر بھی جیت گیااور یزید حکمران رہ کر بھی ہارگیا۔یعنی شہادتِ حسین ؓ نے ہار اور جیت کا مفہوم ہی بدل دیا۔سیدنا امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور یزید کی سوچ میں واضح فرق نظر آتی ہے کیونکہ یزید ظالم وجبر کا نام ہے۔ جبکہ امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ انسانیت کا نام ہیں۔ یزیدجبر اور خیانت جبکہ حسین ؓ امانت،عدل اورصبر کی علامت ہیں۔ ان دو کرداروں میں یزید باطل کا نام تھا اور سیدنا حسین ؓ حق کانام ہیں۔اسی وجہ سے نظام یزید ظلم و جبر، خیانت ٹھہری اور اس کے برعکس صبر، عدل، امن اور انسانیت کی خوشبوحسینیت قرارپائی۔
یزید ی حکومت نے اسلام کی تاریخ سے انحراف کر کے نظامِ خلافت کے اقدار کو پامال کردیا۔ اس نے اپنی حکومت بچانے کیلئے پورے خانوادہ رسول ﷺکوشہید کروادیا ۔ یزید نے اْس نظام حق کو بہت حد تک تبدیل کرنی کی کوشش کی جس کی بنیاد خود پیغمبر نقلاب ﷺ نے رکھی ہے اور اس نظام کو نبی محترم ﷺ کے بعد خلافت ِراشدہ کی صورت میںایک عروج و کمال حاصل ہے۔
نواسہ رسول ئِ ﷺسیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یزید کے اقتدار کو تسلیم نہیں کیا، اس کے خلاف اٹھے اور یزید کے حکم پر شہید کرویائے گئے۔یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سیدنا حسین ابن علیؓ یزید کے خلاف اس لئے نہیں اٹھے تھے کہ وہ ایسے کام کرواتے تھے جو اسلام کے منا فی تھے،سیدنا حسینؓ خلافت کے اس معیار کو قائم رکھنا چاہتے تھے جو پیغمبر اسلام ؐکے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علی رضوان اللہ تعالی کی محنت، ایثار، قربانی اور جرت و حوصلہ کی بدولت قائم ہواتھا ۔اس لئے سیدنا حسینؓ کو اس میں کمی گوارا نہ ہوئی اور اسی طرز خلافت اور مزاجِ حکمرانی کو باقی رکھنے کیلئے سیدنا حسین ؓ نے بیعت نہ کی اوراسی راہ عزیمت میں اپنے خاندان اورجانثار ساتھی سمیت جام شہادت نوش کرکے حیات جاویداں کی سعادت پا ئی۔
معرکہ کربلا نے ایک تاریخ رقم کی جس کی مثال تاریخ عالم میں کہی نہیں ملتی ہے جو ہمیشہ دیکھتی آنکھوں ، سنتے کانوں کیلئے حق و باطل، اندھیرے اور اجالے میں فرق کرتی رہے گی اور یزید کا تذکرہ ہمیشہ ایک ظالم اور جابر حکمران کی طرح ہوتا رہے گا۔ دوسری طرف اسی میدان کربلا میںحق و صداقت کے علم بردار نواسہ رسولﷺسیدنا حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عمل سے ایک ایساشمع روشن کیا جس کی روشنی سے روزِ آخرت تک حق پرستوں کے قافلے آگے بڑھتے رہیں گے۔
رابطہ۔اوم پورہ ،بڈگام کشمیر
رابطہ نمبر۔9419500008
مضمون میںظاہر کی گئی آراء ان کی خالصتاً اپنی ہیں اور ان کو کشمیر عظمی سے منسوب نہیںکیاجاناچاہئے۔