زاہد بشیر
گول//’’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق سکولوں کی حالت بہتر بنانے کی بجائے مزید ابتر ہورہی ہے۔ ضلع رام بن کے سمڑ داسا علاقہ کی گورنمنٹ پرائمری سکول کی عمارت انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے ، عمارت کے دروازے نہیں، چھت اکھڑی ہوئی،دیواریں بوسیدہ ،پینے کے صاف پانی کا کوئی انتظام نہیں، بیت الخلاء کا کوئی انتظام نہیں۔سکول کی حالت خستہ ہونے کے باعث مقامی آبادی کو ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کسی بھی وقت سکول کی خستہ حال عمارت زیر تعلیم طلباء کے اوپر گر کر کسی بڑے سانحہ کا باعث نہ بن جائے۔جاوید احمد نامی ایک مقامی شخص نے کہا کہ پرائمری سکول داسہ کی حالت اِس قدر ابتر ہے کہ کوئی دلیر بڑے دل والا انسان بھی پانچ منٹ کیلئے اِس سکول کے اندر بیٹھ نہیں سکتا ہے لیکن ہمارے مستقبل کو اِس خستہ حالی عمارت کے اندر گویا موت کے سائے میں مجبوری سے بیٹھنا پڑ رہا ہے۔
ایک کلو میٹر دور جا کر بچے اپنی پیاس بجھا کر آتے ہیںلیکن علم کی جو پیاس اْنہیں یہ سب مصیبتیں سہنے کیلئے مجبور کر رہی ہے وہ پیاس بس پیاس ہی رہ جاتی ہے۔ انہوںنے کہا کہ تھوڑی سے بوندا باندی یا معمولی آندھی آنے پر بھی اساتذہ بچوں کو گھر بھیج دیتے ہیں جس وجہ سے سکول میں زیر رتعلیم طلباء کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے۔چھوٹے چھوٹے بچے جو اِس سکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ہمارا سرمایہ ہے اور آنے والے وقت میں یہی بچے ہمارے خوابوں کو شرمندہ ٔ تعبیر کر سکتے ہیںلیکن جس مشکل اور کٹھن حالات میں ہمارے یہ معصوم بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اْس سے ایسا لگ رہا ہے کہ دور دور تک کہیں کوئی نوید ِ سحر نظر نہیں آرہی ہے۔ سکول عمارت کی تباہ حالی پر محکمہ متعلقہ کی مجرمانہ خاموشی سے جہاں طلباء کا مستقبل دائو پر لگا ہے وہیں مقامی آبادی محکمہ متعلقہ کے اِس راویے سے انتہائی مایوس اور پریشان ہے ۔جاوید احمد کا کہنا تھا کہ سکول میں نہ کوئی دروازہ ،طلباء کیلئے بیٹھنے کیلئے جگہ نہیں،ٹاٹ یا چٹائی کا کوئی انتظام نہیں،چھت اکھڑی ہوئی، دیواریں بوسیدہ ہیں ، یوں کہا جائے کہ اسکولی عمارت نہیں مویشی خانہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔قابل ِ ذکر ہے کہ محمد یوسف نامی مقامی باشندہ جس نے اسکول کیلئے اراضی دی تھی کا کہنا ہے کہ 2009میں اسکول کی عمارت تعمیر کی گئی تھی جبکہ 2012میںعمارت گر گئی تھی اْس کے بعد ہم نے متعلقہ زونل ایجوکیشن آفیسر،متعلقہ چیف ایجوکیشن آفیسر اور ضلع ترقیاتی کمیشنر رام بن سے کئی بار التجاء کی کہ سکول کی حالت کو سدھارا جائے علاوہ ازیں معاوضہ دیا جائے لیکن اْس وقت جو معاوضہ بنایا گیا تھا کہ وہ ٹوٹل رقم 4لاکھ چالیس ہزار بناتھا لیکن اْس میں سے محکمہ نے صرف دولاکھ چالیس ہزار معاوضہ دیا ہے جبکہ باقی دو لاکھ معاوضہ ابھی تک بھی نہیں مل رہا ہے اور نہ ہی سکول کی خستہ حالت کو سدھارا جا رہا ہے۔محمد یوسف کا کہنا تھا کہ تعلیم کے نام پر بچوں کیساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے ،سکول میں بچوں کا بیٹھنا خطرے سے خالی نہیں ہے کیونکہ سکول عمارت کی حالت انتہائی ابتر ہے جو کسی بھی وقت کسی بڑے حادثہ کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے گورنر انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ جلداز جلد سکول کی حالت کو سدھارا جائے تاکہ طلباء کا مستقبل مخدوش ہونے سے بچ جائے ۔