یو این آئی
سری نگر// جموں وکشمیر پولیس نے جمعے کے روز بتایا کہ سری نگر میں سرگرم بھتہ خوری اور بلیک میلنگ میں ملوث ایک شاطر گروہ کو بے نقاب کرکے خو د ساختہ نامہ نگار، نقلی پولیس آفیسرو نام نہاد کرائم برانچ آفیسر سمیت چار افراد کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ گرفتار بلیک میلروں کے موبائیل فونوں کو کھنگالا جارہا ہے اوراس سلسلے میں مزید تحقیقات جاری ہے۔
ایس پی سوتھ گورو سکاروار نے نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران بتایا کہ پولیس کو شکایت موصول ہوئی کہ سوشل میڈیا سائٹوں پر ایک گروہ سرگرم ہو گیا ہے جو سادح لوح لوگوں کو بلیک میلنگ کے ذریعے لوٹ رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ شکایت کنندہ نے بتایا کہ مذکورہ گینگ سے وابستہ افراد لوگوں کو مسیج بھیج کر بات چیت شروع کرتے جس کے بعد اسے مخصوص جگہ پرآنے کی دعوت دی جاتی۔
ایس پی کے مطابق جب وہ شخص مقررہ جگہ پر پہنچتا تو اس کا سامنا جعلی رپوٹروں اور فرضی پولیس آفیسر سے ہوتا جو دوسرے کمرے میں پہلے سے ہی موجود تھے۔
شکایت کنندہ کے مطابق جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو دروازے پر دستک ہوئی اور ایک فرضی رپورٹر اندر داخل ہوا اور دھمکی دی کہ وہ پولیس کو اس بارے میں سب کچھ بتا دے گا۔
ان کے مطابق تھوڑی دیر بعد کمرے میں جعلی پولیس آفیسر داخل ہوا اور فوری طورپر پیسے دینے کا مطالبہ کیا۔
ایس پی نے مزید کہاکہ شکایت کنندہ نے بتایا کہ ایک خاتون جس کی شناخت مسرت کے بطور ہوئی خود کو کرائم برانچ آفیسر کے طورپر پیش کرکے کمرے میں داخل ہوئی اور اس معاملے کو رفع دفع کی خاطر پیسوں کا تقاضہ کیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ معاملے کو سلجھانے کی خاطر شکایت کنندہ نے بھتہ خوروں کو چیک دی تاہم ملزمان نے مزید پیسے دینے پر زور دیا لیکن شکایت کنندہ کے اہل خانہ کو اس بات کی علمیت حاصل ہوئی اورانہوں نے فوری طورپر پولیس کو اس بارے میں آگاہی فراہم کی۔
ایس پی کے مطابق پولیس ٹیم فوری طورپر جائے موقع پر پہنچی اور ملزمان کو رنگے ہاتھوں دھر دبوچ کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔انہوں نے مزید بتایا کہ تحقیقات جاری ہے اور مزید گرفتاریوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
عوامی حلقوں نے نام نہاد رپورٹروں اور جعلی صحافیوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ حقیقی صحافیوں کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
عوامی حلقوں کے مطابق محکمہ انفارمیشن پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مائیک اور موبائیل ہاتھ میں لے کر خود کو صحافی جتلا کر عوام کے لئے درد سر بننے والے ان اشخاص کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے فوری اقدامات اٹھائیں۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ انفارمیشن محکمہ متحرک ہو کر اصلی اور نقلی رپورٹروں اور صحافیوں کی نشاندہی کرکے صحافت کے مقدس پیشے کو مزید بدنام کرنے سے روکا جاسکے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ نام نہاد اور نقلی صحافی فیس بک اور دوسری سوشل میڈیا سائٹوں پر بغیر تحقیق کے حساس معاملات پر تبصرے کرتے ہیں جس وجہ سے کشمیر کی سیاحت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
لہذا ایل جی انتظامیہ کو بھی معاملے کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے صحافیوں کے لئے رہنما اصول مرتب کرنے چاہئے تاکہ فیس بک اور نقلی صحافیوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ جمعرات دیر شام پولیس ترجمان نے بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ بلیک میلنگ کے ذریعے لوگوں سے رقومات اینٹھنے والے چار افراد جن کی شناخت فردوس احمد میر ساکن رعناواری(نقلی ایس پی)، محمد طاریق میر ساکن لالبازار(جعلی رپورٹر)، آسیہ ساکن بمنہ اور مسرت ساکن حبہ کدل(نقلی کرائم برانچ آفیسر) کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔انہوں نے بتایا کہ گرفتار شدگان کے خلاف ایف آئی آر زیر نمبر 68کے تحت کیس درج کرکے مزید تحقیقات شرو ع کی گئی۔
موصوف ترجمان کے مطابق گرفتار شدگان میں سے ایک دوشیزہ سادہ لوح افراد کو اپنے جھانسہ میں پھنسا کر مخصوص مقام پر آنے کی دعوت دیتی تھی تو اسی دوران باقی گرفتار شدگان اچانک جائے موقع پر پہنچ کر خود کوپیشہ وارانہ رپورٹر اور پولیس اہلکار ظاہر کرکے لوگوں کو بلیک میل کیا کر کے ان سے موٹی رقومات وصول کرتے تھے۔
گرفتارشدگان میں ایک ملزمہ نے مہجور نگر سری نگر میں واقع اپنی رہائش گاہ کو غیر قانونی سرگرمی کے لئے دستیاب رکھا تھا۔
پولیس نے اس سلسلے میں زیر دفعات392,472,419کے تحت کیس درج کرکے پوچھ تاچھ کا دائرہ وسیع کیا ہے۔