جمعہ نماز اور سنتوں کی ادائیگی
سوال:-نماز جمعہ سے پہلے کتنی رکعت سنت ہیں ؟اور نمازِ جمعہ کے بعد کتنی رکعت سنت پڑھنی چاہئے۔ جواب حدیث سے نقل کرتے ہوئے باحوالہ درج فرمائیے ۔
عاشق احمد … سرینگر
جواب:-جمعہ کی نماز سے پہلے چاررکعت سنت موکدہ ہے ۔ اس سلسلے میں صحاح ستہ کی کتابوں میں سے ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓسے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم جمعہ سے پہلے چار رکعت سنت پڑھتے تھے ۔اور ترمذی میں حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓجمعہ سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے ۔
ظاہرہے صحابی کوئی بھی عمل اگر انجام دیتاہو تو وہ خود اپنی طرف سے وضع کردہ نہیں ہوسکتا۔اس لئے حنفیہ نے جمعہ سے پہلے چاررکعت کوسنت قرار دیاہے ۔نماز جمعہ کے بعد چاررکعت سنت مؤکدہ اور دورکعت سنت غیر مؤکدہ ہیں ۔حدیث یہ ہے :حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جمعہ کی نماز پڑھ لو تو پھر اُس کے بعد چار رکعت ادا کرو اور ایک روایت میں ہے جب تم نمازِ جمعہ کے بعد نمازپڑھو تو چاررکعت پڑھو۔ یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔ ابن ماجہ میں بھی ہے ۔
حضرت عبداللہ ؓبن عمرؓ کا معمول یہ تھاکہ وہ جب جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر گھر آتے تھے تو دورکعت پڑھتے تھے او رپھر فرماتے تھے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔یہ حدیث بھی مسلم میں ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہؓ میں ہے ابوعبدالرحمان ؓکہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ؓبن مسعود ہم کو حکم دیتے تھے کہ جمعہ کے بعد چاررکعت پڑھا کریں ۔پھر حضرت علیؓ کاارشاد ہم نے یہ سنا کہ وہ چھ رکعت پڑھنے کا حکم دیتے تھے ۔ حضرت علی کاارشاد سن کر ہم نے چھ رکعت پڑھنے کا معمول بنایا۔ترمذی میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود جمعہ سے پہلے چاررکعت اور جمعہ کے بعد چاررکعت پڑھتے تھے اور حضرت علی ؓسے منقول ہے کہ وہ یہ حکم دیتے تھے کہ نمازِ جمعہ کے بعد پہلے دورکعت پھر چار رکعت پڑھا کرو۔مسلم ترمذی او رمصنف ابن ابی شیبہ کی ان احادیث کی بناء پر حضرت علامہ کشمیری نے فرمایا کہ ان احادیث کی بناء پر امام شافعی ؒ نے فرمایا نماز جمعہ کے بعد دو رکعت ،امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایا چار رکعت ، اور قاضی ابویوسف اورامام محمد نے فرمایا چھ رکعت سنتیں پڑھی جائیں۔حنفیہ کی تمام کتابوں میں چھ رکعت کاقول لکھا گیا کیونکہ کثرت عبادت ہرحال میں مطلوب ہے اور حضرت علی ؓخلیفہ راشدہ ہیں وہ جب تاکید سے اس کا حکم فرماتے تھے تو ظاہرہے کہ وہ کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دے سکتے ۔ جو خود اُن کی خودساختہ ہو۔یقیناً اُن کے سامنے عمل نبیؐ ہوگا۔(صلی اللہ علیہ وسلم)
بہرحال چاررکعت سنت مؤکدہ اور دوسنت غیر مؤکدہ میںہیں۔کفایت المفتی میں یہی خلاصتہً لکھا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :(۱) اکثر ہمارے یہاںیہ تصور کیا جاتاہے بلکہ یقین کیا جاتا ہے کہ جس ایمان والے کی وفات جمعہ کے دن یا ماہِ رمضان میں ہوجائے ،وہ جنتی ہے ،چاہے اعمال کیسے بھی ہوں،کیا یہ صحیح ہے؟
سوال :(۲) کچھ حضرات اولاد نہ ہونے کی وجہ سے کسی اور کا بچہ گودلیتے ہیں مگر کاغذوں میں ولدیت اپنی لکھواتے ہیں ۔شرعاً یہ کیسا ہے؟
سوال :(۳)تقسیم وراثت کےشرعی حکم کے مطابق ماں،پھوپھی،بہن ،بھائیوں کا حصہ کتنا بنتا ہے؟ تفصیلی حکم بیان فرمائیں۔
سوال :۴ :حضرت پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کا عالم حد سے بڑھ گیا ہے،حالانکہ کاروبار کرنا سنت ہے مگر اچھا سا کاروبارشروع کرنے کے لئے نوجوان حضرات بنک لون کی طرف رجوع کرتے ہیں ،جس میں سود بھی دینا پڑتا ہے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
سوال :۔۵ : مستورات کا مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ نوکری کرنے کا حکم اور ان مستورات کی اس کمائی کا کیاحکم ہے ،جو وہ نوکری سے کماتی ہیں؟
سوال :۔۶ : سچی گواہی دینے سے اعراض کرنا ،اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟ معاشرے میں یہ جرم بکثرت پایا جاتا ہے۔
سوال :۔۷ : نوجوان کا ماں باپ کی مرضی کے بغیر نکاح کرنا یا پیغام بھیجنا کیسا ہے؟
سوال :۔۸) تجارت میں شرعی نفع کی شرح کیا ہے؟روزمرہ کار آمد چیزیں یعنی چائے ،نمک ،آٹا وغیرہ وغیرہ ضروری چیزوں میں ،جن کے بغیر گذر بسر اچھی طرح نہ ہوسکے ،کیا سب کا حکم ایک ہی ہے؟
سوال :۔۹)جی پی فنڈ رقم پر سود کا شرعی حکم کیا ہے؟
(مشتاق احمد وانی ،کشتواڑ)
جمعۃالمبارک اور ماہ رمضان میں فوتیدہ عذاب قبر سے فارغ
جواب:(۱) اس میں کوئی شک نہیں کہ جمعہ کے دن یا رمضان المبارک کے مہینے میں وفات پانا بڑے شرف کی بات ہے اور حدیث میں اس کی فضیلت بھی آئی ،مگر صرف اس بات پر جنتی ہونے کی کوئی بشارت نہیں ہے۔ہاںصرف اتنی بات حدیث سے ثابت ہے کہ جو شخص رمضان میں یا جمعہ کو فوت ہوا،اُس سے قبر کا عذاب ہٹادیا جاتا ہے،مگر اس کے جنتی ہونے کا ،صرف اس بنا پر کہ وہ رمضان میں یا جمعہ کے دن فوت ہوا ہے ،کوئی ثبوت نہیں ہے۔
گود لئے بچے کی ولدیت کا مسئلہ
جواب:(۲) کسی اور شخص کا بچہ گود لے کر متبنیٰ بنانا کثرت سے ایسے لوگوں میں پایا جاتا ہے جو بے اولاد ہوتے ہیں ،اس کے لئے شرعی طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس بچے کا باپ ہرگز قرار نہ دیں۔قرآن کریم میں صاف حکم ہے کہ ایسے بچے کو اپنے اصل باپ کی طرف منسوب کرکے اُس کے حقیقی باپ کی ولدیت لکھیں ۔حدیث مبارک میں ہے کہ جس نے اپنے آپ کو کسی اور شخص کی طرف منسوب کرکے اُس کو اپنا باپ بنایا ،اُس پر جنت حرام ہے اور اُس پر اللہ کی لعنت ہے۔لہٰذا اس سے بچنا نہایت ضروری ہے۔اپنی حقیقی ولدیت بدلنا حرام ہے اور بچہ چونکہ بے خبر ہوتا ہے ،لہٰذا جو شخص اپنے آپ کو باپ بنائے اور وہ اصلی باپ نہ ہو تو یہ حرام کام اُس کے سَر ہوگا۔پھر جب بچے کو یہ معلوم ہوجائے تو اُسکو اپنے باپ کی طرف منسوب کرنا اور حقیقی باپ کی ولدیت رکھنا لازم ہے۔
مستحق کو وراثت سے محروم کرنا حرام
جواب: (۳)تقسیم وراثت شرعی ضوابط کے مطابق ہر مسلمان پر لازم ہے۔اس کا تاکیدی حکم ہے۔کسی مستحق کو وراثت سے محروم کرنا حرام ہے ۔ماں ،پھوپھی،بہن ہر ایک وراثت کی حقدار ہوتی ہے۔بیٹا یا بیٹی فوت ہوجائے تو ہر حال میں وراثت بنتی ہے ۔اسی طرح شوہر فوت ہوجائے تو بیوی کو حق ِ وراثت ہےاور باپ فوت ہوجائے تو بیٹوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی بہنوں کو باپ کی میراث سے حصہ دیں،اور شریعت سے رہنمائی لے کر معلوم ہوگا کہ کتنا ہے۔
تعلیم کے ساتھ ہنر سیکھے جائیں
جواب۴۔ نوجوانوں کی بے روز گاری ایک بڑا او ر مشکل مسئلہ ہے ،اس کا حل یہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ کوئی کسب سیکھا جائے ۔آج کے معاشرے میں بہت سارے کام ٹیکنکل سیکٹر سے جُڑے ہوئے ہیں ۔اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت کے مواقع ہیں۔تجارت کے لئے اگر لون لئے بغیر چھوٹے پیمانے پر حلال رقم سے تجارت کی جائے تو بلا شبہ روزگار کھڑا ہوجائے گا اور اگر یہ بھی نہ ہو تو مزدوری کرکے حلال رروزگار کمانے کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔چنانچہ دوسرے صوبوں کے ہزاروں افراد یہاں روزگار کمارہے ہیں،وہ ہمارے سامنے مثال ہیں۔
ملازمت کرنے والی خواتین کی کمائی حرام نہیں
جواب۵۔ خواتین کا ایسی ملازمت کرنا جس میں غیر مردوں کے ساتھ رہنا پڑے ،بے پردگی ہو،اور کبھی جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑے ،یہ سب غیر شرعی ہے ،تاہم جو کمائی اُس نے کی ہے وہ حرام نہیں ہوگی،چاہے ملازمت میں کئی غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوا ہو ۔مگر اس کی وجہ سے کمائی حرام نہ ہوگی۔اس لئے کہ کمائی محنت کا معاوضہ ہے نہ کہ بے پردگی یا کسی اور غلطی کا عوض۔
سچی گواہی دینا قرآن کا حکم
جواب۶۔ سچی گواہی دینا دین کا حکم ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ (ترجمہ)گواہی مت چھپائو ۔جو شخص گواہی چھپائے اُس کا دل گناہ کا ارتکاب کرنے والا ہے۔(سورہ البقرہ) اس لئے یہ گواہی چھپانا گناہِ کبیر ہے۔
رشتہ طے کرنے کا شرعی طریقہ
۷۔ کسی بھی نوجوان کا اپنے ماں باپ کی مرضی کے بغیر خفیہ نکاح کرنا ،پیغام بھیجنا طرح طرح کی خرابیوں کا ذریعہ ہے۔اس لئے اس سے پرہیز کرنا لازم ہے، اور والدین پر بھی لازم ہے کہ وہ اس معاملے میں جتنا ممکن ہو،عجلت کریں تاکہ نوجوان یہ غلطی نہ کرے ۔اگر کوئی کسی جگہ رشتہ کرنا چاہتا ہے ، وہ والدین کو باخبر کرے اور اُن کے ذریعہ سے رشتہ کرائے ،یہی شرعی طریقہ ہے۔
حد سے زیادہ منفعت ظلم واستحصال
جواب۔۸)شریعت اسلامیہ نے نفع لینے کی مقدار مقرر نہیں کی ہے۔مگر اس کے معنیٰ ہرگز نہیں کہ جتنا چاہیں نفع لیں۔دراصل ہر دکان دار یہ دیکھے کہ جو چیز وہ فروخت کررہا ہے ،اگر وہ خود اس کو خریدنے والا ہوتا تو کتنا نفع دینا وہ خوشدلی سے گوارا کرتا۔بس جتنا نفع وہ خود فروخت کرنے والے کو دینا پسند کرے ،جب وہ خود فروخت کرنے والا ہو تو اُسے بھی وہی نفع لینا چاہئے۔خاص کر وہ اشیا جو ضروریات زندگی میں شامل ہیں ،مثلاً کھانے پینے کی چیزیں آٹا ،چاول ،سبزیاں ،گوشت ،دودھ ،روٹی ،دوائی ان میں سے حد سے زیادہ نفع لینا ظلم اور استحصال ہے۔شرعاً اس کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔
جی پی فنڈ۔۔۔۔ اضافی رقم کی اَدائیگی سودنہیں
جواب۔۹)جی پی فنڈ پر محکمہ کی طرف سے جو اضافی رقم دی جاتی ہے ،وہ سود کے زمرے میں نہیں آتی۔اس لئے وہ بھی لینا جائز ہے اور اپنی ذات پر خرچ کرنا بھی درست ہے ،مگر جو مقدار محکمہ کی طرف سے طے ہے اُس مقدار پر جو اضافہ ہے ،وہ سود نہ ہوگا ۔اگر اس سے زائد رقم جی پی فنڈ میں جمع کرائی ،اُس پر یہ اضافہ مثلِ سود ہے ،وہ اپنی ذات پر خرچ نہ کیا جائے۔انکم ٹیکس یا کسی غیر شرعی ٹیکس میں دے سکتے ہیں۔