قیصر محمود
کسی بھی قوم کی تعمیر میں نوجوان ہراول دستے کا کردار ادا کر تے ہیں ، بلا شبہ کسی بھی قوم کی باگ دوڑ اُس کے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو تی ہے ۔ جس طرح عمارت کی تعمیر میں اینٹ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اینٹ سے اینٹ مل کر عمارت وجود میں آتی ہے ، ہر اینٹ کی اپنی ایک جگہ ہو تی ہے ، اگر ایک بھی اینٹ نکال دی جا ئے تو عمارت ڈھے جا ئے گی ، بالکل اسی طرح ملک کی تعمیر میں نوجوانوں کی اہمیت کا اندازہ کسی لڑی میں پروئے موتیوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ایک موتی نکال دیا جا ئے تو پوری مالا ٹوٹ پھوٹ جا ئے گی ۔ کسی بھی معاشرے کی تعمیر کے لئے ایک فرد اہمیت کا حامل ہے۔
نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ محنت کو اپنا شعار بنائیں، انتھک محنت ہی سے کا میابی قدم چومتی ہے ، محنت سے گھبرانا مومن کا شیوہ نہیں ہے ، ہر انسان کے اندر ایک گوہرِ نایاب چھپا ہو تا ہے ۔ جس طرح ایک جوہری کو پتا ہو تا ہے کہ کون سا ہیرا کتنی مالیت کا ہے ، وہ اپنے دکان میں موجود ہر ہیرے کو پر کھنا جا نتا ہے ، بالکل اسی طرح ہر نوجوان کے اندر بھی کچھ جوہر پوشیدہ ہو تے ہیں ، جسے ان کو پر کھنے اور تراش کر نکھارنے کی ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو چاہیئے کہ کتاب دوستی کو فروغ دیں اور مطالعے پر دھیان دیں ، کیونکہ مطالعہ سے ذہن کھلتا ہے ۔ انسان کی سوچ پختہ ہو تی ہے ، اس کے اندر شعور پیدا ہو تا ہے ۔ جو جنگ تلوار سے نہیں جیتی جا سکتی وہ قلم سے جیتی جا سکتی ہے ، نوجوان چاہے تو قلمی جہاد کے ذریعے معاشرے میں پھیلی بے حیائی کا خاتمہ کر سکتا ہے ۔
لیکن یہ اور بات ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل کا زیادہ تر وقت میڈیا کے آگے گزرتا ہے ، جہاں انہیں مغربی تہذیب کی چمک دمک اپنی طرف کھینچتی نظر آتی ہے ۔ نوجوان اردو بولنے کے بجائے انگریزی بولنے میں فخر محسوس کر تے ہیں ، مشرقی طرز زندگی اپنانے کے بجائے مغربیت کی طرف راغب ہیں ، اور تو اور آج کل شادی بیاہ تک میں ہندوانہ رسوم و رواج کو فروغ دیا جا رہا ہے ، جو کہ سراسر غلط ہے ، مسلمان ہو نے کے ناتے ہم جا نتے ہیں کہ نکاح جتنی سادگی سے کیا جا ئے اس میں اُتنی ہی بر کت ہو گی ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی قوم کسی کی نقل کر کے کبھی بھی تر قی کی منازل طئے نہیں کر سکتی ، کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لئے مسلسل چلتے رہنا اور باہمت ہو نا بہت ضروری ہے۔ آج کی نوجوان نسل کا المیہ ہے کہ وہ سست اور آرام طلب ہو گئی ہے ،طرز زندگی ہی کچھ ایسا بنا بیٹھے ہیں کہ بیٹھے بٹھائے سب پا لینے کی طلب ان کے اندر پیدا ہو گئی ہے اور اپنے ملک کی چیزوں پر فخر کر نے کے بجائے بیرون ملک سے خریدی گئی چیزوں پر فخر کر تے ہیں ۔ اس سے نہ صرف اپنے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ہم خود اپنے عوام کے اندر اپنی ہی چیزوں کے لئے منفی جذبات پیدا کر تے ہیں ۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر یں ، ایک دوسرے کے لئے نفرت و بغض جیسے جذبات نہ رکھیں ، آپس میں بھائی چارے اور محبت جیسے جذبات باٹیں ، پھر سے انصار و مہاجرین والی مثال بن کر سامنے آئیں ، ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں کہ کوئی کسی کا استحصال کر نے والا نہ ہو ، سب ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کریں ۔ نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو اپنی زندگی کا محور بنائیں ، کیونکہ یہ نوجوان ہی ہیں جنہیں آگے جا کر امت کی باگ ڈور سنبھالنی ہے ۔ مہنگائی اور غربت کے اس دور میں نوجوانوں کو اسلام کے سنہری اصول یاد رکھنے چاہئے ، چاہے کچھ بھی ہو جا ئے ، سیدھا راستہ اپنانا ہے ، حلال اور حرام میں نہ صرف خود تمیز کر نی ہے بلکہ دوسروں کو بھی سمجھانا ہے ۔ آج نوجوان چاہیں تو وہ ہمت و بہادری سے دریائوں کے رُخ موڑ سکتے ہیں ، سمندروں کے سینے چیر سکتے ہیں ، ہوائوں کے رخ تبدیل کر سکتے ہیں ، اس کی بہت سی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں۔
نوجوانوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے سامنے ان کا مقصد واضح ہو ، کیونکہ اگر کوئی مقصد ہی نہیں ہو گا تو پھر زندگی انہیں بہت پیچھے چھوڑ جا ئے گی ۔ اس لئے اپنے تو اپنے غیروں کا خیال کر نے کی روش اپنانی ہو گی، ذرا ذرا سی نیکیاں معاشرے میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں اور ذرا سی بُرائی معاشرے کو بگاڑنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ راہ چلتے کوئی پتھر ہٹا دینا ، گزرتے ہو ئے لوگوں کو سلام کر نا ، مسکرا کر ملنا اور بہت سے ایسے کام ہیں جو نہ صرف صدقہ میں شمار ہو تے ہیں بلکہ معاشرے میںامن پیدا کر نے کا باعث ہیں ۔ بالکل اسی طرح نوجوان اپنے سے چھوٹوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکتے ہیں جو استطاعت رکھتے ہیں وہ غریبوں کے لئے مفت تعلیم کا انتطام کر سکتے ہیں تا کہ تعلیم حاصل کر کے وہ بھی ملک و قوم کی تر قی میں حصہ لے سکیں ۔جدید تعلیم کے ساتھ قرآن پاک کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے ۔ ایک اچھا تعلیم یافتہ انسان اگر حافظ قرآن بھی ہو تو وہ معاشرے کی اصلاح میں کلیدی کر دار ادا کر سکتا ہے ، دین اور دنیا کو ساتھ لیکر چلنے کی ضرورت ہے ، چاہے وہ سیاست کا میدان ہو ، معاشی میدان ہو یا کوئی بھی میدان ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئےکہ اس ملک کی آزادی ہم نے بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے ، ہمارے آبا و اجداد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا ، مائوں ، بہنوں کو عزت و آبرو کی قربانی دینا پڑی تھیں تب کہیں جا کر یہ ملک آزاد ہو ا تھا ۔ اس لئے اب ہمیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں حقدار کو حق ملے ، جہاں ایک دوسرے کو امن و محبت کا پیغام دیا جا ئے ، انصاف کا بول بالا ہو ، جہاں ایک دوسرے کا احترام کیا جا ئے ، جہاں نفرت اور کدورت نہ ہو ، جہاں بھائی چارے کا رویہ اپنایا جا ئے ۔ انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب یہ ملک ایک مضبوط ملک بن جا ئے گا ، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا حصہ ڈالتا جا ئے اور امید کے دیئے روشن رکھے ۔
رابطہ۔6291697668