ملک منظور
بچپن کی یاد تو سب کو آتی ہے اور بچپن کی مدح بھی تمام لوگ کرتے ہیں ۔لیکن بچوں کے مسائل پر شاید ہی کسی کا دھیان جاتا ہے ۔بچوں کے ساتھ ہونے والے ان دیکھے مظالم اور مصائب کا ادراک اتنا ہی اہم ہے جتنا بچہ خود اہم ہے ۔آنکھیں بند کرکے کسی پر بھروسہ کرنے کا زمانہ گزرچکا ہے ۔احتیاط برتنا اور ہوشیاری سے کام لینا والدین کے لئے ناگزیر ہوگیا ہے ۔معاشرے میں بڑھتی دولت کی لت کا رحجان ایک وبال بن گیا ہے ۔نشیلی ادویات کا کاروبار اور معصوم بچوں کی معصومیت کا ناجائز استعمال والدین کے لئے سر درد کا باعث بن گیا ہے ۔بچے مختلف قسم کے استحصالوں کا شکار ہورہے ہیں ۔جن میں جنسی استحصال سرفہرست ہے ۔
زیادہ تر والدین نہیں جانتے کہ زیادتی یا بچوں کے مسائل کیا ہیں اور یہ ان کے بچوں کی صحیح نشوونما میں کیسے رکاوٹ بنتے ہیں؟جب بچوں سے کوئی حق چھین لیا جاتا ہے یا اس کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو اسے بدسلوکی یا زیادتی کہا جاتا ہے۔ بدسلوکی خاموش قاتل ہے۔جب کوئی کسی بچے کو کھردری زبان، اشاروں یا حرکتوں سے تکلیف دیتا ہے اور بچے کو ذلت، بے بسی، غصہ یا مایوسی کا احساس دلاتا ہے تو یہ زیادتی کہلاتی ہے۔ بچے کو تکلیف پہنچانے کے بہت سے طریقے ہیں جو ان کے جسم، جذبات اور خیالات کو متاثر کرتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ بدسلوکی جسمانی چوٹ، زبانی بدسلوکی، جنسی زیادتی، اسمگلنگ، معاشی محرومی، بچپن میں شادی اور جسمانی انتقام کی وجہ سے ہوتی ہے۔ کسی بھی شکل میں بدسلوکی ایک معصوم جان کو قلیل مدتی اور طویل مدتی صدمے کا باعث بنتی ہے۔ بدقسمتی سے بچے بدسلوکی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، یہاں تک کہ والدین بھی اسے ایک سنگین مسئلہ نہیں سمجھتے۔ نتیجتاًجب بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہ اسے کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے اور خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر، بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور حفاظت کے بارے میں بات کرنے میں بڑوں کی ہچکچاہٹ ایک بچے کو بدسلوکی کرنے والے کے لیے آسان ہدف بناتی ہے۔ اس غفلت کی وجہ سے بچہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا نہیں۔ لہٰذا، بچوں میں بدسلوکی کے بارے میں سمجھ پیدا کرنا ضروری ہے۔ بطور والدین، بدسلوکی کی علامات کو پہچاننا ضروری ہے اور ان پر یقین کرنا بھی لازمی ہے۔
بدسلوکی کی چار اہم شکلیں ہیں یعنی جسمانی زیادتی، ذہنی زیادتی، نظر اندازی اور سب سے خطرناک جنسی زیادتی ہے۔ جسمانی بدسلوکی میں بچے پر ہاتھ اٹھانا یا کچھ دوسری چیزوں کا استعمال شامل ہے جس سے درد ہوتا ہے، جیسے گھونسنا، چھرا مارنا، جلانا، ہلانا، مارنا، تھپڑ مارنا اور کان مروڑنا۔ والدین، اساتذہ یا معاشرے میں دیگر بالغ افراد کی طرف سے جسمانی زیادتی کی جاتی ہے۔ بعض اوقات بچہ والدین کو اپنے جسم کے اعضاء کے زخموں کو دکھاتا ہے جو اس کا نوٹس نہیں لیتے ،جس کے نتیجے میں وہی بچہ اس کے بعد اپنے جسم کی سوجن یا زخموں کو بھی چھپا لیتا ہے۔ نتیجتاً بچے اور اس کے والدین کے درمیان دراڑ پیدا ہو جاتی ہے۔ بچہ یہ بھی ماننا شروع کر دیتا ہے کہ وہ شرارتی ہے یا اس کی غلطی تھی، جس کی وجہ سے اس میںخود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے اور دوسروں کے تئیں جارحیت خلق ہوتی ہے۔ اسی طرح بچوں کو ناموں سے پکارنا، ان کی ذات کے ناموں سے ان کا حوالہ دینا اور عوام میں ان کی تذلیل کرنا جذباتی زیادتی ہے۔ جب بچوں کو شفقت سے محروم رکھا جاتا ہے ،دوستوں کی صحبت سے روکا جاتا ہے تو وہ مشتعل ہو جاتے ہیں، بڑوں سے ڈرتے ہیںاور خود کو الگ تھلگ کر لیتے ہیں۔
غفلت بدسلوکی کی دیگر اقسام سے مختلف ہے۔ نظر انداز کرنے کا مطلب ہے ذرائع دستیاب ہونے کے باوجود بچے کو بنیادی ضروریات سے محروم رکھنا۔ یہ صرف غریب خاندانوں میں نہیں پایا جاتا بلکہ امیر گھرانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے طریقے ہیں جن کے ذریعے بچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مثلاً لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھنا، ناقص منصوبہ بندی یا ذہنی طور پرمعذور بچوں پر مناسب توجہ نہ دینا وغیرہ وغیرہ۔ غفلت نفسیاتی بیماری، کم اعتمادی، نیند کی کمی، خواہشات اور بھوک کی کمی وغیرہ کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ ان علامات کو پہچانیں اور فوراً تدارک کریں جیسے مسلسل بیماری، اداس چہرہ، تعلیم میں خراب کارکردگی، گندگی اور چوٹیں اگر کوئی ہوں۔
جنسی زیادتی ،بچوں کا جنسی استحصال بچوں کے خلاف تشدد کی بدترین شکلوں میں سے ایک ہے اور اس کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔ چونکہ بچہ اسکول میں زیادہ وقت گزارتا ہے، اس لیے اسکولی تشدد کے واقعات، خاص طور پر کسی بھی قسم کے جنسی استحصال کا سامنا کرنے والے بچوں کا پتہ لگانے، جواب دینے اور مدد کرنے کے لیے ایک اہم معمہ بن جاتا ہے۔ اس قسم کی بدسلوکی شرم اور رازداری سے بھری ہوئی ہوتی ہے ،اس لیے اس کا پتہ لگانا مشکل ہے یا جب پتہ چلتاہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے عجیب بات یہ ہے کہ والدین اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ بچے بھی اس کے بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس سنگین خلاف ورزی کو خاندان کے کسی بھی رکن، استاد، رشتہ دار، دوست یا کمیونٹی کے کسی دوسرے رکن کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے۔ اس زیادتی کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ بچے اس عمل کو نہیں سمجھتے یا رضامندی نہیں دیتے۔ جنسی زیادتی میں چھونے اور نہ چھونے والے دونوں رویے شامل ہیں۔ یہ زبردستی اس لئے کی جاتی ہے کیونکہ بدسلوکی کرنے والا مختلف حربوں، رشوت یا دھمکیوں کا استعمال کرتا ہے اور یہ عام طور پر بچے سے واقف جگہ پر ہوتا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ذات، رنگ، طبقے، جنس، مذہب، علاقہ اور ثقافت سے بالاتر ہو کر تمام بچے یکساں طور پر خطرے میں ہیں۔ جنسی زیادتی جسمانی اور غیر جسمانی دونوں طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی بچے کی شرمگاہ کو چھونا یا اسے کسی اور کے شرمگاہ کو چھونے کے لیے اکسانا، بچے کو زبردستی چومنا، وغیرہ جسمانی جنسی زیادتیاں ہیں۔ کسی کی فحش فلمیں، رسالے، کتابیں، جنسی مواد کی تصویریں ، گندے لطیفے یا کہانیاں سنانا، بچے کی علمیت کے بغیر اس کو کپڑے پہنتے یا کپڑے اتارتے دیکھنا ، غیر جسمانی زیادتیاں کچھ مسائل یا وجوہات ہیں جو بچے کو جنسی زیادتی کا شکار بناتی ہیں ۔
مجرم خاص طور پر ٹوٹے ہوئے خاندانوں کے غیر فعال، پرسکون، پریشان، یا تنہا بچوں کی تلاش کرتے ہیں۔ غیر منظم اور کم ظرف خاندانوں کے بچے اکثر جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں اور معذور بچوں کو جنسی زیادتی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی پرورش نہایت احتیاط اور محبت سے کریں۔ جنسی زیادتی ایک انتہائی تکلیف دہ تجربات میں سے ایک ہے جس سے بچہ گزرتا ہے۔ والدین کو ان مظاہر کا دھیان رکھنا چاہیے ، ان میں رویے کی تبدیلیوں کا بھی دھیان رکھنا چاہیے جیسے کہ غیر واضح جارحیت، کسی خاص شخص یا گروہ کے ساتھ رہنے کا خوف، ڈراؤنے خواب، بستر بھیگنا، عمر سے زیادہ جنسی علم، بھوک نہ لگنا اور منشیات کا استعمال۔مختصر یہ کہ والدین کو اپنے بچوں کو سنبھالنے اور ان کی رہنمائی کرنے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے زیادہ جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔
اپنے بچوں کو اپنی مناسب دیکھ بھال اور محبت کے تحت کھلنے دیں اور بھروسہ کرنے یا یقین کرنے میں احمقانہ رویہ نہ اپنائیں۔ جسمانی سزا بچوں کو نظم و ضبط میں رکھنے میں کسی بھی طرح مددگار نہیں ہے۔بچوں کی سنیں اور انہیں معاملات سنانے پر اکسائیں ۔بچوں کو کسی مہمان یارشتے دار کے ساتھ نہ سلائیں ۔اگر بچہ کسی کے ساتھ جانے سے یا پاس بیٹھ سے ڈرتا ہے تو فوراً نوٹس لیں ۔بچے کو مجبور نہ کریں پھر چاہیے کوئی اپنا ہو یا پرایا ۔بچوں کو مختلف العنوان زیادتیوں سے محفوظ رکھیں ۔