عظمیٰ نیوز سروس
جموں//مرکزی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پیر کو جموں میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان زیر انتظام جموں و کشمیر بھارت کا حصہ ہے، تھا اور رہے گا اور پاکستان حکومت کشمیر کا بار بار دعویٰ کرنے سے کچھ حاصل نہیں کرے گی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاک زیرِ انتظام کشمیر پر غیر قانونی قبضے سے پاکستان کا لوکس سٹینڈ نہیں بنتا۔
راجناتھ نے کہا،”بھارت کی پارلیمنٹ میں پاکستان زیرِ قبضہ کشمیر کے بارے میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی ہے کہ یہ صرف بھارت کا حصہ ہے۔ ایک نہیں بلکہ اس ارادے کی کم از کم تین تجاویز اب پارلیمنٹ میں پاس ہو چکی ہیں“۔
وزیر دفاع نے جموں یونیورسٹی میں ملک کے دفاعی طریقہ کار کے داخلی اور خارجی جہتوں پر منعقدہ ایک “سیکیورٹی کنکلیو” سے خطاب کر تے ہوئے ان باتوں کا اظہار کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا ایک بڑا حصہ پاکستان کے قبضے میں ہے۔ دوسری طرف لوگ دیکھ رہے ہیں کہ جموں و کشمیر میں لوگ سکون سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستانی قبضے والے کشمیر میں رہنے والے لوگ بہت تکلیف سے گزر رہے ہیں اور وہ جلد ہی بھارت کے ساتھ شامل ہونے کا مطالبہ کریں گے۔
جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی تنسیخ پر بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ بی جے پی نے آرٹیکل کو منسوخ کیا اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ انصاف کیا جن کے ساتھ دہائیوں سے غیر منصفانہ سلوک کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 اور 35A کی وجہ سے جموں و کشمیر کے عام لوگوں کو طویل عرصے تک ملک کے مرکزی دھارے سے دور رکھا گیا، یہ کسی بھی ملک دشمن طاقت کے خلاف کارروائی کرنے میں رکاوٹ کا باعث بن رہا تھا۔
وزیرِ دفاع نے مزید کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے فیصلے سے عام لوگ خوش ہیں۔ سنگھ نے کہا، “مصیبت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کی نفرت اور علیحدگی پسندی کی دکان بند ہو رہی ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دہشت گردی کی فنڈنگ روکنے، اسلحہ اور منشیات کی سپلائی روکنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور دہشت گردوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ یہاں کام کرنے والے زیر زمین کارکنوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کا کام بھی جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ وزیر اعظم مودی کے جاری کردہ مشترکہ بیان سے واضح ہو گیا ہے کہ بھارت نے دہشت گردی کے معاملے پر امریکہ سمیت پوری دنیا کی ذہنیت بدل دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کرنے والے ممالک کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ یہ کھیل زیادہ دیر چلنے والا نہیں، آج دنیا کے بیشتر بڑے ممالک دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں۔
وزیر موصوف نے یہ بھی کہا کہ چین کے ساتھ “اختلافات” کے باوجود کچھ معاہدے اور پروٹوکول ہیں جن کے بعد دونوں ممالک کی فوجیں سرحدوں پر گشت کرتی ہیں۔ “ہمارا دوسرا پڑوسی ملک چین ہے۔ چین کے ساتھ بھی کئی بار بعض معاملات پر اختلافات ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ چین کے ساتھ سرحد کے بارے میں ایک طویل عرصے سے تاثرات کا فرق ہے۔ اس کے باوجود کچھ معاہدے اور پروٹوکول ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجیں سرحدوں پر گشت کرتی ہیں۔ یہ معاہدے نرسمہاراو¿ جی، اٹل جی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کے زمانے میں دونوں ممالک کی رضامندی کی بنیاد پر کیے گئے تھے”۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2020 میں مشرقی لداخ میں تنازع اس لیے پیدا ہوا کیونکہ چینی افواج نے “متفقہ پروٹوکول” کو نظر انداز کیا۔
اُنہوں نے مزید کہا،”سال 2020 میں مشرقی لداخ میں پیدا ہونے والے تنازعہ کی وجہ یہ تھی کہ چینی افواج نے متفقہ پروٹوکول کو نظر انداز کیا۔ چینی فوج پی ایل اے نے یکطرفہ طریقے سے ایل اے سی پر کچھ تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی جسے بھارتی فوجیوں نے ناکام بنا دیا”۔
سنگھ نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی شروع کی اور پہلی بار نہ صرف ملک بلکہ دنیا کو معلوم ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا کیا مطلب ہے۔
سنگھ نے کہا،”افسپا کو شمال مشرق کے بڑے حصوں سے ہٹا دیا گیا ہے کیونکہ ہم نے شمال مشرقی بھارت میں شورش کے مسئلے پر کامیابی سے قابو پالیا ہے۔ میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب جموں و کشمیر میں مستقل امن ہو گا اور یہاں سے بھی افسپا کو ہٹانے کا موقع ملے گا“۔