یو این آئی
سرینگر// حضرت امیر کبیر میرسید علی ہمدانیؒکا 658واں عرس انتہائی تزک و احتشام اور مذہبی جو ش و خروش کے ساتھ منایا گیا۔اس سلسلے میں خانقاہ معلی عقیدت مندوں کا تانتا بندھا رہا اور نماز ظہر میں کافی تعداد میں نمازیوںنے شرکت کی، جن میں مردوزن شامل تھے ۔عقیدت مندجوش و خروش کے ساتھ آستانہ عالیہ کے احاطے میں داخل ہو رہے تھے اور اپنے اپنے حاجات کی روائی کے لئے دعائیں کر رہے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ظہر اور عصر کی نمازوںمیں کافی تعداد میں نمازیوں نے شرکت کی۔معلوم ہوا ہے کہ رات بھر خانقاہ معلی میں زائرین کی ایک بڑی تعداد نے شب خوانی کی جس دوران امن و سلامتی کے لئے خصوصی دعائوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔
اس عرس مبارک کے موقع پر وادی کے گوشہ و کنار سے ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند آستان عالیہ پر حاضر ہو ئے۔تاریخی اعتبار سے حضرت میر سید علی ہمدانیؒ وادی کشمیر میں دین اسلام کی تبلیغ کرنے والے مبلغوں کی فہرست میں سر فہرست ہیں۔ وہ چودہویں صدی میں قریب سات سو سادات کے ہمراہ کشمیر وارد ہوئے اور یہاں اسلام کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مختلف فنون سے بھی آراستہ کیا جو ان کی روزی روٹی کی سبیل بن گیا۔امیر کبیرحضرت میر سید علی ہمدانیؒ نے تصوف اور خرقہ پوشی کو اتنی زیادہ ترجیح دے کر موثر تبلیغ کی کہ علاقے میں پشمینہ سازی کو صنعت کا درجہ مل گیا چنانچہ مورخین انہیں کشمیر میں پشمینہ سازی کے بانی کے طورپر بھی یاد کرتے ہیں۔ اس صنعت کے باعث کشمیر کو چین، منگولیا، امریکہ، ہندوستان اور دیگر علاقوں میں اقتصادی قوت کے طورپر دیکھاجانے لگا۔شاہ ہمدان ؒ کے دور میں کشمیر میں پشمینہ(اون) سے قالین کی صنعت، شال بافی کو کافی عروج ملا، سالکان راہ طریقت کیلئے آپؒ کی تعلیمات میں سے ایک اون سے تیار کردہ لباس زین تن کرنا تھی۔ قرب و جوار میں لوگوں کی بڑی تعداد گھروں میں یہ اشیا تیار کرتے تھے بلکہ ایک عرصے تک لباس اسی صنعت کے مرہون منت ثابت ہوا۔دریں اثنا ترال میں بھی حضرت میرسید علی ہمدانیؒکے سالانہ عرس کے سلسلے میں روحانی مجلس منعقد ہوئی۔ خانقاہ فیض پناہ ترال میں نماز پنجگانہ کے بعد لوگ تبرکات کے دیدار سے فیضیاب ہوئے۔