محمد قمر الزماں ندوی
ہمارے ایک قدر داں اور علم دوست رفیق ہیں، جو علمی، دینی، سماجی اور ملی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہیں، اس سے میری مراد مولانا محمد عبد الحفیظ اسلامی صاحب ہیں، جو بیک وقت صحافی، قلم ✒ کار، تجزیہ نگار اور ملی و سماجی خدمت گار ہیں، متعدد علمی دینی اور اصلاحی کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں، تقریبا تیس سالوں سے زائد سے میدان تحریر و صحافت میں اپنی قیمتی اور بیش بہا تحریروں سے تشنہ لبوں کی سیرابی کا کام کر رہے ہیں، موصوف آزاد صحافی ہیں،دو دہائی سے زیادہ سے تو میں ان کی تحریروں سے آشنا ہوں اور اس سے استفادہ کرکے اپنی معلومات میں اضافہ کر رہا ہوں۔
موصوف کے تین سو سے زائد مضامین اب تک ملک کے معیاری اور مشہور اخبارات و رسائل میں نشرہوچکے ہیں، جن میں روز نامہ منصف، صحافت، حیدرآباد، سالار، بنگلور ، رہنمائے دکن حیدرآباد ،سہ روزہ دعوت دہلی، اب ہفتہ روزہ دعوت حیدرآباد، پاسبان بنگلورو، راشٹریہ سہارا اردو، قومی تنظیم پٹنہ اور اخبار مشرق کلکتہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ان کی نصف درجن سے زیادہ جو کتابیں اب تک شائع ہوکرعوام و خواص میں مقبول ہوچکی ہیں، ان میں چند حسب ذیل ہیں: اے ایمان والو۔ رب کائنات کا فرمان۔ واقعہ معراج۔ تعارف قرآن،۔تذکیرات،۔آداب زندگی۔آئینہ شہر وغیرہ ۔
موصوف کی تحریر کا کمال اور نمایاں خوبی اعتدال توازن اور فروعی اور اختلافی چیزوں سے اجتناب ہے، نیز ترجیحات ہیں کہ کس وقت امت کو کس طرح اور کس انداز کی تحریر درکار ہے، اسلوب اور طرز نگارش نہایت عمدہ اور بہت ہی دلکش ہے، سلاست اور سہل نگاری ان کی تحریر کا خاصہ ہے، تحریر میں ثقل اور پیچیدگی آپ کو کہیں نہیں ملے گی،اس اسلوب اور طرز تحریر کو سہل ممتنع کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ان کے تمام مضامین خواہ وہ علمی ہوں یا اسلامی دینی و مذہبی یا سیاسی و سماجی،سب قرآن و حدیث، آثار صحابہ اورتاریخی حوالوں سے مدلل اور مستند ہوتے ہیں، وہ ہر موضوع کا حق ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے تمام مکاتب فکر کے علماء اہل علم اور عام اردو خواں طبقہ بھی ان سے برابر کا استفادہ کرتا ہے۔ سیرت رسولؐ کی عصری معنویت اور سماجی اصلاح ان کا پسندیدہ موضوع ہے، سیاسی موضوعات پر بھی خوب لکھتے ہیں اور تیر و نشتر بھی لگاتے ہیں،وہ تحریریں بھی معلومات اور نتائج و عبر سے پر ہوتی ہیں، سماجی برائیوں پر بھی نشتر چلاتے ہیں، لیکن مثبت اور تعمیری انداز میں اور اتباع رسولؐ “ما بال الناس” کہہ کر۔
سال گزشتہ ان کی ایک انتہائی وقیع اور معیاری کتاب ’’آزادی انسان کا بنیادی حق‘‘ دار الاشاعت حیدر آباد سے شائع ہوئی ہے، جو اپنے موضوع پر ایک بہت ہی جامع اور عمدہ کتاب ہے۔ موصوف کا حکم اور اشارہ ہے کہ میں اس کتاب پر اپنا تبصرہ لکھوں۔ پہلے تو اپنی کم علمی اور بے مائیگی کی وجہ سے ٹالتا رہا، عدیم الفرصتی بھی ایک وجہ رہی،لیکن پھر احساس ہوا کہ بڑوں کے حکم کو ٹالنا نہیں چاہیے، آج بہت تاخیر کے بعد کتاب کامطالعہ شروع کیا اور پھر تبصرہ کے لیے قلم ✒ اٹھایا، کتاب کی حقیقت اور نافعیت کا اندازہ تو انہیں لوگوں کو ہوگا جو براہ راست معلومات سے پر اور اپنے موضوع پر وقیع و محیط اس کتاب کا مطالعہ کریں گے۔
بہر حال یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کا مطالعہ ہر شخص کو کرنا چاہیے، کیونکہ اس کتاب میں قرآن و حدیث اورعقل و نظر کی روشنی میں آزادی کی حقیقت، مفہوم، دائرہ اورحقوق انسانی کے تعلق سے جتنی تفصیلات ہوسکتی ہیں ، ان سب پر پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے، غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا ہے، اس کتاب میں دستور آسمانی اور منشور سلطانی کا فرق اور تقابلی و تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے، نیز آزادی کے نام پر حقوق انسانی کا حسین عنوان دے کر دنیا میں جو فراڈ اور انسانیت کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے، اس سے بھی پردہ ہٹایا گیا ہے۔ انداز بیان کی جدت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا ہے، طرز تحریر ایسی ہے کہ جس میں خدا شنائی کے ساتھ دنیا شنائی بھی ملے اور تاریخ کی سچائی سے بھی واقفیت ہو ، علوم و معارف کے خزانے بھی ہاتھ لگے اور معلومات افزاء بکھرے موتی کو بھی چنا جاسکے، اس کتاب میں آپ کو دور نبویؐ کا دستور بھی ملے گا اور خلفاء راشدین کے عہد زریں کے نمونے اور واقعات بھی ملیں گے ، نیز صحابہ کرام کے احوال زندگی سے متعلق سبق آموز،اور احترام انسانیت سے پر واقعات بھی۔ قارئین اس کتاب میں صاحب کتاب کی تحریر کی شگفتگی بھی محسوس کریں گے اور ادب کی چاشنی بھی پائیں گے، فکر سلیم کی طرف رہنمائی بھی اور علم و تحقیق کی سنجیدگی بھی پائیں گے اور ساتھ ہی صاحب قلم کے دل دردمند و فکر ارجمند اور زبان ہوشمند کی آمیزش بھی۔ کتاب ہذا سے کچھ اقتباسات بھی آپ قارئین کی خدمت میں ہم پیش کرتے، تاکہ انداز تحریر اور اسلوب نگارش کا اندازہ آپ لگا سکتے لیکن، مضمون کی طوالت اس کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔
حقوق انسانی کی پاسداری، انسانیت کا منشور اور آزادی کتنی اور کیسی؟ یہ اور اس طرح کے موضوعات پر آج خوب لکھا جارہا ہے، بعض مذاہب کے لوگ اپنے کو حقوق انسانی کا تنہا پاسدار اور مسیحا ثابت کرتے اور منصوبہ بند طریقہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی کا رشتہ ان سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ خود انسانیت کی توہین کے سب سے بڑے مرتکب اور مجرم ہیں اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ حقوق انسانی کی بات سب سے پہلے اسلام نے کی اور حجة الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقوق انسانی کا عالمی منشور اور گائیڈ لائن پیش کیا، جس سے آج پوری دنیا استفادہ کررہی ہے اور اس کی روشنی میں ملک و صوبہ کے قوانین بنانے میں لوگ مددلے رہے ہیں۔
انسانی جان کو اسلام نے کس قدر محترم قرار دیا، اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک جان کے ضیاع کو پوری انسانی جان کا ضیاع قرار دیا، انسانی جان سے کھلواڑ کرنے والے کے لیے اسلام نے قصاص کی سخت سزا تجویز کی تاکہ قتل و غارت گری کا سلسلہ ہی بند ہوجائے، اسلام نے آزادی کے لیے وہ لائحہ عمل ، ترغیب و تعقیب اور ترہیب کی شکل بنایا کہ دنیا سے غلام اور غلامی کا خاتمہ ہی کردیا اور پوری دنیا غلامی کی لعنت سے پاک ہوگئی، انسان کی عزت و آبرو کو اسلام نے وہ بلند مقام عطا کیا کہ کوئی کسی کی عفت و عصمت کو مجروح کرنے کی جسارت ہی نہیں کرسکتا، اسلام نے عقیدہ و فکر اور اپنے مافی الضمیر کے اظہار کی بھر پور آزادی دی، حتیٰ کہ ایک کمزور ضعیفہ عورت خطبہ دیتے وقت خلیفہ وقت کو ٹوک دیتی ہے۔ لیکن ہاں اظہار رائے کی وہ آزادی نہیں دی کہ انسان حیا باختہ ، شیطان کا پجاری اور ہمنوا بن جائے، خیر و شر کی تمیز اور فرق مٹ جائے اور جو انسان کو خدا بیزاری تک پہنچا دے، اور اس سے ادب،تہذیب اور شائستگی ختم ہوجائےبلکہ اس کے لیے حدود و شرائط اور دائرہ کار اسلام نے طے کردیا۔ بلاشبہ پیش نظر کتاب میدان علم و تحقیق کے غواصوں اور عوام و خواص سب کے لیے یکساں مفید ہے، انداز اور اسلوب اس قدر سہل ہے کہ عام اردو خواں طبقہ بھی اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ہم مولف موصوف کو ان کی اس قیمتی اور وقیع تصنیف پر دل کی اتاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتاب کو پوری امت کے لیے مفید اور بطور خاص مؤلف کتاب کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے اور اس کو قبولت عامہ ملے۔ آمین
تبصرہ نگار کی اپنے تمام قارئین بلکہ تمام اردو خواں طبقہ سے درخواست ہے کہ وہ اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں اور اس موضوع پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کی روشنی میں غلط فہمیوں کا ازالہ کریں اور آزادی کے صحیح مفہوم اور اسلام میں انسانیت کا جو عظیم منشور دیا گیا ہے اس سے لوگوں کو واقف کرائیں۔ضرورت ہے کہ اس کتاب کا ترجمہ ہندی انگریزی اور ملک کی دیگر علاقائی و صوبائی زبان میں بھی ہو، تاکہ استفادہ کا دائرہ وسیع ہوسکے۔