ڈاکٹر مظفر نازنین
سر زمین ِ بنگال جو علم و فن کا گہوارہ اور تعلیم و تہذیب کا مرکز ہے۔ یہاں کی سر زمین یعنی بنگال کی سوندھی مٹی ادب اور سائنس کے لیے بہت زرخیز ہے۔ ہندوستان کے تقریباً تمام Noble Laureates کا تعلق بنگال سے ہی ہے۔ شہر نشاط کلکتہ میں بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے جنم لیا ہے۔ ایک جانب جہاں ہم فراموش نہیں کرسکتے گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور، اجنندر ناتھ ٹیگور، سرت چٹرجی، مدھو سدن دتہ، سوامی وویکا نند، ایشور چندر ودیا ساگر اور نذرالاسلام کو تو دوسری جانب وہیں طوطیء بنگالہ علامہ رضا علی وحشت، پرویز شاہدی کلکتوی، شاکر کلکتوی، شمس کلکتوی، علقمہ شبلی، نصر غزالی، پروفیسر اعزاز افضل اور ابراہیم ہوش کے نام بھی ادبی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔ مگر ساتھ ہی ساتھ کولکاتا کے مضافاتی علاقوں میں بھی قابل ِ ذکر اور قابل قدر شاعروں اور ادیبوں نے جنم لیا ہے۔ کلکتہ سے متصل شمالی چوبیس پرگنہ کے بیشتر مضافاتی علاقے دریائے ہگلی کے کنارے آباد ہیں۔ ان میں کھردہ، ٹیٹاگرھ، بارکپور، شیام نگر، جگتدل، کانکی نارہ اور مارواڑی کل (حاجی نگر) ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر شعرا ایسے تھے، جو جوٹ مل یا پیپر مل میں بحیثیت مزدور ملازم تھے۔ انہوں نے نامعقول مشاہرہ کے ساتھ غربت اور کسمپرسی میں اپنے شب و روز گزارے۔ کچھ تو شدید محنت کش مزدوری اور راج مستری کے پیشے سے بھی منسلک رہے۔ مگر ادبی اقربا پروری نے ان غریب خادمانِ شعر و ادب کو فراموش کرکے اردو ادب کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ تاہم ان نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی انھوں نے گیسوئے شعر و ادب کو قابل ِ ذکر طور پر سلجھانے کی حتی الامکان کامیاب کوششیں کی ہیں۔ ان مضافاتی نادار شعراء و ادباء کی ادبی و شعری حیات 3 یا 4 دہائیوں پر مشتمل ہے۔ایسے میں مغربی بنگال اردو اکاڈمی انتہائی غنیمت ہےجومعاشی طور پر کمزور ادباء ،شعرا اور مصنفین کے لیے اپنی مالی تعاون اور قابل ستائش پہل سے ان کو ادب میں زندہ رکھنے کا بہتر کام کررہی ہے۔بہرکیف! ہر دور میں قدرت اپنے خزانے سے لعل و گہر کو ظاہر کرتا رہا ہے۔ ٹھیک اسی طرح بنگال کے موجودہ علمی و ادبی منظر نامے پر نمودار ایک ہونہار، پُرعزم، خوش الحان اور جواں سال شاعر و ادیب کا نام علی شاہدؔ دلکش ہے۔ شاہدؔ بنگال کے ضلع شمالی چوبیس پرگنہ کے کانکی نارہ میں مقیم ہیں اور سائنس اسٹریم کی انگلی تھامنے کے بعد بھی اپنی بے لوث ادبی خدمات حلقہ ٔ اردو ادب میں کئے جا رہے رہیں۔ ان کے رشحات ِ قلم کی رسائی اندرونِ بھارت مختلف صوبوں میں دور دور تک دیکھی جا رہی ہے۔ کم عمری میں ہی علی شاہدؔ دلکش کے قلم کی آب و تاب ہندوستان کے میعاری جریدے، ویب سائٹ، اردو ادبی ویب پورٹل اور پرنٹ میڈیا کے توسط سے سرحد پار پڑوسی ممالک تک پہنچ کر اپنے جلوے بکھیر رہی ہے۔ چونکہ راقم الحروف کے بھی مضامین آئے دن ان ادبی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے قارئین ِ ادب تک پہنچ پاتے ہیں۔ لہٰذا میری گہری نظر رہتی ہے اس پلیٹ فارم پر۔ واضح کر دوں کہ موصوف علی شاہد ؔ دلکش نے اردو میڈیم (کانکی نارہ حمایت الغرباء ہائر سکنڈری اسکول) سے فارغ ہیں۔ اس کے بعد پیور سائنس میں گریجویشن کیا۔ مزید بریں شاہدؔ صاحب نے کمپیوٹنگ سائنس اینڈ انجینئرنگ اور انگریزی ادب و لائبریری سائنس میں ماسٹرز بھی کر رکھا ہے۔ فی الحال نارتھ بنگال کے کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج میں بی ٹیک اسٹوڈنٹس کیلئے درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ یہ جواں سال شاعر و ادیب سماج و ادب کی خدمت کرنے کے لیے خاموشی سے اپنی قلمکاری کی سحر انگیزی میں مستغرق رہتا ہے مگر ان کی نگارشات بغیر بیجا شور شرابہ کے شاہدؔ صاحب کے ٹیلینٹ کی چغلی کرتی رہتی ہے۔ ادب والوں کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھ کر وسعت ِ قلبی دکھاتے ہوئے ایسے نیوکمر علمی و ادبی بندے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کو ہاتھوں ہاتھ لینا چاہئے مگر افسوس! ہمارے اردو ادبی حلقوں میں معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے۔ چونکہ میں بھی اردو کی ادنیٰ سی خادمہ ہونے کے ناطے اردو کی محبت میں اپنی معمولی سی اردو نثر نگاری کے وسیلے سے گزشتہ کئی برسوں پر محیط اپنی بساط بھر اردو ادب کی خدمت کرتی چلی آرہی ہوں۔ مگر مخصوص لابی و ذہنیت کے حامل اردو ادب والوں کی بے حِسی، بے ادبی اور غیر انسانی روش سے نالاں ہوکر کبھی کبھی ترکِ خدمت ِ ادب کے دہانے تک پہنچ جاتی ہوں۔ ہمارے بزرگ محققین کے مطابق سطحی سوچ اور تنگ ذہن ادبا و شعرا کی وجہ سے موجودہ ادبی حلقوں میں سب سے زیادہ ’بے ادبی‘ ہو رہی ہے۔ اللہ کی ذات سے مستقبل میں بہتری کی امید ہے۔
اللہ کریم اردو ادب میں ہمارے نو وارد شاعر و ادیب علی شاہدؔ دلکش کو ایسے مخصوص پراگندہ ادبی ماحول اور ہر علاقے میں پائے جانے والے دو چار سطحی اور نیرو مائنڈ ادبی لوگوں سے بچائے رکھے، آمین۔ بحرالحال شاہدؔ صاحب کے قلم کی سحرکاری سے متاثر ہوکر راقمہ بھی بذات خود ان کی مداح ہے۔ سوشل میڈیا پر ہماری گہری شناسائی بھی ہے۔ گزشتہ سال کی ابتدا میں حاجی نگر مارواڑی کل میں ڈاکٹر ناصر علی امینی مرحوم پر کتاب (مرتب: ڈاکٹر وحید الحق) کے رسم اجراء میں میری اولین ملاقات بھی شاہدؔ صاحب سے ہوئی، جو خوشگوار اور یادگار رہ، جہاں محترم جاوید احمد خان (وزیر حکومت مغربی بنگال) کی موجودگی میں راقم الحروف کو اپنے تاثرات معروف نقیب و خطیب خواجہ احمد حسین کی نظامت میں پیش کرنے کا موقع بھی ملا تھا۔ بنگال کے چاروں سمت علی شاہدؔ دلکش کے قلم کے بکھرے ہوئے جلووں کی نذر کسی شاعر کا ایک مصرع یاد آ رہا ہے جو آپ کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں ؎
’’بارش کی علامت ہے جب ہوتی ہو ہوا بند‘‘
فضا کی خاموشی یہ آثار بتا دیتی ہے کہ طوفان کی آمد ہے یا موسم خراب ہونے کو ہے یا کس قدر بارش ہو سکتی ہے۔ جس طرح گلوکار کی پہلی تان اور نغمہ نگار کی ابتدائی فکر ہی اس کی کامیابی کی آگاہی کر دیتی ہے۔ اسی طرح علی شاہدؔ دلکش کی ڈھڑلے سے ادبی کارکردگی مستقبل کے روشن امکانات کی پیشن گوئی کر رہی ہے۔ بچپن تا نوجوانی بڑی جدوجہد کر کر کے برسرِ پیکار ہوتے ہوتے برسرِ روزگار ہونے والے اس جواں سال شاعر و ادیب کو اللہ خزاں کی نظر ِ بد سے بچائے رکھے، آمین۔ معروف شاعر سید انظار البشر ؔ بارکپوری کا ایک شعر جو ملت کے اس ہونہار نوجوان علی شاہد ؔ دلکش پر صادق نظر آتا ہے، یوں ہے ؎
مجھ کو بشر ؔ خرد نے چمکنے نہیں دیا
میرے جنونِ شوق نے چمکا دیا مجھے
انظار بھائی و دیگر اقاربِ شاہدؔ دلکش کے مطابق کانکی نارہ کے محمد نصیرالدین اور رضیہ خاتون کے یہاں 10اپریل 1983ء کو ایک معصوم صحت مند بچے نے جنم لیا جس کا نام شاہد علی رکھا گیا۔ انہیں کہاں اندازہ تھا کہ یہ شائستہ فرزند ایک دن علی شاہدؔ دلکش جیسا ملت کا لعل و گہر ثابت ہوگا۔ شاہدؔ صاحب نے بحر تلاطم جیسے پُرکٹھن شب و روز کی کتنی مشکل گھڑیاں دیکھیں ہوں گی۔ اس کا قیاس آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ ان کے والد محترم جوٹ مل میں مزدور تھے اور محنت کش محترم کو چھ بیٹوں اور ایک بیٹی کی کفالت کرنی تھی۔ جوٹ مل کی نامعقول مزدوری اور گاہے گاہے تالا بندی کے باعث رکشہ چلاکر یا ہاؤکری کرکے گھر چلانا پڑتا۔ لیکن جنونِ تلاشِ علم نے علی شاہدؔ دلکش کے پیروں سے بیڑی کو دور رکھا۔ پھر وقت پر اپنا رنگ بھی دکھایا۔ پرائمری کے بعد سکنڈری، ہائر سکنڈری، بی ایس سی، بی ایڈ، ماسٹر اِن لائبریری سائنس، پوسٹ گریجویٹ ان سافٹ انجینئرنگ اور پھر پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ان انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ماسٹرس ان انگلش مزید کمپیوٹر ٹیچر ٹریننگ کورس کے اخراجات ٹیوشن پڑھا پڑھا کر مکمل کیا۔ہمارے کریم و رحیم رب نے اس قابل ِ ذکر struggling periodکے دوران مستقل ملازمت سے قبل این سی پی یو ایل، منسٹری آف ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، حکومت ہند کے ماتحت بحیثیت سنیئر فیکلٹی (کانکی نارہ حمایت الغرباء ہائی اسکول یم ڈی پی سنٹر میں کانٹریکچووَل ٹیچنگ جاب نواز کر بڑی راحت کا وسیلہ فراہم کیا۔ جب طویل انتظار اور تگ و دو کی گھڑیاں ختم ہوئیں تب رزاقِ کائنات نے کئی امتحانات و آزمائشوں سے گزار کر ڈائریکٹ گورنمنٹ بی ٹیک کالج میں پریکٹیکل کلاس لینے کی ذمہ داریاں ان کے شانوں پر ڈال دیا۔ یہ سب صبر ہی کا ثمرہ تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پختہ ارادہ والے علی شاہدؔ دلکش اس سے پہلے ویسٹ بنگال پرائمری، اپر پرائمری، اسکول سروس کمیشن اور پبلک سروس کمیشن کے مقابلہ جاتی اکزامز کے علاوہ دیگر صوبوں کے کمپیٹیشن اکزام میں کامیاب بھی ہوئے مگر فائنل پینل میں نام آنے کی وجہ سے انتظار انتظار اور بس انتظار کرتے رہے۔ لیکن جہد ِمسلسل کا دامن نہیں چھوڑا۔ حقیقی معنوں میں اتنے طویل عرصے تک کی تعلیمی اور معاشی جدو جہد قابل داد و دُعا ہے۔ انہوں نے ادبی رقمطرازی سال 2010ء سے شروع کیا۔
آغاز میں نثرنگاری کا دامن تھاما اور ادھر گزشتہ کچھ برسوں سے شاعری بھی کر رہے ہیں۔ بلکہ دیکھا جائے تو جو کر رہے ہیں وہ قابل ِ ذکر کر رہے ہیں۔ ان کی تخلیقات اور رشحات قلم اپنی مادر ِ ریاست کے علاوہ بھارت کے ہر Urdu Knowing Statesمیں (انڈیا کے لیڈنگ اردو نیوز پیپر کے ادبی صفحات پر) اور معیاری رسالوں و جریدوں تک ہی نہیں بلکہ پڑوسی ممالک کی سرحدوں کو عبور کرتی بھی نظر آتی ہیں۔ ان کی پہلی تخلیق اردو اخبار (روزنامہ) کے بعد 2013ء میں اردو دوست ڈاٹ کام ویب سائٹ پر اولین آن لائن گلوبل اردو میگزین ”کائنات” میں اور دی مسلم انسٹیٹیوٹ کے سہ ماہی ”پرواز” میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد شاہدؔ صاحب کی ادبی پرواز نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ قومی کونسل کا ماہنامہ ‘اردو دنیا’ کے علاوہ نصف درجن یو جی سی کیئر لسٹ میں شامل اردو جریدوں تک ان کے مضامین کی رسائی ہو چکی ہے۔ ان دنوں علمی و ادبی راہوں پر موصوف کی تیز گام کی قابل ذکر پیش رفت مشاہدے میں آرہی ہے۔ میں انسٹیٹیوٹ کے سہ ماہی ”پرواز” میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد شاہدؔ صاحب کی ادبی پرواز نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ قومی کونسل کا ماہنامہ ‘اردو دنیا’ کے علاوہ نصف درجن یو جی سی کیئر لسٹ میں شامل اردو جریدوں تک ان کے مضامین کی رسائی ہو چکی ہے۔ ان دنوں علمی و ادبی راہوں پر موصوف کی تیز گام کی قابل ذکر پیش رفت مشاہدے میں آرہی ہے۔ میں باوثوق طور پر کہہ سکتی ہوں کہ مضافات کے کانکی نارہ و جگتدل کی نئی نسل میں شاید ہی دوسرا ایسا سائنس بیک
گراؤنڈ والا بندہ ہو، جو اردو ادب میں بھی اس قدر قابل ذکر و تحسین جلوے بکھیرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
میں اپنے چھوٹے بھائی علی شاہدؔ دلکش کے لیے بارگاہ خداوند قدوس میں دعا گو ہوں کہ کامیابی کی بلندترین چوٹی انہیں نصیب ہو۔ ہر گام کامرانی و سرفرازی ان کے قدم چومے۔ اللہ اِنرجیٹک عمر درازی عطاء کرے بلکہ عمر خضر عطاء کرے۔ کسی شاعر کے مندرجہ ذیل شعر پہ ناچیز اپنا قلم روک رہی ہے ؎
دائم رہے،قائم رہے، تیرا جہد مسلسل
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ