ڈاکٹر عبید الرحمن
۔1857ء کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں پر دو قیامتیں ٹوٹیں۔ایک جذبے کی خنکی،دوسری ایک نئی قسم کی روشنی جس میں عقیدے کی گرمی کوئی ضروری شے نہ رہی۔ ایک طرف عشق کی آگ بجھ گئی، دوسری طرف عقیدے کا چراغ ٹمٹمانے لگا۔تجدید دین کے بھی کچھ غلغلے بلند ہوئے مگر اس تجدید کا اصول بدل گیا۔ اس کا یہ اصول قرار پایا کہ دین کی صداقت کا معیار اسوۂ رسول صل اللہ علیہ وسلم سے کہیں زیادہ مغرب کی حواس باختہ عقلیت کی پیروی ہے۔ یہ عقلیت خود یورپ میں دل کی سردی اور جذبات کی خنکی کی ذمہ دار تھی، مگر ہندوستان میں یہ عقلیت حاکم قوم کے سیاسی اغراض کے تابع ہو کر خوب پھیلی۔ یہ عقلیت اس آزادی و بے خوفی سے محروم تھی جس نے مغرب کو بہر حال زندہ و تابندہ رکھا۔ تقلید کے ان اطوار نے ہندوستان میں ملت اسلامیہ کو ایک ایسے روحانی فالج میں مبتلا کردیا جس میں زندگی اور موت کے درمیان فرق کچھ نہ رہا۔ اس فالج نے سب سے زیادہ دین داری کی حس کو متاثر کیا جس کے بغیر کوئی مسلمان مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ دین میں خوشہ چینی بلکہ دریوزہ گری کچھ عجیب قسم کی مسلمانی تھی۔ عقلیات میں خوشہ چینی تو ایک متعارف طریقہ ہے، مگر دین میں دریوزہ گری واقعی عجیب چیز تھی۔اس دریوزہ گری نے ملی عقائد کا پیوند دین کے اصل سر چشموں سے منقطع کر کے مغرب کے لا دینی افکار اور جذبے کی خنکی سے جا ملایا۔ گویا ایک طرف ملکی لحاظ سے جذبہ عشق خوش ہوا اور دوسری طرف عقیدے کے لحاظ سے دین داری کے عقیدے مجروح و مذبوح ہوئے۔ ! نہ چقماق رہا نہ چراغ:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
ان حالات میں مذہب عشق کی تجدید اور دعوت الی الحق کی ایک نئی پکار کی ضرورت تھی جس کی رگڑ سے چقماق بھی شرر ریز ہوجائیں اور چراغ بھی روشن ہو جائیں۔ اس کے لئے جذبے کی زبان درکار تھی مگر ایسے جذبے کی جو عقیدے کی محکمی سے متصادم نہ ہو۔ بلکہ عقیدے کے ساتھ مفاہمتوں کے رشتے قائم کرے ۔(ابو الکلام آزاد امام عشق و جنوں، صفحہ ۴۴ – ۴۵)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس وقت علمائے حق نے حتی المقدور دین اسلام کو بچانے کی بھر پور کوشش کی اور یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ ان حضرات کی بے لوث خدمات ہی کی وجہ سے دین اسلام کی روح ہنوز باقی ہے۔ لیکن آج پہلے سے کہیں زیادہ سنگین حالات کا ہمیں سامنا ہے۔ہم بے شمار مسائل سے گھرے ہوئے ہیں ،اگر ہم نے حکمت عملی سے اس سے نمٹنے کی کوشش نہیں کی تو اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑے گا ۔آج ہمارا دین اور ایمان خطرے میں ہے۔ ہمارے لڑکے اور لڑکیاں اسلام سے صرف کوسوں دور نظر نہیں آرہے ہیں بلکہ بڑی تعداد میں مرتد بھی ہورہے ہیں ۔ ایسے نازک حالات میں ہمیں چاہئے کہ مسلکی اختلافات سے قطع نظر دین اسلام کو بچانے کی متحدہ کوشش کریں۔ اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں نئی نسل کو تعلیم سے قریب کرنا پڑے گا۔ صحیح تعلیم ہی کے ذریعے ہم جہالت،خرافات،بدعات اور اوہام پرستی کو دور کر سکتے ہیں۔ آج وقت کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ ہم اپنے دین و ایمان کو بچائیں ۔ ہماری کامیابی اور ترقی اسی دین اسلام کو بچانے میں پنہاں ہے۔ آج ہمیں تین طرح کی قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت ہے بقول مفکر اسلام سید مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی:
’’آپ کو تین طرح کی قربانیاں دینی ہیں، ہماری ہر قربانی کے لئے ہماری تاریخ میں ایک امام موجود ہے، ایک قربانی وہ ہے جو سیدنا خالد بن ولیدؓ نے یرموک میں دی تھی، دوسری قربانی وہ ہے جو حضرت حسن بن علی ؓنے حضرت معاویہؓ کے مقابلے میں امت کے انتشار کو ختم کرنے کے لئے دی تھی، تیسری قربانی وہ ہے جو عمر بن عبدالعزیز ؒنےاسلامی مملکت اور معاشرہ کو اسلامی زندگی اور اسلامی سیرت کی راہ پر لگانے کے لئے اپنی زندگی کو بدل کر اور اپنے خاندان کے مفاد سے آنکھیں بند کر کے دی تھی۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ قرآنِ کریم صاف اعلان کرتا ہے۔’’ہم نے انسا ن کو محنت اور مشقت ہی میں پیداکیاہے‘‘(البلد: ۴)یہ محنت ومشقت انسان کے مقدر میں لکھی ہوئی ہے۔ یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ اس دنیا میں مسلمانوں کو دوہری محنت کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا مطمح نظر صرف یہ دنیا نہیں ہے بلکہ آخرت ہے۔اور صحیح معنوں میں آخرت کی کامیابی ہی مسلمانوں کی صحیح اور اصل کامیابی ہے۔ اس لیے امتِ مسلمہ کو دیگر قوموں کے مقابلہ میں ہر میدان میں عظیم قربانیاں پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ الغرض محنت ومشقت سے مفر نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک امتِ مسلمہ محنت ومشقت کرتی رہی حکومت کی باگ ذور ان کے ہاتھوں میں رہی۔محض ان کی غفلت ، سستی، بے اعتنائی، لاپرواہی اور خاص طور پر دینِ اسلام سے دوری ہی کی وجہ سے ان کو تنزلی اور انحطاط کا منہ دیکھنا پڑا۔ قرآن کریم اس حقیقت کو یوں بیان کرتاہے:’’اے انسان ! تجھے یہ تمام دکھ اور مشقتیں سہتے ہوئے بالآخر اپنے رب کے حضور میں جاحاضر ہوناہے‘‘۔(الانشقاق: ۶)آج جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں، وہ ایک معجزہ کے طالب ہیں، یہ معجزہ اسلام کے ابدی پیغام میں مضمر ہے۔
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا؟
اس وقت پورے بر صغیر کو ایک ضرب کلیمی کی ضرورت ہے، بلکہ تمام عرب اور اسلامی ملکوں میں بھی زندگی کی نئی روح پیدا کرنے کی ذمہ داری علماء پر ہے۔اسلام کے عقائد و حقائق پر ایک نیا یقین، ایک نیا اعتماد، ایک نیاسرور، ایک نیا نشہ، ایک نیا ولولہ عمل، نئی جرأت اندیشی، ایک نئی لذت کردار، ایک نیا جذبہ دروں پیدا کرے، جس سے ان اونگھتی سوتی قوموں، آمادہ زوال قوموں، ان مرتعش قوموں کو جن کے قدم بھی ڈگمگا رہے ہیں، دل بھی ڈگمگا رہے ہیں، ان کو نئی زندگی، نئے جوش سے آشنا کریں۔آپ کی ذمہ داری صرف آپ تک محدود نہیں ہے بلکہ بر صغیر کے مسلمان تعداد کے لحاظ سے تمام عالم اسلام پر فائق ہیں۔ آپ فکری طور پر عالم اسلام کی رہنمائی کے لئے آگے بڑھیں، اور اسلام پر اعتماد پیدا کریں، اور یہ ثابت کریں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں اسلام چل سکتا ہے‘‘۔ (دعوت فکر و عمل صفحہ ١٢٤)