سید مصطفیٰ احمد
طالب علم ہم بھی ہےاور ہم میں خامیاں اور خوبیاں دونوں ہیں۔ میں نے اب گریجویشن مکمل کئی ہےاور تھوڑا بہت سمجھ بوجھ بھی آگئی ہے۔ Exposure کی کمی عیاں ہے، اس کے علاوہ بھی کئی چیزوں کا فقدان ہے۔لیکن اس کے باوجود دورِ حاضر کے طلباء و طالبات کی جو صورت ِ حال نظر آتی ہے،وہ اس کے برعکس ہی نہیں بلکہ حیران کن اور تشویش ناک بھی ہے۔ ہم بھی secondary یا higher secondary classes کے دوران بعض اوقات اسکول نہیں جایا کرتے تھے۔ ہاں! بچے ہونے کے ناطے کبھی کبھار کلاسس ترک کیا کرتے تھے اور راستے میں ہی بیٹھا کرتے تھے۔یہ غلطی کئی بار ہم سے سرزد ہوئیں، البتہ ہم نے اس دوران کوئی بھی ایسا ویساغلط کام نہیں کیا، جس سے ہماری بے عزتی ہو یا ہمارے لئے باعث شرم بن جاتا۔کبھی اگر غلطی سرزد ہوجاتی تھی، تو پھر پچھتاوا دامن گیر ہوتا تھا۔ آج اس کے اُلٹ ہورہا ہے، جو طلباء کلاسس کو تُک کرتے ہیں، وہ عام طور پر غلط کاموں میں ملوث ہوتے ہیں۔ ہمارے پڑھائی کے دورمیں بھی تمباکو نوشی، سگریٹ نوشی ہوتی تھی، اس کے علاوہ کبھی کبھارہم پتوں کو آگ لگا کر پیتے تھےاور یہ کام ہم دور کھیتوں میں کیا کرتے تھے، جہاں ہمیں کوئی نہیں دیکھتا تھا۔ اگر پکڑے جاتے تھے، تو پھر شامت ہوتی تھی۔ مگر آج کے اکثر طلباء اسکول جانے کے بجائے پارکوں، ہوٹلوں، مرغزاروں، کھیتوں، وغیرہ میں گزارتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایسی نازیبا حرکات میں ملوث پائے جاتے ہیں جن کو زبان پر لانا بھی مشکل ہے۔ چرس، افیم، سگریٹ نوشی، تمباکو نوشی، وغیرہ پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ syringes کا بھی غلط استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لڑائی جھگڑوں میں اپنی توانائی صرف کرتے ہیں اور کچھ راہگیروں کو تنگ کرنے میں لطف اُٹھاتے ہیں۔Bikes,scooties,cars, وغیرہ پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پاگلوں کی طرح گردش کرتے رہتے ہے۔ اکثرماں باپ جان کر بھی انجان بنے ہوئے ہیں کیونکہ اولاد نے واضح کرکے رکھا ہے کہ اگر ہمیں کسی کام سے روکا گیا، تو ہم کوئی دوسرا اُلٹا کام کر بیٹھیںگے، ہم خودکش کریں گے اور آپ سب کو جیتے جی مار دیں گے۔
اس صورت میںمحض طلباء کی ہی خطا نہیں ہے،بلکہ ہم بڑے بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ہم نے ہی حالات کو یہاں تک پہنچانے میں ان کی مدد کی۔ اگر ہم نے وقت پر صحیح اقدامات کئےہوتے،تو آج حالات اتنے خراب نہیں ہوتے۔ ہم خود اُس دنیا میں جی رہے ہیں جس کی کوئی پائیدار بنیاد ہی نہیں ہے، تو ہم کیسے ان کم سن طلباء کو نصیحت کر سکتے ہیںجبکہ ان کو ابھی زندگی کے اُتار چڑھاو کی پوری سوجھ بوجھ ہی نہیں۔خیر ہمارے خیال اس صورتحال کے پیچھے اور بھی کئی وجوہات کا عمل دخل ہیں۔ سب سے پہلا ہے دنیا کی ہوس اور آخرت کی فراموشی: ہم دنیا کی محبت میں اتنے مگن ہوئےکہ ہم میں جوابدہی کا عنصر ہی ختم ہوا۔ زیادہ تر ماں باپ اپنے اولاد کو لالچ کی نگاہوں سے پالتے ہیں، یہ پالنا کوئی بھی پالنا نہیں ہیں۔ اگر آمدنی کم ہی ہو، مگر شعور اور ہوش دونوں موجود ہو،تب تربیت کا اثر ضرور جھلکے گا۔ حوش اور پرندے بھی کھاتے ہیں، البتہ انسانی تربیت کے اصول بالکل الگ ہوتےہیں ۔ ہم tribal societies میں نہیں جی رہے ہیں جہاں جتنے زیادہ اور طاقت ور ہاتھ ہونگے وہ بہتر۔ ہم ترقی یافتہ سماج میں جی رہے ہیں، اس سماج نے ہزاروں سال پہلے تہذیبوں کا مطالعہ کرکے یہاں تک اُڑان بھری ہے۔ یہ سماج تہذیب یافتہ لوگوں کی مانگ کرتا ہے۔ اس دور میں صرف کمانے اور خرچ کرنے والے نہیں چاہیے۔ اس کے برعکس آج کمانے کے ساتھ ساتھ finer values of civilization جیسے کی ہمدردی، empathy, tolerance, forbearance, perseverance, foresightedness، وغیرہ نہایت ضروری ہیں۔ اب اگر طلباء کو صرف مشین کی مانند سمجھا جائے، تب اس کا نتیجہ تباہی کی شکل میں نکلے گا۔ ایک طالب علم sentiments کا مجموعہ ہیں۔ ان کو channelize کرنے کی ضرورت ہیں۔ اب اگر جذبات کو بالائے طاق پر رکھا جائے اور طلباء کو sordid boon کی دنیا میں دھکیل دیا جائے تو اس کا نتیجہ پڑھائی کو ترک کرنے اور غیر تہذیب یافتہ ہونے کی شکلوں میں نکل کے آئے گا۔ تو گویا دنیا اور مال کی اندھی ہوس نے طلباء پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر ڈالا ہے۔ یہ cause and effect والا معاملہ ہے۔ دوسرا ہے دین سے دوری۔ مذاہب کا بنیادی مقصد ہے حدود میں رکھنا۔ دنیا میں مذاہب اس لئے ہر سو پائے جاتے ہیں تاکہ انسان اپنی چھپی ہوئی جبلیات کو properly channelize یا divert کر سکے۔ اس کے برعکس اگر حدود ہی پھلانگ دی جائے، تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہوسکتے ہیں۔ طلباء بھی اب سیکولر بن چکے ہیں۔ ہمارے یہاں secular ہونے کی اصلاح ambiguous ہے مگر پھر بھی لوگ اب مذہب کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہیں۔ آج کل کے طلباء کو چھوٹ بہت پسند ہے۔ ان کو کھلی فضا میں اڑنا بہت زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اس بے ہوشی کے عالم میں اب اسکول کو ترک کیا جائے یا پھر دوسرے ناجائز کاموں میں ملوث ہوجانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ تیسرا ہے ہمارا سماج۔ ہم کو جن مسائل کی طرف سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنی تھی، ہم نے ان کو ترک کرکے فروعی مسائل پر لڑنا شروع کیا جن کی کوئی بنیاد نہیں ہیں۔ بنیادی مسائل میں مکان بنانا سستا ہونا چاہئے۔ کم از کم ہر کسی کے لئے روزگار کا انتظام ہونا چاہئے۔ شادی سستی مگر زنا مہنگا ہونا چاہئے۔ الغرض اگر زندگی کی بنیادی ضروریات سستی ہو، تو بہت ساری برائیوں کا قلعہ قمع کیا جاسکتا ہے۔ لگ بھگ سارے مذاہب اور Sigmund Freud نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کھانے کے علاوہ sex کی urge ایک انسان پر حاوی ہوتی ہے۔ گویا کہ انسان شعور سے لیس ہے مگر repressive sex تباہیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں ہمارے سماج کو غور کرنا چاہئے۔ پہلے زمانے میں سیکس کو suppress کیا جاتا تھا۔ آج اس کے برعکس ہے۔ آج انٹرنیٹ نے sex کے ہر پہلو کو کھول کر رکھ دیا ہے۔ Sex counsellors کی عدم موجودگی کی وجہ سے اب اسکول کا boring ماحول کھانے کو آتا ہے اور پارکوں اور ہوٹلوں کی آزاد فضائیں دل کو بھاتی ہیں۔ کیسے طلباء اس ماحول میں ٹھہر سکے گا جس میں قدرتی جبلیات کے بارے میں بات کرنا شرم کا باعث ہو۔ ہمارا سماج رسموں کے نام پر قتل کرنے پر ہر آن تیار رہتا ہے۔ مگر زندگی کی سب سے اہم چیزوں کو نظر انداز کرنے میں آگے آگے ہوتا ہے۔
طلباء کا مستقبل بچانے کے لئے ایک الگ قسم کا رویہ درکار ہے۔ وہ رویہ جو ان طلباء کی ذہنیت کے موافق ہو۔ اس کی شروعات گھر سے کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین کو چاہئے کہ بنا ڈانٹ ڈپٹ کے وہ راستے ڈھونڈیں، جس سے سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کئے جائیں۔ ان کو اچھے اور برے کی تمیز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانکاری فراہم کی جا ئے۔ اس کے علاوہ بچوں اور بچیوں کے دوستوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ کوئی بھی بُرائی دِکھے تو اس کے تدارک کے لئے تیار ہوجائیں۔ رُسوا کرنے سے افضل ہے کہ تعمیری کام ہو۔ کسی کو رُسوا کرنے میں وہ لذت نہیں ہے جو تعمیر کرنے میں ہے۔ علاوہ ازیں والدین کو اسکول کے رابطے میں رہنا چاہیے۔ ان سے اپنے بچے کی ترقی اور خامیوں کی تفصیل حاصل کرتے رہنا چاہیے۔ جن کوچنگ سنٹرز میں بچے پڑھنے جاتے ہیں، وہاں کے ماحول کی مکمل جانکاری حاصل کی جائے ۔ بچوں کو گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ Camping کے لئے دور دراز مقامات پر جانے سے بچوں کو روکا جائے۔ Home picnics کا اہتمام کیا جائے ۔ گھر میں اصلاحی محفلوں کا اہتمام کیا جائے۔ Educated clerics کی نگرانی میں نصیحت کا اہتمام کرنا ضروری ہوگیا ہے ۔ زندگی کی باریکیوں کے بارے میں جانکاری فراہم کی جائے۔ مزید برآں حکومت کو بھی قوانین کو سختی سے لاگو کرنے پر زور دینا چاہیے۔ کسی بھی قسم کی ڈھیل اور لاپرواہی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسکولوں کا بھی ماحول ٹھیک کرنے کی کوششیں کی جانی چاہیے۔ وہاں enlightened ماحول قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جانی چاہیے۔ وہ افراد پیدا کرنے کا مقصد آنکھوں کے سامنے رہے،جو کل قوم کی ناو کو حفاظت کے بھنور سے نکال دیںاور یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
[email protected]