قیصر محمود عراقی
آج جب میں اپنے والد مرحوم اور اس زمانے کے لوگوں کی ذہنیت کے بارے میں سوچتا ہوں اور پھر آج جو کچھ اردو بولنے والے طبقے کو اپنے معاشرے میں دیکھتا ہوں تو رونا آتا ہے کہ کس سلسلے وار طریقے سے پڑھے لکھے طبقے کو تباہ کیا جا رہا ہے ۔ بلکہ یوں کہیں کہ پڑھے لکھے طبقے کو سیاسی جال میں پھنسا یا جا رہا ہے ، جس کا مقصد حقوق کے نام پر انہیں نچلے درجے کا شہری بنانا ہے ، انگریزوں کی حکومت میں اردو بولنے والوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بغیر سفارش اور میرٹ پر داخلہ اور سرکاری اداروں میں نوکریاں مل جا تی تھیں لیکن اب تو اردو بو لنے والے نوجوانوں کو میرٹ اور قابلیت پرنہ داخلے مل سکے اور نہ ہی اعلیٰ سرکاری نوکریاں ۔
قارئین محترم ! اردو بولنے والے نفیس ، شریف النفس اور تعلیم یافتہ طبقے کے ساتھ آزادی کے بعد سے ایسا کھیل کھیلا گیا کہ آج جن کے باپ دادا کا اثاثہ تہذیب ، خاندانی روایات، اخلاقیات اور تعلیم ہو تا تھا ، ان کی نئی نسل کے پاس یہ ہی چیزیں ناپید ہیں ۔ تعلیم جس قوم کا زیور تھا آج ان کی نسل کے نام نہاد رہنما انہیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اگر تم کو کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ اسلحہ ہے ۔ آج نہایت ہی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب اس نسل کے پاس تعلیم ہے نہ اخلاقیات ، ہتھیار اُٹھا کر چلنے کو وہ سیاست اور تحریک سمجھتے ہیں ۔ کس مقصد کی تحریک ہے؟ کیا اس کی منزل ہے؟ پتا نہیں ۔ باپ دادا کی کیا قربانیاں تھیں؟کچھ معلوم نہیں ، مگر لیڈر کی سال گرہ کب ہے ؟ نہیں بھولتے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مار دھاڑ، ٹکرائو، بد اخلاقی اور جہالت کے سارے سازو سامان سے تو وہ نوجوان لیس ہیں جس کے ماں باپ کی جیبوں میں قلم ہو تا تھا آج ان کی اولادوں کے نیفوں میں پستولیں لگی ہو ئی ہیں ۔
آج میں مسلم معاشرے کے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں اور ان کی سیاسی پسند اور ناپسند کو دیکھتا ہوں تو افسوس بھی ہو تا ہے اور شرمندگی بھی۔ ایک زمانہ تھا جب معاشرے میں اردو بولنے والوں کو تمام طبقات عزت کی نگاہ سے دیکھا کر تے تھے اور اپنے بچوں کو اردو سکھاتے اور اپنے گھروں میں اردو میں بات کر نا پسند کیا کرتے تھے ، دانشوروں ، ادیبوں، شاعروں ، نقادوں اور فن کاروں کا شہرہ تھا زیادہ تر ادبی محفلیں ، مشاعرے ، مشائخ کی محفلیں ہوا کر تی تھیں ۔ غرض یہ کہ تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھا پورا مسلم معاشرہ ۔ اور آج اردو بولنے والا طبقہ کہاں کھڑا ہے ؟ ہر اردو بولنے ولا اگر اپنی بستی ، محلوں ہی میں دیکھ لے تو اسے جواب مل جا ئے گا ۔ لہذا آج ہر اردو بولنے والے کو جذبات سے باہر آکر سوچنا ہو گا ، اپنے لیڈروں کے کردار پر غور کرنا ہو گا ۔ جس نے جذباتی نعرے دے کر ہمیں بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے اور خود لندن میںمزے اُڑا رہے ہیں ۔ اردو بولنے والے اس پارٹی کو بھی پہچانیں جس نے اقتدار میں آنے سے قبل اردو کو سرکاری زبان دینے کی بات کی تھی مگر آج تک اردو کو وہ مقام نہیں ملی جس کے لئے اردو والوں کو بے قوف بنا کر اور اُردو کا راگ آلاپ کر اقتدار حاصل کیا گیا ۔
بہر حال اردو زبان ایک امانت ہے جو نسل در نسل منتقل ہو تی رہتی ہے ، جب ایک نسل اپنے وارثوں میں اس امانت کو دیانت سے منتقل نہیں کر پا تی تو اسی وقت سے اس زبان کے صفحہ ہستی سے معدوم ہو نے کا عمل شروع ہو جا تا ہے اور آج مسلم معاشرے میں وہی سب دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اردو بولنے والے نوجوان اردو سے زیادہ انگریزی اور ہندی زبانوں کی تقلید کر رہے ہیں ۔ جس کی وجہہ سے آنے والی ہماری نوجوان نسل اور آنے والی نسلیں تذبذب کا شکار ہو چکی ہیں کہ آخر بولنے کے لئے کون سی زبان بہترین ہے ۔ افسوس صدا افسو آج اردو زبان سے محروم تو ہم ہو ہی رہے ہیں لیکن ا س کے ساتھ ساتھ اپنی روایات اور ثقافت کا دامن بھی چھوڑ چکے ہیں ۔
رابطہ۔6291697668