اسد مرزا
سابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے پارٹی گیٹ پر ’’پارلیمنٹ سے زبردستی‘‘ نکالے جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے ٹوری ایم پی کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا۔ ایک دھماکہ خیز اور لمبے بیان میں، انھوں نے کامنز کی استحقاق کمیٹی جو کہ اس بات کی تحقیقات کررہی ہے کہ آیا بورس جانسن نے برطانیہ میں لاک ڈاؤن کے درمیان ڈاؤننگ اسٹریٹ کے اپنے دفتر اور گھر میں تفریحی پارٹیاں منعقد کی تھیں، پر الزام لگایا کہ یہ کمیٹی دراصل انھیں مجرم قرار دینے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ اپنے دفاع میں کمیٹی نے کہا کہ اس نے ’’قوانین اور طریقہ کاراور اس کو دی گئی ذمہ داری پر عمل کیا ہے اور تفتیش کی ہے نہ کہ کسی فردِ واحد پرالزام لگانے کی کوشش کی ہے۔‘‘دو دیگر کنزرویٹو ایم پیز نیڈین ڈوریز اور نائیجل ایڈمز نے جانسن کے استعفیٰ کے بعد دوسری بنیادوں پر ہاؤس آف کامنز سے استعفیٰ دے دیایعنی کہ اب کنزرویٹو کو فوری طور پر تین ضمنی انتخابات کا سامنا ہے۔
ان ضمنی انتخابات کے علاوہ برطانیہ کے سیاسی مرکز ویسٹ منسٹر میں بڑی بحث اور قیاس آرائیاں یہ ہیں کہ اب بورس جانسن کیا کریں گے۔ بظاہر ایک وہ ایک ناقابلِ اعتبار شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں سیاسی طور پر کیسے منظر عام پر واپس آنا ہے اس کا فن بھی بخوبی آتا ہے۔ بی بی سی کی لورا کوئنس برگ نے اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کے گزشتہ ٹریک ریکارڈکے اشارے ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر وہ اس بات کا یقین رکھتے کہ وہ جیت سکتے ہیں تو وہ لڑتے اور استعفیٰ نہیں دیتے یعنی کہ اس معاملے میں وہ قصوروار ہیں۔ ماضی میں چار بار جانسن سیاسی طور پر اسی طرح واپس آ چکے ہیں۔
1987 میں، بورس جانسن کو ٹائمز اخبار نے ایک خبر کو غلط طریقے سے رپورٹ کرنے پر برطرف کر دیا تھا، لیکن اگلے ہی سال دی ڈیلی ٹیلی گراف اخبار نے اخبار کے برسلز کے نمائندے کے طور پر ان کی خدمات حاصل کرلیں۔2004 میں، انہیں کنزرویٹو کے شیڈو آرٹس منسٹر کے طور پر ایک معاملے میں جھوٹ بولنے کی وجہ سے برطرف کر دیا گیا تھا، لیکن ایک سال بعد وہ دوبارہ ہاؤس آف کامنز کی فرنٹ بینچ پر واپس آ گئے۔ 2016 میں، وہ کنزرویٹو رہنما اور وزیر اعظم بننے کی اپنی پہلی کوشش سے اس وقت دستبردار ہو گئے جب ان کے قریبی دوست مائیکل گوو نے اس ریس میں شامل ہونے کا اعلان کیا، لیکن جانسن نے حتمی فاتح تھریسا مے کے تحت سیکرٹری خارجہ کے طور پر حیرت انگیز واپسی کی۔2018 میں،جانسن نے مسز مے کی کابینہ کو اس کے بریگزٹ ڈیل پر احتجاجاً چھوڑ دیا،لیکن اس کے اگلے ہی سال وہ پارٹی کے رہنما کے طور پر واپس آگئے اور عام انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی کو بھاری اکثریت سے جیت دلائی۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ دراصل یہ جیت بھی انھوں نے جھوٹ بول کر حاصل کی تھی کہ بریگزیٹ سے یعنی کہ EU سے ناوابستگی کے بعد برطانیہ کو زبردست معاشی فائدہ حاصل ہوگا، جو کہ عملاً رونما نہیں ہوا اور اس کے منفی اثرات موجودہ وزیرِ اعظم اور کنزرویٹیو پارٹی کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ کابینہ کے ان کے ایک سابق دوست کا کہنا ہے کہ ’’بورس جانسن بہت سوچ سمجھ کر چال چلتے ہیں۔ اور وہ کبھی بھی ایسی کوئی چال نہیں چلتے ہیں جس سے انھیں لمبے عرصے میں کوئی فائدہ نہ ہو۔‘‘
ان کی اچانک رخصتی پر مختلف رد عمل سامنے آ رہے ہیں، لیبر کی ڈپٹی لیڈر انجیلا رینر نے جانسن کو ایک ’’بزدل‘‘ قرار دیا جو ’’اپنے اعمال کی خود ذمہ داری قبول نہیں کرتا‘‘ لیکن ان کے سابق مشیر ول والڈن کا کہنا ہے کہ ویہ ان کا آخری داؤ ہے بلکہ وہ اپنی آئندہ کی حکمت عملی تیار کررہے ہوں گے۔ ٹوری پارٹی کے سابق چیئرمین جیک بیری، جوبورس جانسن کے دوست ہیں، انھوں نے صحافیوں کو بتایا:’’اسٹیبلشمنٹ نے بورس کو دروازے سے باہرکردیا ہے۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ کس طرح سے وہ دوبارہ عوام کے قریب آسکتے ہیں۔کیونکہ ان میں کچھ خاص ہے اور وہ ایک غیر معمولی کردار ہیں۔‘‘اس کا مطلب ہے کہ کسی کو بھی ان کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں یقین نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی واضح اشارہ ہے، حالانکہ ان میں سے زیادہ تر چاہے وہ کنزرویٹو ہوں یا لیبر ان کے تازہ ترین فیصلے کے بعد ان کا سیاسی مستقبل ختم دیکھنا چاہتے ہیں۔
جانسن نے حکومت کے خلاف اپنے طنزیہ انداز میں وزیر اعظم رشی سناک کو بھی ’’فضول باتیں کرنے والا‘‘ قرار دیا، جب کہ اپنے دفاع میں وزیر اعظم نے کہا کہ ان کے پیشرو نے ان سے ہاؤس آف لارڈز میں تقرریوں کے لئے متعین کمیٹی کی سفارشات کو مسترد کرنے کو کہا تھا۔موجودہ صورتحال میں کنزرویٹو پارٹی اب پہلے سے کہیں زیادہ ہنگامہ آرائی اور انتشار کا شکار نظر آتی ہے، اگلے عام انتخابات میں اس کے جیتنے کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں۔ لیبر پارٹی جو خون کی پیاسی ہے وہ فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے، جن میں اس کی جیت یقینی ہے۔ اس منظر نامے میں رشی سناک کے لیے عملی طور پریہ زیادہ بہتر ہو گا کہ وہ اس موقع کو پارٹی میں اپنے آپ کواور زیادہ مضبوط کرنے کے موقع کے طور پر لیں اور ساتھ انتہائی دائیں بازو کے حاشیہ برداروں اور دوسرے باغیوں کو جو ان کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں انھیں پارٹی سے نکال باہر کریں۔
دریں اثنا،جانسن اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان بھی مماثلتیں دیکھی جا رہی ہیں۔ دو ملتے جلتے کردار، وسیع کرشمہ اور اس سے بھی زیادہ تنازعہ کی صلاحیت کے ساتھ۔ جو کہ اس بات پر زیادہ زور دیتے ہیں کہ فرد پارٹی سے بڑا ہوتا ہے، اور کبھی سرخیوں سے دور نہیں رہ سکتے اور اپنے قریبیوں کو بھی اپنے اگلے قدم سے آگاہ نہیں رکھتے۔
لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ اگر جانسن دوبارہ پارلیمنٹ کے لیے انتخاب نہیں لڑیں گے، اور واپسی کے سسپنس کو برقرار رکھنے میں خوش ہیں، تو وہ آئندہ سیاسی طور پر کیا کریں گے؟
ایسی اطلاعات ہیں کہ اتفاق سے، ان کا پرانا اخبار ٹیلی گراف فروخت کے لیے دستیاب ہے اور اس کے سابق ایڈیٹر ول لیوس، جو کبھی کبھی بورس جانسن کو جب وہ نمبر 10 میں تھے سیاسی مشورے بھی دیتے تھے،اور ان کے ساتھ ٹیلی گراف میں کام بھی کرچکے ہیں اور جنھیں جانسن نے ابھی ابھی ’سر‘ کا خطاب دیا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ جانسن اور لیوس ٹیلی گراف کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے مشترکہ ٹیم کے طورپر سامنے آئیں۔ یعنی ایک بار پھر سے جانسن صحافت کی طرف پلٹ سکتے ہیں،اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ رشی سناک اور کنزرویٹو پارٹی دونوں کے لیے بدترین دن ہوگا کیونکہ پھر وہ اپنے اخبار کے ذریعے عوام کی حمایت حاصل کرنے اور رائے عامہ کو اپنے حق میں بدلنے کے لیے ساری کوششیں کریں گے اور ان کا سب سے بڑا دشمن رشی سناک ہوں گے جن کے بارے میں وہ کہہ چکے ہیں سناک نے وزیر اعظم بننے کے لیے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔
اگر ہم برطانیہ میں ہونے والی ان سیاسی چپقلش اور اٹھا پٹخ کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو اس سے یہی ظاہر ہوگا کہ چاہے برطانیہ میں آئین تحریری طور پر موجود نہیں ہے لیکن وہاں کی سیاسی قواعد اور سیاست دونوں ہی اس بات کو صاف ظاہر کرتے ہیں کہ وہاں کے عوام اور سیاست داں دونوں ہی حکمرانوں سے شفافیت اور جواب دہی کی امید رکھتے ہیں۔اور سیاست داں بھی انھیں نظر انداز نہیں کرسکتے۔ کیا ہم ایسی توقع ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں سے اور سیاسی جماعتوں سے کبھی کرسکتے ہیں؟ شاید نہیں۔ کیونکہ ہم نے برطانوی نظام کی غلط چیزوں کو ابھی تک اپنائے رکھا ہے لیکن ان کی اچھی روش اور وقت کے ساتھ چلنے کے اصولوں کے علاوہ نیک نیتی سے اپنا کام کرنے کے اصولوں کو کبھی نہیں اپنایا اور شاید یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہوتے ہوئے بھی ہم ہندوستانی سیاست دانوں سے اس سب کی امید نہیں کرسکتے جو کہ برطانوی عوام اپنے سیاست دانوں سے حاصل کرسکتے ہیں۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)