ڈاکٹر عاشق حسین
ہر سال 5 جون کو ماحولیات کا عالمی دن مثبت ماحولیاتی کارروائی کے لیے ایک عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔ یہ اہم دن آنے والی نسلوں کے لیے اپنے اس سیارہ زمین کی حفاظت اور تحفظ کی ہماری ذمہ داری کی یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔ ہر عالمی یوم ماحولیات ایک مخصوص عنوان کے گرد مرکوز ہوتا ہے، اسی طرح اس سال عالمی یوم ماحولیات کا عنوان ’’پلاسٹک کی آلودگی کی روک تھام‘‘ ہے، جو اس وقت کی سب سے اہم ماحولیاتی چیلنجوں میں سے ایک ہے، جس سے نمٹنے کی آج اشد ضرورت ہے۔
موجودہ دور میں پلاسٹک ہماری روزمرہ کی زندگیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے۔ اس کی آسان دستیابی واس کی پائیداری اور کم لاگت کی تیاری اس کے ضرورت سے زیادہ استعمال کا باعث بن چکا ہے، جس کے نتیجے میں اس سے ایک عالمی بحران پیدا ہوا ہے اور ساتھ میں ماحولیاتی نظام، جنگلی حیات اور انسانی صحت کے لیے تباہ کن نتائج پیدا کئے ہوئے ہے۔
گو کہ آج پلاسٹک کی آلودگی ایک اہم ماحولیاتی تشویش کے طور پر اُبھری ہے، کیونکہ پلاسٹک کا بڑے پیمانے پر استعمال اور پلاسٹک کی مصنوعات کو غلط طریقے سے ٹھکانے لگانے کے نتیجے میں ہمارے سمندروں، دریاؤں، جنگلات اور یہاں تک کہ جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں ،وہاں پلاسٹک کا فضلہ خطرناک حد تک جمع ہو گیا ہے۔ پلاسٹک آسانی سے بائیوڈیگریڈ نہیں ہوتا بلکہ اس کے بجائے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں ٹوٹ جاتا ہے جسے مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے، جو ماحول میں سیکڑوں سالوں تک برقرار رہتا ہے۔ یہ مائیکرو پلاسٹک جانوروں کے ذریعے فوڈ چین میں داخل ہو کر ممکنہ طور پر انسانوں تک پہنچ جاتا ہے، جس سے انسانی صحت پر ممکنہ طویل مدتی بُرے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
پلاسٹک کی آلودگی سے متعلق اعداد و شمار تشویشناک ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال 300 ملین ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار ہوتا ہے، جس میں سے نصف سے زیادہ صرف ایک بار استعمال ہوتا ہے اور اس وسیع مقدار کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ مؤثر طریقے سے ری سائیکل کیا جاتا ہے، جب کہ اکثریت ہمارے ماحول میں کوڑے کے طور پر ندی نالوں، راستوں و دیگر جگہوں پر جمع رہتا ہے یا پھر جلایا جاتا ہے ۔ پلاسٹک کا فضلہ نہ صرف گلنے میں سیکڑوں سال کا وقت لیتا ہے بلکہ مائیکرو پلاسٹک میں بھی ٹوٹ جاتا ہے، جو ہماری فوڈ چین میں گھس کر انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ بنتا ہے۔ سمندری ماحولیاتی نظام پر پلاسٹک کی آلودگی کا اثر خاص طور پر شدید ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر پلاسٹک کی موجودہ کھپت اور ضائع کرنے کے طریقے اسی طرح سے جاری رہیں تو 2050 تک سمندروں میں مچھلیوں کے مقابلے میں زیادہ پلاسٹک موجود ہو گا ۔
لہٰذا آج اس مسئلے کی عجلت اور شدت کو تسلیم کرتے ہوئے، حکومتوں، تنظیموں اور افراد کو مل کر ایسے پائیدار حل تلاش کرنا ہوں گے جو پلاسٹک کی کھپت کو کم کریں۔ ری سائیکلنگ کو فروغ دینا ہوگا اور فضلہ کے انتظام کے طریقوں کو یقینی بنانا ہوگا۔ پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے اور زیادہ پائیدار مستقبل کی راہ ہموار کرنے کے لئے ایک کلیدی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ پانی کی بوتلیں، شاپنگ بیگز، اور کافی کپ جیسی چیزوں کو دوبارہ استعمال کے قابل لا نے پر زور دینا ہوگا یا پھر اس کا متبادل استعمال کرنے پر زور دینا ہوگا۔ اس کے علاوہ ’’زیرو ویسٹ‘‘ طرز زندگی کو اپنانا ڈسپوزیبل پلاسٹک کی مانگ کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔ ری سائیکلنگ دوسرا طریقہ ہے جو پلاسٹک کے فضلے کو کم سے کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم انفرادی طور پر سب سے پہلے پلاسٹک کے استعمال کا انکار کر کے اور پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے والی پالیسیوں پر عمل کر کے اور اس بارے میں دوسروں کو آگاہی اور وکالت کر کے اس مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اور آخر میں قدرتی ماحول سے پلاسٹک کے فضلے کو ہٹانے کے لیے مقامی صفائی کی کوششوں میں حصہ لے کر یا کمیونٹی تقریبات جو پلاسٹک کی آلودگی سے متاثرہ ندیوں، پارکوں، آبی ذخائر اور دیگر علاقوں کی صفائی پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، کا اہتمام و حصہ بن کر کے ہم اس مہم میں ایک اہم اثر ڈال سکتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں نہ صرف ہمارے اردگرد کی خوبصورتی کو بحال کرنے میں مدد کرتی ہیں بلکہ اس مسئلے کی شدت و ضرورت کے بارے میں بیداری بھی پیدا کرتی ہیں۔
پلاسٹک کی آلودگی کا خاتمہ اخذ کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی بھی ضرورت ہے اور عالمی یوم ماحولیات اس آلودگی کے خلاف عالمی سطح پر کارروائی و زمینی سطح پر ضروری اقدام کی یاد دہانی کرتا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اس ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ہر فرد، تنظیم اور حکومت کا برابر کا کردار ہے۔ آئیے !آج سے ہم سب ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دیں اور پلاسٹک کی آلودگی پر قابو پانے کی مہم میں جڑ کر آنے والی نسلوں کے لیے ایک صاف ستھرا، اور صحت مند سیارہ بنانے کے لیے فوری اقدام کریں۔ یاد رکھیں پلاسٹک کی کھپت کو کم کرکے، فضلہ کے انتظام کو بہتر بنا کر، ماحولیاتی تنظیموں سے جڑ کر اور ایسی جیسی تنظیموں کا تعاون دے کر، ہم اس عالمی چیلنج پر قابو پا سکتے ہیں۔
آئیےاس عالمی یوم ماحولیات پر، ہم سب پلاسٹک کی آلودگی کو شکست دینے کا عہد کریں۔ یہ ایک چیلنج ہے، جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔آئیے!ہم مل کر، اس اپنے سیارے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک صاف ستھرا، صحت مند، اور پائیدار مستقبل بنائیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا انفرادی عمل چاہے کتنا ہی چھوٹا ہو، یہ اس سمت میں اہم فرق پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مل کر، ہم ایک ایسی دنیا بنا سکتے ہیں جہاں پلاسٹک کی آلودگی بیتی بات ثابت ہو سکتی ہےاورمستقبل کا ماحول ہماری آنے والی نسلوں کے لیے رہنے لائق بن سکتا ہے۔
(مضمون نگارگورنمنٹ ڈگری کالج چھاترو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)
[email protected]