سید مصطفیٰ احمد ۔حاجی باغ، بڈگام
کالج کے زمانے میں ہمیں Francis Bacon کا ایک قول پڑھایا گیا تھا کہ Writing makes an exact man. آگے چل کر اپنے اساتذہ سے ایک اور قول سننے ملا کہ read, read and re-read. ۔بہت سارے مواقع پر یہ بھی سننے کو ملا کہ پہلے جمع کروں،پھر لکھوں۔ ایک استاذ کی نصیحت سب سے زیادہ مجھے یاد ہے جب انہوں نے میرے ایک مضمون پر sarcastic tone میں کہا تھا کہ تو تو وقت سے پہلے ہی مصنف بن گیا۔ اس جیسے بہت سارے واقعات نے زندگی گزارنے کے ڈھنگ پر نمایاں اثرات چھوڑے ،خاص کر لکھنے کے معاملے میں۔ ہر واقع ایک سبق ہے۔ اساتذہ اور اپنے بزرگوں کے ملے جلے تاثرات نے زندگی کے بند دروازے کھول دئیے اور یہ بات لگ بھگ صاف ہوگئی کہ اگر واقعی مجھے بھی مصنف بننا ہے تو مجھے اس grind سے ہو کر جانا ہے، جس سے ہر مصنف کو جانا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایک مضمون کو editing or proofreading کے دشوار کن مراحلوں سے نکال کر error free بنانا اور قارئین کے لئے ایک سبق آموز تحریر پہنچانا، ایک مصنف کا بنیادی کام ہے۔ مگر اس قسم کا تجربہ ایک لمبی زندگی چاہتا ہے۔خوبصورت الفاظ کا استعمال کسی بھی طریقے سے لکھائی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس کے لئے سوچ،exposure, مستقبل مزاجی، self contradiction, self correction, وغیرہ کے اوصاف نہایت ضروری ہیں ۔ خود لکھاری اور خود ہی قاری بننا، مصنف بننے کی دوڑ میں پہلی سیڑھی ہے۔
ایک بااثر مصنف بننے کے لئے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ ہے کہ ایک انسان مختلف کتب کا مطالعہ کرے۔ اس سے چیزوں کو دیکھنے کے زاویے بدلتے ہیں۔ بڑے اذہان کے مطالعہ کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ان کی صحبت میں پاتا ہے اور ایک انسان اس کا براہ راست اثر لیتا ہے۔ اس سے مصنف بننے کے مواقع زیادہ روشن ہوجاتے ہیں۔ کس طرح واقعات کو پیش کیا جاتا ہے، یہ اعلیٰ پایہ کی کتابیں سکھاتی ہیں۔ ایک unprejudiced writer کسے کہتے ہیں، یہ سبق ان قیمتی کتابوں کی خصوصیت ہے۔ اس کے علاوہ زبان کس قسم کی ہونی چاہیے، یہ بڑی کتب کی انفرادی خصوصیات ہے۔ Mirza Waheed, Basharat Peer,Arundhati Roy,Arvind Adiga, Naseem Hijazi, Yuval Noah Harari,وغیرہ کو پڑھ کر انسان زبان کی باریکیوں کو سمجھتا ہے اور لکھنے کے اصل مقصد سے واقف ہوتا ہے۔ تاریخی کتب ہو یا پھر فکشن، انسان زبان کے اُتار چڑھاو سے خوب واقف ہوجاتا ہے۔ کس بات کو کیسے بولنا ہے اور کہاں بولنا ہے، یہ چیزیں ایک انسان اعلیٰ اذہان کو پڑھ کر سیکھتا ہے۔ ایک اور خصوصیت ان معیاری کتب کی یہ ہے کہ آدمی خود قلم اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے اور اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جو جذبات اس کے دل میں شعلوں کی شکل میںہوتے ہیں، اُن کو وہ قلم کے ذریعے سے اپنے سینے کو ایک بھاری بوجھ سے آزاد ہونا چاہتا ہے۔
مگر آج حالات اُلٹے ہیں۔ ہر کوئی مصنف بننے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ کسی زبان پر عبور ہونا، ایک بااثر مصنف کی وصف نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمارے یہاں ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو دو سے زیادہ زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مصنف کی صفوں میں کھڑا ہوسکیں۔ ہر مضمون لکھنے والا اپنے آپ کو بڑے بڑے القابات سے خود ہی نواز رہا ہے۔ ہمارے یہاں دوسروں کے خیالات کو ہی من و عن لکھنا، مصنف ٹھہرانے کے لئے کافی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہاں ہوا۔ جب میں نے لکھنے کا آغاز کیا، تو دوسروں کے خیالات کو ویسے ہی چھاپتا تھا جیسے میں اس کو دوسرے جرائد اور میگزین میں پاتا تھا۔ مگر جب اساتذہ کے سامنے بیٹھنے کا موقع ملا، تب حقیقت کچھ واضح ہوئی کہ یہ کتنا سنگین جرم ہے۔ آج میں جو بھی لکھتا ہوں، اپنے من سے لکھتا ہوں۔ اس میں غلطیوں کے انبار لگے ہوتے ہیں مگر سیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ آج تک یہ ہمت نہیں ہوئی کہ اپنے آپ کو میں ایک مصنف مانوں۔ بس اتنی خوشی ہے کہ میں بھی کچھ الفاظ لکھنے کی پوزیشن میں ہوں۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں فضول مضامین پر لمبے essays لکھے جاتے ہیں، جس سے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں۔ اس سے so-called مصنفین بھی superiority complex کا شکار ہوجاتے ہیں اور pruning کے grind سے نہیں نکل پاتے ہیں۔ اپنی خول میں بند وہ the frog of the well کی مانند ہوجاتے ہیں۔ اس ذہنیت سے جو بھی ان کو باہر نکالنا چاہتا ہے اس کو وہ اپنا دشمن ٹھہراتے ہیں۔ ان لوگوں کی وجہ حقیقی مصنفین کی پہچان ختم ہوجاتی ہے۔ لوگ ان کو پوچھتے بھی نہیںہیں، ان کےباتوں کی کوئی بھی وقعت نہیں رہتی ہے جس کے نتائج بھیانک ہوتے ہیں۔
وقت کی ضرورت ہے کہ اصلی مصنفین کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ان سے لکھنے کی باریکیوں کے بارے میں جانکاری حاصل کئی جائے۔ مطالعہ کی عادت بنائیں اور کم سے کم لکھنے کی کوشش کرے۔ زیادہ لکھنے سے زیادہ غلطیاں ہونے کے امکانات ہوتے ہیں ۔ کم مگر سوچ سمجھ کر لکھنے کے فوائد یہ ہیں کہ مضمون comprehensive ہوتا ہے، جو انفارمیشن کے علاوہ گہرائی بھی رکھتا ہے۔اساتذہ، میڈیا اور سماج کے ذی شعور لوگ اس کام میں نمایاں رول ادا کرسکتے ہیں۔ جو بھی لڑکا یا لڑکی لکھنا چاہتی ہے، اس کا حوصلہ بڑھانا چاہیے۔ مگر کچھ شرائط پر بھی چلنے کی تلقین کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
[email protected]