ابراہیم آتش
ہماری تعلیمی اور معاشی پستی کو جاننے کے لئے سچر کمیٹی کی رپورٹ دیکھ لیں توتفصیل معلوم ہو جائے گی کہ تعلیمی اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے کیا ہمارا حکومتوں پر منحصر ہوناصحیح ہے یا پھر ہمیں اپنی جانب سے اس میدان میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی ایک شخص کا انفرادی معاملہ نہیںبلکہ ملک کے بیس کروڑمسلمانوں کا اجتماعی مسئلہ ہے۔ اس لئے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اجتماعی طور پر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سمت میں 76سال سےکوئی کوشش کیوں نہیں ہوئی، یہ ایک بہت اہم سوال ہے۔ہم جب اپنی پستی کے حل کے بارے میں لوگوں سے سوال کریں تو اس کا مختلف لوگوں کی جانب سے مختلف جواب ملے گا۔دانشوروں کا الگ جواب ہوگا، علماء کا ایک الگ جواب ہوگا، سیاسی رہنمائوں کا الگ جواب ہوگا اور تعلیم یافتہ افراد کا بھی ایک الگ جواب ہوگا اور یہ عجیب اتفاق ہوگا کہ کہیں نہ کہیںان تمام جواب کاالگ الگ ہونے کے باوجود مماثل ہوگا، اس لئے مسلمان تعلیمی پسماندگی اور معاشی پستی سے باہر نہ نکل سکے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اپنے ملک کے مسلمانوں کے ذہنوں پرسب سے پہلے ملک کی اقلیت ہونے کا احساس حاوی رہا اور عدم تحفظ کا احساس ان کی تمام ترقی اور عروج کے لئے روکاوٹ بنا رہا۔ آزادی کے بعدملک میں اکثریت اور اقلیت ہندو اور مسلمان کے نام پر ہرجگہ محاذ آرائی دیکھی گئی۔ مذہب کی بنیاد پر ملک تقسیم ہوا توکٹر پسند ہندویہ سمجھنے لگے کہ یہ ملک ان کا ہونا چاہئے اور اس کے پیچھےایک مخصوص منافر تنظیم کی مسلسل کوششیں رہیں،جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز برتا جانے لگا،آزادی کے بعد خونین فسادات کا لا متناہی سلسلہ بھی مسلمانوں میں خوف اور دہشت پیدا کرتا رہا اور تمام مسلمانوں کی طاقت اور توانائی اِسی کے پیچھے صرف ہوتی رہی۔ منافر تنظیمیںمسلمانوں کو اشتعال دلاتی رہی اور مسلمان اس کا شکار ہوتے رہے اور اپنی تمام تر قوت اور توانائی ان طاقتوں کے دفاع پر صرف کرتے رہے۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان منافر قوتوںکے اشتعال انگیزی کا جواب ضروری تھا، یا اسے نظر انداز کیا جانا تھا؟ اگر نظر انداز کیا جاتا تومسلمان دوسری طرف سوچ سکتے تھے اور دوسری جانب سوچا جانا ہی اپنے اندرایک تبدیلی کی شروعات ہو سکتی تھی، وہ ذہنی فکر کی ابتدا ہو سکتی تھی۔ اس کے بجائے مسلمانوں نے آج تک نا انصافیوں کے خلا ف احتجاج اور شکایت کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی، مگر آج تک اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ہاں! مسلمان اور ہندوئوں دونوںطبقوںمیں وہ لوگ ہیرو بن گئے جو اشتعال انگیز تقریر کرتے رہے اور دونوں فرقوں کو ایک دوسرے کے مقابل ایساکھڑا کرکے رکھ دیا،جیسے جنگی محاذ پر دو فوجیں کھڑی ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہندئوں اور مسلمانوں میں نفرت کی دیوار کھڑی ہو گئی اور وقت کے ساتھ ساتھ فروغ پاگئی۔ اگر یہ بات مان بھی لیں کہ کچھ منافر تنظیموں نے اس کام کے لئے فعال رول ادا کیا ہے تو کیا مسلمانوں کو اس طرح کا جارحانہ رویہ اختیار کرنا ضروری تھا ؟ کیا مسلمانوں کو یہ ذمہ داری نہیں دی گئی ہے کہ وہ تمام قوموں تک اپنےدین اسلام کی دعوت پہنچائیں؟ کیا دعوت الی اللہ کے فرض سے غفلت جائز ہے؟ کیا مدعی قوموں کے ساتھ دشمنی اورنفرت کا ماحول ہمارے اس اہم مقصد کے لئے روکاوٹ ثابت نہیں ہوگا؟ کیا دنیا کی تمام قومیں ہمارے لئے مدعی کی حیثیت نہیں رکھتی؟ کیا ہم داعی نہیں ہیں؟ کیا دنیا کی تمام قومیں ہماری دعوت کے محتاج نہیں ہیں؟ کیا ان قوموں کو ہماری ضرورت نہیں ہے؟ اور جب کسی قوم سے ہم نفرت کریں یا ہم سے کوئی نفرت کرے تو داعی اور مدعو کا رشتہ کس طرح استوار کیا جا سکتا ہے ؟مسلمانوں کے خلاف کار گر ہتھیار یہی رہا ہے کہ مسلمان کھلے ذ ہن سے اپنے مستقبل کے بارے میں کبھی کوئی منصوبہ نہ بناسکیں، اس لئے کئی تنظیموں نے مسلمانوں کو مذہبی مسائل میں اُلجھا کر ہمارے ذہنوں کو ترقی کے بجائے اشتعال انگیزی کی طر ف مائل کیا، کبھی ملک میںفسادات کے ذریعہ عدم تحفظ کا خوف پیدا کیا جاتا رہا اور ہمار ی تمام تر تو جہ اس پر مرکوز ہوتی رہی۔ کبھی حجاب کا معاملہ ،کبھی چار شادیوں کا معاملہ ،کبھی تین طلاق کا معاملہ ،کبھی گائو کشی کا معاملہ ،کبھی شہروں کے نام بدلنے کا معاملہ ،کبھی اذان کا معاملہ ،کبھی نمازوں کا معاملہ ،کبھی سوریہ نمسکار کا معاملہ ،کبھی دیش سے وفاداری کا معاملہ ،کبھی وندے ماترم کا معاملہ ،یہ تمام اسی کی کڑی ہیں جس سے ہمارا ذہن منتشر ہو جائے۔ اس کے باوجود ہم ایک داعی کے حیثیت سے تعلیم کے ذر یعہ ان تمام معاملات کو بحسن خوبی حل کر سکتے تھے اور انھیں اسلام کے اصل حقائق اور خوبیوں کی طرف مائل کر سکتے تھے ۔چنانچہ مسلمانوں کے سامنے سب سے اہم مسئلہ اپنے تحفظ کو لے کر تھا ،اسی کی بنیاد پر مسلمانوں کے تمام سیاستدان اورمذہبی رہنماء تعلیمی پسماندگی اور معاشی پسماندگی کی طرف توجہ نہ دے سکے اور وہ ملک کی سیاست میں جذباتی طور پر کانگریس سے منسلک ہو گئے ۔مسلمان اور کانگریس دو جسم ایک جان کی مانند ہو گئے، مسلمانوں کے پاس کانگریس کا کوئی اور متبادل نہیں تھا، ایمرجنسی کی وجہ سے وہ کانگریس سے الگ ہوئےمگر پھر کانگریس سے جڑ گئے۔ شیلا نیاس کی وجہ سے وہ کانگریس سے الگ ہوئے، پھر کچھ وقفہ کے بعدجڑ گئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھر الگ ہوئے، اس کے بعد اس طرح نہیں جڑے، جس طرح پہلے کانگریس کے ساتھ تھے۔
مسلمانوں میں خواندگی کی شرح ملک میں تمام قوموں سے کم ہے۔ ملک میں پچھڑا طبقہ دلت کہلایا جاتا تھا،وہ بھی اب مسلمانوں سے آگے نکل گئے ہیں۔اب مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ دلتوں کو تعلیم کے میدان میںحکومت کی جانب سے مراعات دی جاتی ہیں،اس لئے دلت مسلمانوں سے تعلیم کے میدان میں آگے ہیں ،اس طرح کا جواز قابل قبول نہیں قرار نہیں دیا جاسکتا ،کیوں کہ مسلمانوں کو بھی تعلیم کے میدان میںحکومت کی جانب سے مراعات دی جا رہی ہیںاور کچھ مسلم ادارے مالی مدد بھی حاصل کرتے ہیں۔مسلمان اپنے اخراجات کو کم کر کے اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتے ہیں۔اُن لوگوں کا برہمنوں کے متعلق کیا خیال ہے ،جنھیں حکومت کی جانب سے کسی قسم کی مراعات نہیں ملتی ہے، یہاں تک کہ پروفیشنل کورسس میں بھی کسی قسم کی رعایت نہیں ملتی، اس کے باوجود وہ جنرل زمرہ میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ان کے والدین ان کو بچپن میں اس طرح کی ٹریننگ دیتے ہیں کہ انھیںاعلیٰ تعلیم کے لئے کوئی کوٹہ نہیں ہے، اس لئے عام زمرہ میں ٹاپ اسکور کر کے وہ اپنی جگہ بنا لیتے ہیںاور لازمی بات ہے کہ اس کے لئے انھیں بہت محنت کرنی پڑتی ہے ۔جب اس طرح محنت کر کے پاس ہوں گے تو انھیں مستقبل میں بھی اس محنت کا خاطر خواہ فائدہ ہوگا اور ان کی ذہنی قابلیت بھی بڑھے گی۔ وہ تعلیمی ادارے جو مسلمانوں کے نام پر قائم کئے گئے ہیں، وہ بھی مسلمانوں کو کوئی مثبت فائدہ نہیں پہنچا رہے ہیںبلکہ ان کا رویہ افسوسناک رہا ہے۔ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے مقصد کے لئے انھیں الاٹ کئے گئے تھے جو آج تجارت کے مرکز بن گئے ہیں۔
مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو کس طرح کام کرنا چاہئے، اس مثال کے ذریعہ مسلمان اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ تمل ناڈو کے شہر ویلور ؔمیں عیسائیوں کا ایک قدیم تعلیمی ادارہ ہے ،جس کا نام کرسچین میڈیکل کالج ہے جو ہندوستان کا مشہور کالج ہے۔ یہاں عیسائی بچوں کو ایم بی بی یس میں مفت داخلہ دیا جاتا ہے، اس کی شرائط یہ ہیں کہ بچوں کے لئے پورے ملک میں ایک امتحان رکھا جاتا ہے اور اس امتحان میں میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دیا جاتا ہے، کالج کی نصف نسشتیں عیسائی بچوں کو مفت دی جاتی ہیں اور اپنے آپ کو عیسائی ثابت کرنے کے لئے اپنے قریب کے چرچ سے سرٹیفکٹ لینا ہوتاہے ۔کیا مسلمانوں کے کسی ادارے میںاس طرح کا نظم موجود ہے؟ اگر مسلمانوں کے تعلیمی اداروں میں قومی سطح پر دس فیصد بھی اس طرح کا نظم ہو تاتو میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں میں تعلیمی بیداری پیدا ہوگی اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور ہوگی۔ اس لحاظ سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی میں دوسری قوموں کی سازش ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔ ہاں یہ سچ ہے کہ مسلمانوں میں اس طرح کا ذہن پیدا کرنے کے لئے مسلمانوں کی جانب سے ہی روکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں یا ان کے ذہن کو دوسری جانب راغب کیا جاتا ہے تاکہ مسلمان اپنے اندورونی مسائل پر توجہ نہ دیں ۔مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا اثر ان کے معاش پر پڑنا فطری بات ہے جب وہ تعلیم یافتہ نہ ہوگا تو لازمی بات ہے، وہ بزنس کرے گا یا نوکری کرے گا،جس کی معاشی حالت اچھی ہوگی، جس کو وراثت میں دولت ملی ہوگی وہ معیاری بزنس کرے گا، جس کے پاس پیسہ نہیں ہوگا ،وہ نوکری کرے گا یا کوئی ہنر سیکھ لے گا۔ مسلمانوں کی معاشی حا لت سب جانتے ہیں، مسلمانوں کی نہ ملک میں بڑی کمپنیاں ہیں اور نہ فیکٹریاں ہیں ،مسلمانوں کو زیادہ تر فٹ پاتھ پر بزنس کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جیسے کوئی پنکچر بنا رہا ہو یا کوئی میکانک یا درزی کا کام کر رہا ہوگا، گوشت ،ترکاری یا جوتے کی دوکان لگائے بیٹھا ہوگا یا پھر چائے کی ہوٹلیں جہاں سارا دن مسلمان گپ شپ کرتے ہوئے دیکھے جائیں گے،نیز ٹھیلے گاڑیوں پر پھل فروخت کرتے ہوئے یا رکشا چلاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اکثر فٹ پاتھ پر یہ لوگ پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہوئے یا میونسپل کارپوریشن کے افسران کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ اور گالیاں کھاتے ہوئے دیکھے جا تے ہیں۔ اس طرح کے بزنس کرنے کے لئے کسی نے سازش کی ہو، ایسا ہمیں نہیں لگتا ۔ہم نے جان بوجھ کر اس طرح کے کاروبار کو چنا ہے۔ کیا ان لوگوں کو ان باتوں سے تقویت ملی جو کہتے ہیں علم دین کا حاصل کرنا ضروری ہے، دنیا کا علم کام آنے والا نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط تشریح ہے۔ مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس کے اندر تمام علوم آتے ہیں۔ اعلی تعلیم حاصل کر کے جائز طریقہ سے جو کمائے گا، وہ حلال ہے اور جو فٹ پاتھ پر دھوکہ دے کرکمائے ،وہ حرام ہے۔ اگر ایک آفیسر غلط طر یقہ سے کمائے گا، وہ حرام ہے اورجو فٹ پاتھ پر ایمانداری سے کمائے گا، وہ حلال ہے۔ یہ الگ بات ہے ایک آئی اے یس آفیسر اور آئی پی یس آفیسر ایک ڈاکٹر اور ایک انجینئر،ایک سائنسدان اور ایک وکیل بننے سے مسلمانوں کو اور معاشرے کو کس طرح کا فائدہ پہنچتا ہے اور اسلام کے لئے کتنا مفید ہو سکتا ہے ،اس کے متعلق لکھنے کے لئے کئی صفحات درکار ہوں گے۔
رابطہ۔9916729890