شیخ عابد حسین
انسان کی عمر جب بڑھ جاتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ حادثات و واقعات کا سامنابھی کرتا ہے لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان حالات و واقعات کو لے کے بڑا سوچ بچار کرتے ہیں ،وہ اس غرض سے کہ کچھ نیا اخذ کیا جائے تاکہ ایک تو زندگی میں مشکلات کا حال ڈھونڈا جائے دوسرا یہ کہ زندگی کو بہتر اور آسان بنانے میں وہ تجربات معاون رہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں بھی ان ہی گنے چنے لوگوں میں سے ہوں جو اکثر اوقات ان حالات واقعات پر سوچنے میں اپنا وقت صرف کرتا ہے تاکہ تجربہ جو کہ زندگی کا اہم ترین حصہ ہے ،وہ حاصل ہو جائے اور پھر جتنا ممکن ہوسکے ان تجربات کو روز مرہ زندگی میں عمل میں لایا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں تک ان تجربات کو پہنچایا جائے تاکہ لوگ بھی فیض یاب ہوجائے شائد کہ وہ تجربات ان کی روز مرہ زندگی میں ان کے کام آجائے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ لوگوں تک ان تجربات کو پہنچانا بھی لازمی ہے۔
ورنہ تجربہ حاصل کر کے اپنے پاس رکھنے میں کوئی دانائی یا اچھائی نہیں ہے۔ بہرحال آج جس بات پر میں گفتگو کرنا چاہوں گا یا جو تجربہ میں لوگوں تک پہنچانا چاہوں گا، وہ اُن تمام لوگو ں کے لئے ہیں جو مریضوں اور تیمار داروں کے زمروں میں آتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ میری کہی ہوئی بات یا تجربہ ان کے کام آجائے ۔دیکھئے اللہ نے بنی نوح انسان میں نعمتیں تقسم کی ہیں اور وہ تمام نعمتیں ایک مخصوص مقدار میں تقسیم کی گئ ہیں، یعنی کسی شخص کو بہت زیادہ مال دار بنا دیا ،کسی کو اسے کم اور کسی کو بنا مال دار رکھا ۔اسی طرح کسی کو گاڑی دی کسی کو پیدل چلایا، کسی کو امیر کسی کو غریب ،اسی طرح صحت کے معاملے میں بھی کسی کو موٹا بنایا، کسی کو پتلا،کسی کو قلب کی بیماری دی ،کسی کو گردوں کی بیماری ،کسی کو کم بینائی دی، کسی کو زیادہ، کسی کو موٹا بنایا،جو بظاہر تندرست ہے لیکن اندر سے کئی طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہے، کسی کو پتلا بنایا لیکن ہر طرح کی بیماری سے پاک رکھا۔
اب ہمیں یہاں یہ سمجھنا ہے کہ ہر شخص امتحان میں مبتلا ہے ۔جو ٹھیک ہے وہ کتنا اللہ کی بڑائی بیان کر رہا ہے کہ اللہ نے اسے دوسروں کے مقابلے میں تندرست بنایا ہے اور جو بیمار ہے وہ بھی امتحان میں ہے کہ وہ اپنی بیماری میں اللہ کے ساتھ اپنا رشتہ کس حد تک برقرار رکھتا ہے اور اللہ کے کیے ہوئے پر کتنا راضی رہتا ہے۔
اب جو لوگ بیمار ہیں، گھروں اور ہسپتالوں کے بیڈوں پر بیٹھ کر صحت یاب ہونے کے بجائے موت کو کیوں یاد کرتے ہیں، وہ اس خیال میں کیوں جی رہے ہوتے ہیں کہ شائد وہ مرنے کے قریب ہیں اور اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں۔ یہ تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب میں سورہ کے میڈیکل انسٹچوٹ میں اپنی دادی کے ساتھ ایک مہینے تک رہا، اس دوران مریضوں کے بارے میں کافی سوچ بچار کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر ایک مریض گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے تو وہ رات دن بیڈ پر بیٹھ کر یہ کیوں سوچ رہا ہوتا ہے کہ وہ مرنے والا ہے یا اس کی زندگی کے آخری دن چل رہے ہیں، جسم کے دوسرے اجزا کو کیوں بیکار کر رہا ہے، اسی طرح اگر کوئی سر کی بیماری میں مبتلا ہے تو بیڈ پر آنکھیں بند کر کے آنکھوں کو بیکار کیوں کررہا ہے، کسی ایک اجزا کے تکلیف میں رہنے سے ایک مریض دوسرے اجزا کو بیکار کیوں کر رہا ہے۔
دراصل سوال ایک بیمار شخص کی بیماری کا نہیں ہے کہ وہ کس طرح کی بیماری میں مبتلا ہے اور کیوں مبتلا ہے ،سوال ایک مریض کے حوصلے کا ہے، مریض کی ہمت اور شجاعت کا ہے ،ایک مشکل وقت میں ایک مریض کس طرح اپنے آپ کوسنبھالنا ہوتا ہے اور مرنے کے بجائے وہ کس طرح اپنے آپ کو حوصلہ دے کر مشکل
وقت سے خود کو آزاد کرے۔ اکثر مریض اسپتال کے بیڈوں پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر کے محض یہ سوچتے رہتے ہیں کہ وہ مرنے کے قریب ہے اور ٹھیک ہونے کی کوئی نامیدی کو اپنی امید بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ میری کئی مریضوں سے بات ہوئی کئی مریضوں کو سمجھائی کر اس بات پر آمادہ کیا کہ موت یقینی ہے اور بیمار ہونے کا مطلب مرنا نہیں ہوتا، ان کو حوصلہ دینے کی کوشش کی تاکہ وہ ٹھیک ہوجائیں۔مریضوں کے ساتھ ساتھ تیمار داروں کا حال بھی یہی ہے تیمار داروں میں کئی کمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں اکثر تیمار دار بیماروں کے پاس جا کر ان سے یہ نہیں پہنچتے کہ وہ کتنا ٹھیک ہو رہے ہیں یا ان کی صحت میں کتنی بہتری آرہی ہیں ،جو کوئی جاتا ہے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ آپ کے ٹیسٹ کیسے ہیں ، آپ کو کس اجزا میں کس طرح کی بیماری ہے، ڈاکٹر نے کیا کہا ٹھیک ہوجائے گا یا نہیں، غرض کہ کچھ ایسے غیر ضروری سوالات، جنہیں سننے کے بعد مریض کے حوش اور زیادہ اُڑ جاتے ہیں، مریضوں کے حوصلے اور زیادہ پست ہوجاتے ہیں اور خاص طور پر مریض ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے، جسے بدن میں اور بھی بیماریاں جنم لے رہی ہی
ں۔ تیمار داروں کو سمجھنا چاہئے کہ ان کا کام مریضوں کو حوصلہ دینا ہے، انہیں غیر ضروری سوچ سے باہر نکال کر انہیں اس بات پر تیار کرنا ہے کہ بیمار ہونے کا مطلب مرنا نہیں ہے ،یہ ایک آزمائش کے سوا کچھ بھی نہیں،انہیں سمجھانا ہے کہ بُرا وقت ہر کسی کا آتا ہے اس کا مقابلہ کرنا ہی دانائی ہے۔
(جنرل سیکرٹری کلچرل فورم کپواڑہ کشمیر)
7889959161
[email protected]>