بشارت بشیر
ہمارے اس معاشرے کی صحت کو جو اخلاقی اور روحانی روگ اندر ہی اندر کھوکھلا کررہے ہیں فی الوقت ان سبھی کی گنتی مقصود نہیں ہے۔ بلکہ جو سب سے بڑا مسئلہ اس حوالہ سے آج سراْٹھا کر اور پھن پھیلا کر ہماری غفلتوں پر تازیانے برسار ہا ہے وہ منشیات اور دیگر نشہ آور ادویات کا وہ پھیلائو ہے جو ہر گذرتے دن کے ساتھ بغاوت پر اْتر آئے تندوتیز سیلاب کی مانند اس معاشرے کی اخلاقی اور روحانی بنیادوں کی نہ صرف یہ کہ چولیں ہلا رہا ہے بلکہ اس کے لرزہ براندام دیوار ودر بھی ڈرا رہے ہیں، کہ اگر انجام گلستان کی فکر نہ کی گئی تو پھر اس کے بنجر بن جانے میںکوئی شک باقی نہیں رہ جائے گا۔ یہ بات تو طے ہے کہ منشیات کی لت ہماری کثیر آبادی کے ایک بڑے حصہ کو لگ چکی ہے۔ اور اب کچھ چونکا دینے والے انکشافات نے تو حساس لوگوں کے پائوں کی زمین سرکا کے رکھدی ہے۔ اخباری اطلاعات یہ بھی ہیں کہ افیون اور برائون شوگر کے غلیظ دھندے میں شامل موت کے ان سوداگروں کے خلاف کوئی موثر کاروائی بھی نہیں کی جارہی ہے۔ جس وجہ سے ان بدقماش لوگوں کے حوصلوں کو مہمیز ملی ہے اور وہ بے دھڑک اِس کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں ۔ کئی علاقوں میں از خود کئی لوگوں نے ایسے بدطینت افراد کو دھر لیا جو کہیں دورسے آکر ان علاقوں کی نسل نو کو اِس وباکی لپیٹ میں دینا چاہتے تھے۔ جنوبی کشمیر کے کئی علاقے خطر ناک حد تک اس وبائی مرض کی زد میں آچکے ہیں اور سرینگر کے کئی اطراف اور ڈائون ٹاون میں بھی یہ کیڑے نہ صرف سرایت کرچکے ہیں بلکہ نئی نسل کے اخلاقی و روحانی وجود کو کس قدر دیمک کی طرح اندر ہی اندر کھا رہے ہیں، عیاں ہونے لگا ہے۔
حیران کن امر تو یہ ہے کہ 1980کے آٹھ برس بعد تک منشیات زدہ مریضوں کی تعداد ہسپتالوں میں 9726 دکھائی گئی۔ جبکہ 2011 کے بعد اس میں تشویش ناک حد تک ہر سال 6000 افراد کا اضافہ ہورہاہے۔ میڈیکل انسٹی چیوٹ دہلی کے مطابق منشیات کی قہر مانی کے شکار نو جوانوں کی عمر وادی میں 18 سال سے 30 سال کے درمیان ہے۔ اور ان میں ہر روز معتدد بہ اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چرس، روزفلی، اور بھنگ کے کاروبار میں ملوث لوگوں کی گرفتاری اگر عمل میں آئی ہے تو فوری اس کی تشہیر بھی ہوتی ہے لیکن ہیروئن اور برائون شوگر کے علاوہ نشیلی ادویات کے گندے دھندے میں ملوث لوگوں کو پکڑنے کی بھی خبریں ملتی ہیں،اس کے باوجود موت کے ان سوداگروں کا باقاعدہ ایک مافیا کام کررہا ہے۔ اور عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ان میں سے صرف چند ایک پر ہاتھ ڈالا جائے تو وہ اس سارے نیٹ ورک کو طشت ازبام کرسکتے ہیں، جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ان سماج دشمن عناصر کے خلاف سرگرم عمل ہے اور اس سلسلے میں نہ صرف نشیلی اشیاء کو ضبط کر رہی ہے۔ بلکہ سینکڑوں لوگوں کو حراست میں بھی لیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے کو وسیع بنایا جائے اور سارے سماج کی اخلاقی موت واقع ہونے سے پہلے اس وبا کے خاتمہ کے لئے زندگی کے ہر طبقے کے لوگوں کو سامنے آنا ہوگا۔ ملوثین کوقانون کے تحت ادارے عبرتناک سزا دیں تاکہ پھر اس غلیظ کاروبار میں شامل ہونے کا خیال بھی کسی کے حاشیہ خیال میں نہ آئے۔حد درجہ افسوسناک امریہ ہے کہ ماہرین یہاں تک کہنے کو آئے ہیں کہ جغرافیائی طور کشمیر منشیات کے عالمی مارکیٹ کی راہ داری ہے۔ ایک ماہر ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ 1980 کے دھائی میں ہمارے یہاں سے چرس ، گانجا اور افیم پوری دنیا کو جاتی تھی۔ ہم نے ساری دنیا کو منشیات سے چٹکائی مگر خود ان دس سالوں میں صرف اس مرض کے شکار دس افراد ہسپتالوں میں داخل ہوئے تھے۔ مگر اب حال یہ ہے کہ تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے۔ حساس لوگوں کی نیندیں اُڑچکی ہیں اور بے حدپریشان ہیں۔
ماہرین نفسیات ، دانشوروں اور علماء نے اس جانب متوجہ ہو کر منشیات کی اس وبا کو روکنے اور نفسیاتی امراض کے اصل وجوہ جاننے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی غور کرنے کی دعوت دی ہے۔کہ ان عوامل کو بھی جاننے کی کوشش کی جائے کہ ہماری نئی نسل یعنی ہمارے کل کا ایک بہت بڑا حصہ کیوں اس خودکشی کی راہ پر گامزن ہے اور کیوں وہ اپنے وجود کے درپے آزار ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ہم میں سے آج ہر شخص حصول سیم وزر کی دوڑ میں اس قدر منہمک ومشغول ہے کہ اْسے نہ صرف یہ کہ اپنے گردوپیش کی کوئی خبر نہیں بلکہ مقام تاسف ہے کہ ہمارا خاندانی نظام بھی اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ ایک ہی کنبے میں رہنے بسنے والے لوگ ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے اتنے دور ہوچکے ہیںکہ وہ ایک دوسرے پر کیا گذررہی ہے،حالات وکوائف کیا ہیںاس سے قطعی طور نابلد نظر آتے ہیں۔ رشتوں کی دوڑمیں یہ لوگ ضرور بند ھے ہیںلیکن صبح پوپھٹتے ہی حصول معاش کیلئے نکلنے والے لوگ رات گئے جب واپس لوٹتے ہیں تو ایک دوسرے کے مسائل ومشکلات اور دکھ درد سے آگاہی حاصل کرنے کا نہ کوئی موقع فراہم ہوتا ہے اور نہ سکون کے ساتھ یکجا بسر کرنے کے کچھ لمحات ہمارے پاس ہوتے ہیں۔ وقت کا تیز رفتار پہیہ ہے کہ چلتاہی جاتا ہے۔ اور ہماری زندگی میںپلتی بڑھتی بے چینیاں ہیں کہ اس میں اضافہ در اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔ نتیجہ کے طور پر ہماری نئی نسل جو لمحہ بہ لمحہ ہماری توجہ کی طالب تھی ہمارے ذہن ودل سے اوجھل ہوگئی۔ وہ یا تومسائل کے انبار تلے اس قدر دب گئی کہ کوئی حل بتانے والا باقی نہیں رہااور نہ کوئی ہمدردر ودوست اسے خود اپنے گھر میں ہی نظر آتا ہے۔ وہ اللہ کے ذکر سے دور منشیات کی ہلاکت خیز وادی میں قدم رنجہ کیا ہوئے ان لاڈلوں کی زندگیوں کے انکچر پنکچر ڈھیلے ہوگئے۔کچھ ایسے صاحبزادے بھی ہیں جو والدین کے لاڈ پیار اور دھن دولت کی ریل پیل اور عدم تربیت کی وجہ سے نشہ آور ادویات کی گولیوں میں تلاش سکون کرنے لگے۔والدین کی نیند ٹوٹی لیکن تب تک اولاد کی نہ صرف یہ کہ اخلاقی نیا ڈھوب چکی ہوتی ہے۔ بلکہ اس کی توانائیاں اور تنو مندیاں اب یادگار پارینہ بن چکی ہوتی ہیں۔ اس موقع پر اب ہائے وائے کرنے اور لاڈلے کے اس انجام بد کی ذمہ داری کسی اور کے بچے پر ڈال کر اپنے کو بری الذمہ بنانے کیلئے ہماری ہر کاوش ہوتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریوں سے پوری طور عہدہ برآنہیں ہوتے۔اپنی اولاد کو صحت مند بنانے اور مادی لحاظ سے اسے ’’سب سے اونچا‘‘دیکھنے کیلئے ہم کس حد تک نیچے جاتے ہیں۔ چشم فلک ہمارے اس عمل پر اشک بار اور دل فگار ہے۔دنیا جہاں کے علوم سکھانے اور اسے ہر میدان میں منفرد اور یکتا دیکھنے کیلئے ہم میں سے اکثر حلال وحرام کی تمیز کے بغیر ان کی ہر فرمائش ومطالبہ پورا کرنے پر فرحت وسکون محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ان کے روح ودل سے راحت وسکون عنقا کیوں ہورہا ہے۔ صبح گھر سے روانگی کے وقت سے شام اسکی واپسی تک اس کی کارگذاریاں کیا رہتی ہیں؟ کس قسم کے لوگ اس کے حلقہ احباب میں شامل ہیں ؟مدرسہ وکالج میں تعلیم وتعلم کے تعلق سے اس کی ترقی کی رفتار کیا ہے۔ اس کے لباس کا اسٹائل اور روز اس کی بدلتی وضع قطع کیا پیغام دیتی ہے۔ گھر کے معاملات ومسائل سے اس کی لاتعلقی کا راز کیا ہے۔ بھائی بہنوں اور خود والدین سے عدم التفات اور بات بات پر چڑنا روٹھنا کس قسم کا خطرناک الارم ہے اس کے کمرے میں سیلبس کی کتابوں کیلئے مطالعہ کا کون سامواد ہے۔ اس کی الماریوں میں پڑی سی ڈیز میں کچھ پیام نور ہے یا روح کو جلانے جھلسانے والی آگ وآتش یہ وہ سوالات اور توجہ طلب اہم ترین امور ہیں جن کی طرف ہماری توجہ جاتی ہی نہیں۔ جبکہ یہ بات الم نشرح ہے کہ اولاد کی تربیت شیشہ گری کا فن ہے۔ اور اس کیلئے والدین کا بہت ہی حساس ،ذہین، بالغ نظر اور بچے کی نفسیات سے واقف ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ کون سی تْک ہے کہ اولاد کی کسی کامیابی کا سہرا اْس کے سرباندھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ’’عقلمندی ‘‘ کے سر بھی باندھ لیں۔اسے یا تو اپنے زور بازو کی کمائی کا کمال قرار دیں یا اپنی ’’ذہانت‘‘ کی کرشمہ سازی۔ لیکن جب اولاد کے قدم کہیں ڈگمگائے ، پیر پھسل گیا ، معاشرے میں ’’ناک‘‘ کچھ زخمی ہوئی۔ تو دوش کسی اور کو دیں۔ دنیا کا ہر مہذب معاشرہ اس مشت خاک کی تعمیر میں والدین کے رول کو اہم قرار دیتا ہے۔ اور قرآن نے تو صریح الفاظ میں خود اپنے اور اپنے عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ذمہ داری گھر کے سربراہوں پرہی ڈال دی ہے۔اور امام کائناتؐ کا یہ فرمان بھی رہ رہ کر ہمارے سامنے آتا ہے کہ ’’تم چرواھے ہو اور ہر چرواھے کو اپنے ریوڑ سے متعلق پوچھا جائے گا‘‘۔
بہر حال والدین بھی اپنی ذ مہ داریاں نبھائیں ، اساتذہ کا کردار بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے اور خطباء، علماء،دانشوروں اور صحافی حضرات اس روگ کیلئے دوائے اکسیر ہیں۔ اور ہاں یہ بھی دیکھا جائے کہ منشیات کا یہ کاروبار شیطان کی آنت کی طرف کیوں بڑھتا جارہا ہے۔ آئے روز ایسے لوگوں کی گرفتار ی کی خبریں اخباروں کی سرخیاں بنتی تو ضرور ہیں۔لیکن پھر کیا انہیں کوئی ایسی سزا سنائی بھی گئی کہ یہ لوگ دوسروں کیلئے نشان عبرت بن کے رہ جاتے۔ ہمارے یہاں زندگی کی دوڑ میں کچھ پیچھے رہنے،حسب تمنا روز گار نہ ملنے ، دفاتر میں صحیح مقام و منصب نہ ملنے یا کچھ گھریلو مسائل کے شکار بہت سارے لوگ ڈیپریشن اور افسردگی کی زد میں ہیں۔ہم نے انہی کالموں میں کئی بار ایسے لوگوں کو عزم وارادے کے دھنی اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھنے والے لوگوں کی داستانیںرقم کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عزم راسخ ہی ہمیں منزل مراد تک پہنچا سکتا ہے۔
رابطہ : 9419080306