بٹ شبیر احمد ۔شوپیان
ایسا درویش جس کے بچپن،جس کی تخلیقی صلاحیتوں اور سوچ پر ہم نے اپنی مرضی تھوپی ہے ۔جی ہاں! اگر دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ہم اپنے بچوں کا بچپن ان سے کتابوں کے نام پر چھین رہے ہیں تو شاید غلط نہیں ہو گا ۔ہمارے یہاں تعلیم کا مدعا و مقصد دنیا کے دیگر ممالک سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ کئی اعتبار سےچونکا دینے والا ہے ۔ایک طبقہ، اسناد کے حصول کو ہی تعلیم کا اصل مقصد سمجھتا ہے اور دوسرا طبقہ نمبرات کے حصول کو ۔ ہوا اور پانی کو پس پشت ڈال کر معصوم اور نازک بچوں کے کاندھوں پہ بستہ کا بوجھ ڈال کر اور پھر دو سیٹوں پر تین معصوموں کے بڑے بڑے بستوں کے ساتھ ان کے لنچ بکس اور دیگر ساز سامان کو ٹھونس کر، ہم ان کے لئے سانس لینا بھی دشوار کر دیتے ہیں ۔ یہ بستوں کا وزن ان نازک کندھوں پر جب پڑتا ہے تو یہ نازک کمر جھک جاتی ہے ۔ کلاس رومز میں جہاں بیس بچوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے ،وہاں تیس چالیس کو بٹھا دیتے ہیں ۔ موسم گرما کی تپتی ہوئی دھوپ میں جہاں خود ہم اے ۔سی اور پنکھوں والے کمروں میں فیس، ڈسپلن اور دیگر ضروری باتیں ڈسکس کرتے رہتے ہیں وہیں دوسری جانب چالیس پچاس منٹوں تک معصوم بچوں کو مارننگ اسمبلی میں کھڑا کرکے انہیں صحت مند رہنے کے گُر سکھاتے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اکثر بچے اس اسمبلی سے ہی اُکتا جاتے ہیں اور دن کی شروعات ہی خوف،ڈر، مجبوری اور اکتاہٹ سے ہوجاتی ہے ۔اس طرح کی دھوپ میں ہم نماز پڑھنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوسکتے ہیں تو پھر معصوم بچوں کے ساتھ تعلیم کے نام پر یہ تشدد کیوں ؟مارننگ اسمبلی کی اہمیت سے انکار نہیں مگر چلچلاتی دھوپ کے تھپیڑے بہت درد دیتے ہیں ۔
ایک دن میں چالیس چالیس منٹوں والی سات آٹھ کلاسز دے کر جن میں انگریزی، اردو، ہندی،کشمیری اور عربی کے ساتھ اب چند جملے تامل کے بھی ٹھونسے جاتے ہیں اور اس پر دعویٰ یہ کہ مادری زبان میں پڑھنا اور پڑھانا سب سے موثر اور مفید ہوتا ہے ۔
دن بھر نا مناسب کلاس روم میں قید کرکے ہم کرسی پر ٹیچر اور میڈم کو سنتری کے روپ میں بٹھا دیتے ہیں کہ کڑی نظر رکھی جائے تاکہ بچوں کی بولتی بند کی جائے اور وہ زندگی بھر کسی کے سامنے بولنے کی ہمت نہ کر سکے ۔حد تو یہ ہے کہ اکثر بچوں کی شکایت رہتی ہے کہ انھیں ٹائلیٹ تک جانے سے روکا جاتا ہے اور کئی معصوم بچے ڈر اور خوف کے سبب پھر ٹائلیٹ جانے کے لئے پوچھتے بھی نہیں اور کئی طرح کے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ایسا باور ہوتا ہے جیسے اسکول میں نہیں کسی جیل میں انٹری ہوتی ہےاورجہالت و دقیانوسی کی انتہا یہ ہے کہ جب اس کے بارے میں سوال اٹھایا جاتا ہے تو ان چیزوں کو ڈسپلن سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
اب دن بھر یہ بچے قیدی بن کر تو ہوتے ہی ہیں ۔چار بجے کے بعد بھی ہم ان سے ان کا بچپن ہوم ورک کے نام پر چھین لیتے ہیں ۔لکھائی ، پڑھائی اور ایکٹوٹیز سے ان کو فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ ماں باپ کے ساتھ بات کرتے ۔ اب اگر کبھی فرصت مل بھی جائے تو فرصت کے ان اوقات میں گوگل، یو ٹیوب، گیمز اور کارٹون نیٹ ورک کا استعمال کرکے رہی سہی کسر بھی نکال لیتے ہیں ۔
اب نئی ایجوکیشن پالیسی کے تحت ان ساری چیزوں پر فوکس کیا گیا ہے ۔مادری زبان کی اہمیت بھی واضح ہے ۔اسکول بیگ کا وزن بھی مد نظر رکھا گیا ہے ۔ہوم ورک کا بوجھ اور دیگر ایکٹوٹیز بھی اس پالیسی میں زیر بحث لائی گئی ہے ۔جو ایک خوش آئند بات ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل بھی ہوگا یا معمول کی طرح وہی بوجھ،وہی مسافت ان معصوموں کے نصیب میں ہوگی ۔ والدین کو بھی سمجھنا چاہیے کہ تعلیم محض نمبرات اور اسناد کے حصول کا نام نہیں ہے ۔یہاں والدین اور اساتذہ کے ۔جی کلاسز سے ہی بچوں کو نمبرات اور کتابوں کا درویش بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔جہاں بچے نے سو میں سے سو نمبرات حاصل کئے ،وہیں گاوں کے چواراہے پہ اس کا جشن اس طرح منایا جاتا ہے جیسے بچہ کے۔ایس کا ٹاپر آیا ہو ۔اگر کسی ممی کے معصوم لاڈلے کو سو میں سے پچاسی ملتے ہیں تو ممی آسمان سر پر اُٹھالیتی ہے اور بچوں کے پڑھانے والوں کے سات پشتوں کی خبر لیتی ہےاور معصوم بچے کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ سو فی صد نمبرات حاصل کرنا ہی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اور خوشی ہوتی ہے ۔جب بھی کوئی بچہ پڑھائی میں اول آتا ہے تو ایک انار سو بیمار والی بات ہوجاتی ہے ۔ آنگن واڈی والے، اسکول والے،ٹیوشن اور کوچنگ کرانے والے لائن میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور کریڈٹ لے جانے کا کوئی چانس نہیں چھوڑتے ہیں ۔اب خدشہ ہے کہ اس دوڑ میں کہیں نرسنگ ہوم اور میونسپل کارپوریشن والے بھی شامل نہ ہوجائیں کہ بچے کا جنم یہاں ہوا ہے اور اندراج ہم نے کرایا ہے، اس لئے رزلٹ اتنا اچھا آیا ہے۔غرض ہم ہر میدان میں میدان مارنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں پھر قسمت کی بات ہے کب کس کو کیا مل جائے ۔ اب ہمارے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بچوں کو اتنی چھوٹ دی جائے کہ وہ اپنی من مانیاں کرتے پھریں ۔اگر ماں باپ کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کا بچہ یا بچی کہاںاور کس طرح کی صحبت میں اپنا وقت گزارتے ہیں تو یہ صورت حال نہ صرف بچے ، والدین اور اساتذہ کے، بلکہ سماج اور ملک کے حق میں بھی کارِ درد اور نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔
موبائل ۔ 9622483080
[email protected]