رئیس یاسین
زندگی خوشی اور غم کا حسین امتزاج ہے۔ بعض لوگوں کی زندگی میں خوشیوں کا تناسب زیادہ ہوتا ہے جبکہ کچھ لوگ اپنی زندگی کا زیادہ حصہ غم ہی اٹھائے پھرتے ہیں ،یہ قدرت کی بغرضِ امتحان وہ حکیمانہ تقسیم ہے، جسے انسان چیلنج نہیں کرسکتا۔زندگی میں اللہ تعالیٰ کسی کو غم دے کر آزماتا ہے تو کسی کو خوشی دے کر آزماتا ہے۔البتہ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جب خوشی اجتماعی طور قومی و ملی سطح پر منائی جاتی ہیں جیسے عید الفطر اور عید الاضحی کے موقعے پر ۔ ظہور اسلام کے بعد اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو خوشی منانے کیلئے سال میں دو دن عطا فرمائے۔ عید الفطر وعید الاضحیٰ جن میں سے عید الفطر کی خوشیاں آج ہمارے در پر دستک دے رہی ہیں، اور دنیا بھر کی پوری ملت اسلامیہ خوشیاں منا رہے ہیں۔اسلام میں جہاںماہِ رمضان کے اختتام پر روزوں کے شُکرانے کے طور عید الفطر خوشیوں کو اظہار کرنے کا دن ہے ،وہیں اسلام نےاِس خوشی کو منانے کا طریقہ بھی وضع کردیاہے۔ جیسے نہانا دھونا، پاکیزگی اختیار کرنا، فطرانہ ادا کرنا، حسبِ توفیق نیا لباس پہننا، خوشبو لگانا، نماز عید ادا کرنا، آپس میں عید کی مبارکباددینایا تحفے دینا، دعوت و طعام کرنا ، تکبیرات کہنا، میٹھی چیز کھانا وغیرہ ہے۔ چنانچہ دورِ حاضر میں نمود و نمائش، اسراف اور دیگر شیطانی کاموں کا بھی بے جا داخلہ ہوچکا ہے ،اس لئے اِس بحث میں اُلجھے بغیر آگے بڑھتے ہیں۔ دولت مند طبقات کے لیے عید واقعی خوشیوں کا جھرمٹ ہوتا ہے۔ لیکن غربت کی چکی میں پس رہے طبقے،مفلس ، مصیبت زدہ ، محدود آمدن والےاور بنیادی ضرورتوں سے محروم مسلمانوں کیلئے عید بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی ہے۔چنانچہ عید کی خوشیاں منانے کیلئے درکار اور مطلوبہ وسائل میسر نہ ہونے کے کارن ، اُن کے گھروں میںعید کی خوشیاں معدوم رہتی ہیں۔ اصل میں یہ امتحان ہوتاہے،آسودہ حال اور مال دار طبقہ کے لیے۔ کیا ان موقعوں پر ہم سبھی انفرادی یا اجتماعی طور پر اُن لوگوںکا خیال رکھتے ہیں، جن کے گھروں میں روزانہ دو وقت کی روٹی کے لئے تنگی رہتی ہے،جن کےگھروں میں بیمار بچے یا بوڑھے والدین علاج معالجے، میڈیکل ٹیسٹ و ادویات کے لئے تڑپتے رہتے ہیں۔کیا ہمیں اُن گھرانوں کی حالت ِ زارکا اندازہ ہے ،جن کے بچوں کے والد ،یا جن والدین نوجوان بیٹے ، جرمِ بے گناہی کی پاداش میںقید خانوں میں سڑ رہے ہیںاور وہ اُن کے لئے وکیل تک کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔اُن گھروں کی صورت حال سے بھی کیا ہم واقف ہیں، جن میںغربت اور مفلسی کے باعث جوان بیٹیاں بغیر نکاح کے بوڑھی ہو رہی ہیں۔اُن یتیم بچوں ، اُن بے سہارا والدین اور بے بس بہن بھائیوں اور لاچاربیوائوں کا ہمیں کچھ علم ہے ،جن کے والد ،جن کی اولاد ،جن کے بھائی اور جن کے شوہر شہید ہوچکے ہیں۔بلا شبہ ہماری غفلت ،ہماری خود غرضی اور ہماری دین سے دوری کے باعث ہی ملت اسلامیہ کی یہ آفاقی خوشی بھی اُن لوگوں کے آنگن کا رُخ نہیں کرپاتی ہے۔ ایک طرف جن کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال موجود ہیں ،وہ کے عید کے دن اسراف اور فضول خرچی میں اپنا مال بے جا طریقے پر لُٹاتے رہتے ہیں تو دوسری طرف اس کا رشتہ دار، ہمسایہ غریبی کی زندگی بسر کر رہا ہے، اس کے لئے یہ عید کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی۔
رمضان المبارک میں اُمت مسلمہ کی طرف سے بے پناہ انفاق، صدقات و خیرات اور ادائیگی فطرانہ و زکوٰۃ کے باوجود ہمارے بے شمار مسلمان گھرانے شدید تنگدستی کے باعث عید کی خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں، جو کہ ایک المیہ ہے۔ اِس کے اسباب اور حل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
اول: زکوٰۃ کی ادائیگی میں بخل سے کام لینا۔ جہاں پر قرآن میں نماز کا حکم آیا ہے وہی پر زکوٰۃ کا حکم بھی آیا ہے۔ اگر سارے صاحب نصاب لوگ زکوٰۃ ادا کریں گے تو دنیا میں کوئی انسان بھی بھوک کی وجہ سے نہیں مرے گا۔ ہمارے یہاں زکوٰۃ کو اجتماعی طور پر جمع کرنا چاہیے اور پھر اجتماعی طور پرمستحق افراد میں خرچ ہونا چاہئے ۔ لیکن یہاں پر اکثر لوگ زکوٰۃ دیتے ہی نہیں۔اوراگر کچھ لوگ زکوٰۃ دیتے بھی ہیں تو اس میں بھی بخل سے کام لیتے ہیں۔
یہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں امراء کی ایک بڑی تعداد زکوٰۃ ادا کرنے سے کتراتی ہے اور صدقات و خیرات کرنے پر اکتفا کرتی ہے جو کہ اُن کے ذمہ زکوٰۃ سے بہت کم ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں، زکوٰۃ کی ادائیگی فرض ہے اور اِس فرض سے روگردانی کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ اپنے ذمہ واجب الادا زکوٰۃ مستحقین تک اُن کا حق سمجھ کر اور اپنا فرض جان کر پہنچائیں۔
دوم ۔مستحقین کی تلاش :مستحقین کو تلاش کرنا صدقہ و خیرات کرنے کا حصہ ہے۔ لہٰذا پیشہ ور بھکاریوں کو رقم دینے کے بجائے اپنے متعلقین میں موجود سفید پوش مستحقین کی تلاش کریں اور رازداری کے ساتھ اُن کی عزتِ نفس مجروح کیے بغیر مالی اعانت کریں۔
سوم ۔فطرانہ کی ادائیگی: فطرانہ کی ادائیگی مقررہ وقت سے پہلے پہلے کردیں اور فی کس فطرانہ کی جو رقم مقرر کی گئی ہے۔ حسبِ توفیق اُس سے زیادہ ادا کریں۔
چہارم ۔بچوں کی تربیت: اپنے بچوں کو سکھائیں کہ جو عیدی اُن کے پاس اکٹھی ہوئی ہے، اُس میں غریب مسلمانوں کا بھی حق ہے۔ لہٰذا انہیں ترغیب دیں کہ بچے اپنی عیدی میں سے خود کچھ رقم چیریٹی پر لگائیں۔ اِس عمل کے ذریعے بچے اوائل عمری سے ہی خوشیاں بانٹنے کے عادی ہوجائیں گے۔غرض یہ کہ قوم اس وقت مالی دشواری سے گزر رہی ہیں جن کے کاروبار ہیں، ان کے کاروباروں میں مشکلات درپیش مسائل ہیں۔ قوم کی ایک بڑی تعدا د بے روز گار ہے۔ہمیں چاہئے کہ عید سادگی سے منائیں۔ غیر ضروری اسراف سے گریز کریں۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں۔کہیں کوئی کمزور، مسکین، لاچار تو نہیں، جن کو عید منانے کے لیے بنیادی وسائل کی ضرورت ہے۔
[email protected]>